اگلے تین گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ لوگ مری پہنچے کشمالہ اور زہرا تو پھچلے دو گھنٹے سے سو رہی تھیں لیکن پہاڑی شروح ہوتے ہی جہانزیب نے انہیں جگا دیا
ایک تو وہ دو گھنٹے سے چپ چاپ ڈرائیو کرتے ہووے خاصا بور ہو گیا تھا اور دوسرا وہ چاہتا تھا ک وہ لوگ ان حسین وادیوں ک حسن سے لطف اندوز ہوں
ابھی صبح ہونے میں تھوڑا وقت تھا جوں جوں وہ اوپر جا رہے تھے کشمالہ ک خوف میں اضافہ ہو رہا تھا وہ بار بار جہانزیب کو آہستہ چلانے کو کہ رہی تھی جہانزیب اسے تسلی دے رہا تھا ک کچھ نہیں ہوتا پر جوں ہی کوئی خطرناک موڑ اتا کشمالہ ک خوف میں مزید اضافہ ہو جاتا
کشمالہ ک برعکس زہرا باہر ک منظر سے خوب لطف اندوز ہو رہی تھی ہلکی ہلکی بوندا باری نے منظر کو مزید دلکش بنا دیا تھا پہاڑیوں پر بنے گھروں کی لائٹس اس اندھیرے میں ایسے لگ رہی تھی جیسے پہاڑوں پر جگنوں کا بسیرا ہو
کشمالہ زہرا اور جہانزیب کی تسلیوں ک بعد اب تھوڑی پرسکوں ہو گئی تھی جوں جوں گاڑی اپر جا رہی تھی سردی کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا کشمالہ اور زہرا نے شال نکال کر اوڑھ لی جہانزیب نے پہلے سے سی کالے رنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی
لگتا ہے برف باری ہونے والی ہے جہانزیب نے کہا
یہ سنتے ہی کشمالہ اور زہرا کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہ رہا ایسا لگ رہا تھا انہیں کسی نے خزانے کا پتا بتا دیا ہو گرمی ک ستاۓ لوگ جب بارش کی خبر سنتے ہیں تو اتنے خوش ہوتے ہیں یہ تو پھر برف باری کی خبر تھی
جہانزیب پانچ گھنٹے کی ڈرائیو کر ک تھک گیا تھا لیکن کشمالہ کو خوش دیکھ کر اس کو خود میں ایک نئی توانائی بھرتی محسوس ہو رہی تھی
اس نے دل ہی دل میں اسکے سدا خوش رہنے کی دعا کی تھی
ایک دفع کشمالہ نے اپنے رب سے یہ خواھش کی تھی ک کاش کوئی ایسا ہو ک مجے دعاؤں میں مانگے
آج مری کی اس وادی میں ایک شخص نے اسے تو نہ مانگا تھا لیکن اسکی خوشیوں ک قائم رہنے کی دعا ضرور مانگی تھی کاش کشمالہ یہ جان سکتی
کتنی خوشی ہوتی کہ اگر فرشتے آ کر چپکے سے ہمارے کان میں یہ بتا جاتے ک اے خوش نصیب تیری خوشیوں کی دعا ایک شخص نے بڑی شدت سے مانگی ہے اور تیرے رب نے اسکی دل سے مانگی ہوئی دوا قبول کی ہے
—————————————————————-
جہانزیب نے گاڑی ہوٹل ک سامنے روکی تھی جہاں انہیں رہنا تھا ہلکی ہلکی بوندا باری اب برف باری میں تبدیل ہو گئی تھی
کشمالہ اور زہرا جلدی سے گاڑی سے باہر نکلی تھیں کہ کہیں برف باری ختم ہی نا ہو جائے
زہرا فون نکال کر تصویریں بنا نے لگ گئی جبکے کشمالہ نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا جہاں سے روئی ک چھوٹے چھوٹے گولے نیچے گر رہے تھے
ہاتھوں میں سامان لئے جہانزیب بھی گاڑی سے نکل آیا گرلز اندر چلیں ورنہ ٹھنڈ لگ جائے گی اور پہلے ہی دن بستر کی ہو کر رہ جایئں گی جہانزیب نے کہا اور اندر کی طرف قدم بڑھا دیے
زہرا نے بھی اس کی تقلید کی کشمالہ نے ایک قدم بڑھایا لیکن پھر رک گئی ایک دفع پھر نظریں اٹھا کر آسمان کو دیکھا جہاں سے اب وہ روئی ک گولے زیادہ مقدار میں برس رہے تھے اور اس ک حسین بالوں اور کندھوں پر گر رہے تھے
اسکی نظریں ابھی بھی آسمان پر تھی ان سرخ لبوں نے چپکے سے شکریہ کہا اور اس حسین شہزادی نے اندر کی طرف قدم بڑھا دیے اس شہزادی کو لگا جیسے اس حسین وادی نے یہ روی ک گولے اس پر تحفعتاً برسا دیے ہیں شہزادی کو وادی کا یہ استقبال پسند آیا تھا
گرلز کیا خیال ہے پہلے ناشتہ کریں یا پھر آرام کرنا ہے جہانزیب نے اندر اتے ہی پوچھا
ابھی تو بوہت تھکے ہووے ہیں ایسا کرتے ہیں پہلے آرام کر لیتے ہیں پھر دوپہر کو ہی کچھ کھا لیں گے زہرا نے مشورہ دیا جو کہ جہانزیب اور کشمالہ دونوں کو پسند آیا
لہٰذا تینوں اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے
انکے کمرے آخری فلور پر تھے کشمالہ اور زہرا نے ایک ہی کمرے میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ جہانزیب کا کمرہ انکے کمرے کے بائیں طرف تھا
ارے کشمالہ یہ تو دیکھو زہرا نے اس سے کہا
کشمالہ جو کہ ابھی ابھی واشروم سے نکلی تھی اور ہاتھ میں تولیہ لئے منہ صاف کر رہی تھی اس کی طرف دیکھا
کشمالہ کو متوجہ پا کر زہرا نے کھڑکیوں کے اگے سے پردے ہٹا دیے
کشمالہ اس قدر خوبصورت منظر دیکھ کر حیران رہ گئی زہرا اسے حیرت میں موبتلا چھوڑ کر واشروم میں گرم گرم پانی سے نہانے چلی گئی
کشمالہ نے تولیہ بستر پر اچھالا اور اگے بڑھ کر وہ قدآور کھڑکی کھول دی اور بالکنی میں آ گئی
سامنے حسین پہاڑیاں نظر آ رہی تھیں نیچے لان کا منظر بھی واضح تھا کشمالہ کی نظریں ان پہاڑوں پر جم سی گیں تھیں
تیز ہوا سے اس ک بال اڑ رہے تھے سردی بھی بہت تھی پر کشمالہ وہیں کھڑی رہی
جیسے کسی نے اس حسین شہزادی کو وہاں جما دیا ہو اور وہ تب تک نہیں ہل سکتی جب تک کہ اسکا شہزادہ آ کر اسے آزاد نہی کراتا
شہزادی کو معلوم نہیں کہ اسکا شہزادہ آ چکا ہے وہ یہاں سے ہل سکتی ہے
پر وہ ہل کیوں نہیں رہی
کیوں کہ اب وہ اپنے شہزادے کی نظروں کی قید میں ہے
فرشتے شہزادی کو آ کر بتاتے کیوں نہیں کہ کوئی بڑی محویت سے اسے دیکھ رہا ہے اور خدا سے سے اس کا ساتھ مانگ رہا ہے
شہزادی کی دعا قبول ہو گئی ہے شہزادے نے اپنی شہزادی کو مانگ لیا ہے وہ جو عطا کرنے والا ہے اس سے
فرشتے آ کر شہزادے کو کیوں نہیں بتا دیتے کہ تمہاری دعا کو رب نے قبولیت کی سند عطا کی ہے یا نہیں
بیشک ہمارا رب کوئی دعا رد نہیں کرتا لیکن کبھی کبھی ہم دعاؤں میں اپنے رب سے اپنے لئے بہتر کو مانگ رہے ہوتے ہیں پر ہمارا رب وہ قبول نہیں کرتا کیوں کہ وہ ہمیں بہتر کے بدلے بہترین سے نوازنا چاہتا ہے
ہر ماں اپنے بچے ک لئے بہتر سے بہترین چاہتی ہے تو وہ جو ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے کیا اپنے بندے کو بہترین نہیں دے گا ہان ضرور دیگا
کشمالہ ابھی تک یہیں کھڑی ہو سردی لگ جائے کی یار زہرا کہتے ہووے بالکنی میں آ گئی کشمالہ اور زہرا کی نظر ایک ساتھ ساتھ والی بالکنی میں کھڑے جہانزیب پر پڑی جو کہ مسکراتا ہوا انہیں ہی دیکھ رہا تھا
اچھا تو اپ بھی یہاں ہیں میری غیرموجدگی میں یہاں مری ک رومانٹک موسم میں ہیرو ہیروئن بنے باتیں کر رہے ہیں اپ دونوں زہرا نے دونوں کو گھورا
ارے نہیں یار میں تو یہاں سے یہ حسین منظر دیکھ رہی تھی کشمالہ نے صفائی پیش کی
اور میں بھی جہانزیب نے کشمالہ کو دیکھتے ہووے ایک خوبصورت مسکراہٹ کہ ساتھ کہا
کشمالہ کو تھوڑا عجیب لگا پر زیادہ غور نہیں کیا
اچھا اچھا اب چلو یہاں سے ورنہ یہیں کھڑے کھڑے قلفی جم جائے گی زہرا کہ کر اندر چلی گئی
اپ بھی اندر چلے جاییں ورنہ سردی لگ جائے گی کشمالہ نے فکرمندی سے کہا
لیکن جہانزیب نے جواباً کچھ نہیں کہا بس محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتا رہا جیسے کہ زہرا ک انے سے پہلے دیکھ رہا تھا
کشمالہ نے بھی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا
شہزادی نے اپنے شہزادے کو دیکھ لیا جو کہ صرف اس ک لئے آیا تھا
لیکن یہ کیا شہزادہ اسے قید کر رہا تھا اپنی محبت بھری نظروں میں اور شہزادی قید ہو رہی تھی کتنے پل کتنے لمحے کتنی صدیاں گزر گئی انہیں نہیں پتا تھا
کشمالہ اب اندر آ بھی جاؤ یار اگر تمھیں کچھ ہو گیا تو دادی نے مجھے نہیں چھوڑنا زہرا کی جھنجلائی آواز ای
شہزادی شہزادے کی قید سے آزاد ہو گئی شہزادہ تنہا کھڑا رہ گیا
سارا منظر غائب ہونے لگ گیا اب وہاں کوئی نہی تھا نہ شہزادہ نہ ہی اسکی شہزادی تھا تو بس طوفان کا زور اور ویرانی
————————————————————–
دوپہر کو لنچ انہوں نے اپنے اپنے کمروں میں کیا پورا دن آرام کرنے کہ بعد شام پانچ بجے ک قریب وہ لوگ مال روڈ گھومنے ک لئے نکلے برف باری اب رک چکی تھی سورج کی کرنیں برف سے ٹکرا کر چندھیا جاتی تھیں
مال روڈ پر اس وقت کافی رش تھا ہر طرف طرح طرح ک لوگ گھوم رہے تھے وہ تینوں بھی اسی رش کا حصہ بن گیے
زہرا ایک دکان سے شال دیکھنے ک لیے رک گئی
میں تب تک کوفی لے آتا ہوں جہانزیب نے کہا اور وہ بھی چلا گیا
دکان کافی چوٹی تھی اور رش زیادہ چونکے کشمالہ کو اس میں دلچسپی نہی تھی اس لئے دکان ک باہر ذرا سائیڈ پر ہو کر کھڑی ہو گئی اور یونہی اردگرد دیکھنے لگی
جہاں وہ کھڑی تھی اس سے کچھ فاصلے پر ہی ایک پٹھان ناموں والے کی چین بیچ رہا تھا کشمالہ کی نظر غیر ارادی طور پر جہانزیب ک نام کی کی چین ڈھونڈنے لگی جو کہ آخر کار اسے مل ہی گئی وہ فورن پٹھان ک پاس سے وہ کی چین خرید لائی
جہانزیب تب تک کوفی لے کر آ گیا تھا اور اسے پٹھان سے کھچ خریدتا دیکھ بھی چکا تھا لہٰذا کوفی پکڑاتے ہووے پوچھ ہی لیا کشمالہ تم نے کیا خریدا ؟
کشمالہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ یہ جہانزیب کو کیسے دے پر جہانزیب نے پوچھ کر اسکی مشکل آسان کر دی کشمالہ نے فورن اپنا ہاتھ اسکے سامنے کر دیا
جہانزیب کو یہ معمولی سی کی چین دنیا کی قیمتی ترین چیز لگی وہ کشمالہ کو بتا نہی سکتا تھا کہ اس وقت وہ کتنا خوش ہے لیکن اسے بتانے کی ضرورت بھی کیا تھی یہ خوشی تو اسکے چہرے سے ہی جھلک رہی تھی اسنے کی چین کو کشمالہ ک ہاتھ سے ایسے لیا جیسے کوئی صحرا میں بھٹکا شخص مشک کو سنبھال کر پکڑتا ہے کہ کہیں پانی گر نہ جائے وہ پیاسا نہ رہ جائے
کشمالہ جہانزیب کو حیرت سے دیکھ رہی تھی اسنے اپنے کتنے ہی دوستوں کو اس سے بڑھ کر تحفے دیے تھے پر ایسی خوشی کسی ک چہرے پر کبھی نہیں دیکھی تھی
توبہ ہے یار یہاں تو معمولی سی چیز کی قیمت بھی آسمان کو چھو رہی ہے زہرا نے دکان سے نکلتے ہی دوہائی دی
کشمالہ نے زہرا کی بات پر غور نہیں کیا وہ تو جہانزیب کو دیکھ رہی تھی جو کہ اب کی چین کو کسی بہت قیمتی چیز کی طرح اپنی جیکٹ کی جیب میں ڈال رہا تھا
زہرا نے بھی کشمالہ کی نظروں کا تعقب کرتے ہووے جہانزیب کو دیکھا اسے وہ بہت خوش لگا
ارے جہانزیب کیا بات ہے تم تو ایسے خوش نظر آ رہے ہو جیسے کسی نے تمھیں خزانے کی چابی دے دی ہو زہرا نے اسے دیکھ کر کہا
ایسا ہی سمجھ لو جواب زہرا کو دیا تھا لیکن نظریں کشمالہ پر تھیں کشمالہ کو یہ سب عجیب لگ رہا تھا جہانزیب کا اسے یوں دیکھنا اس کی معمولی سی دی ہوئی چیز پر اس طرح خوش ہونا کشمالہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پا رہی تھی
اچھا چھوڑو اس بات کو جلدی جلدی کوفی ختم کرو مجھے اور بھی بہت سی چیزیں خریدنی ہیں زہرا نے کہا
وہ تینوں جلدی جلدی کوفی پینے لگے ساتھ ہی آس پاس سے گزرتے لوگوں پر کومنٹس بھی کر دیتے
رات کی دیوی آہستہ آہستہ مری کی وادی کو اپنے پروں میں لپیٹ رہی تھی ہر طرف اندھیرا چا رہا تھا پر مال روڈ ابھی بھی روشنیوں میں نہا رہا تھا ہر طرف گھما گہمی تھی
گرلز ڈنر یہیں کہیں کرنا ہے یا واپس ہوٹل چلیں جہانزیب نے پوچھا
یہیں کرتے ہیں نا ہوٹل جانے کا ابھی بلکل دل نہیں کر رہا زہرا نے کہا
ہاں یار دل کر رہا ہے آج رات ختم ہی نہ ہو یونہی مستی میں بےفکری میں گزرتی رہے لیکن ختم نہ ہو کشمالہ نے بھی کہا
پر کشمالہ ایسا تھوڑی ہوتا ہے الله کی ذات کے علاوہ ہر چیز کا خاتمہ ہے
چاہے اچھا دن ہو یا برا اسے ختم ہونا ہے اسی طرح باقی سب چیزیں بھی ہر چیز کو فنا ہے جہانزیب نے سمجایا
پر کاش خوشیوں کو فنا نہ ہوتی کشمالہ نے پھر کہا
تم لوگوں کا ارادہ اگر باتوں سے پیٹ بھرنے کا ہے تو بھر لو لیکن پلیز مجے کچھ کھلا دو بہت بھوک لگ رہی ہے یار زہرا نے رونی شکل بنا کر کہا جہانزیب اور کشمالہ دونوں ہنس دیے
جہانزیب ان کو لے کر ایک ہوٹل میں آ گیا باہر کی نسبت اندر سردی کم تھی انہوں نے کھڑکی کے پاس ہی ایک ٹیبل سنبھال لی
اپ لوگ آرڈر کریں میں ذرا واشروم سے ہو کر آتا ہوں جہانزیب نے کہا اور چلا گیا
کشمالہ اور زہرا باتوں میں لگ گیں تبھی ایک شخص انکی ٹیبل کے پاس آیا
کشمالہ ! اجنبی نے پکارا کشمالہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا دونوں کی نظروں میں شناسائی تھی
دانش تم کشمالہ نے کہا
جی میں دانش نے جواب دیا ہونٹوں پر بھرپور مسکراہٹ لئے
تم یہاں دونو نے ایک ساتھ پوچھا اور دونوں ہنس دے
جہانزیب بھی آ چکا تھا اور ان دونوں کو ہنستے دیکھ چکا تھا جہانزیب نے زہرا سے پوچھا کہ یہ اجنبی کون ہے پر اسے بھی نہیں معلوم تھا
تم کھڑے کیوں ہو آو ہمارے ساتھ ڈنر کرو نا کشمالہ نے اسے آفر کی
ہاں ضرور وہ تو جیسے اسی انتظار میں تھا فورن بیٹھ بھی گیا جہانزیب اور زہرا دونوں حیران تھے
کشمالہ نے دونوں کو حیران دیکھا تو تعارف کروایا یہ دانش ہے میرے ساتھ پڑھتا تھا
اور اسکا سب سے اچھا دوست بھی دانش نے مسکرا کر کشمالہ کو دیکھا
لیکن دانش کو نہیں پتا تھا کہ اسنے ایسا که کر کسی کی غیرت کو للکارا ہے
ایک شخص ک سامنے اسکی سب سے اچھی دوست کو کوئی بھی ایرا غيرا آ کر اپنی سب سے اچھی دوست کہے تو غصہ تو آے گا نا زہرا کا بھی خون کھول اٹھا
اے مسٹر یہ صرف میری سب سے اچھی دوست ہے اور میں کسی ایرے غیرے کو اجازت نہی دوں گی کہ وہ میری دوست کو اپنا دوست کہے زہرا نے بغیر کسی لحاظ کہ اسے کھری کھری سنا دیں
دل تو جہانزیب کا بھی یہی چاہ رہا تھا لیکن وہ مروت میں مارا گیا کشمالہ تو حیران رہ گئی
دانش اب دلچسپ نظروں سے زہرا کو دیکھ رہا تھا جو کہ غصے سے کھول رہی تھی
ویسے کشمالہ تم نے اس عورت کا تعارف نہیں کرایا کون ہیں یہ دانش کو جیسے اس کہ چھڑنے سے مزہ آیا تھا اس لئے پھر بول اٹھا
لفظ عورت جیسے زہرا کے ذہن میں اٹک سا گیا ہو زہرا کی شکل پر اس وقت غصے صدمے غم سب کے تاثرات تھے
جہانزیب اور کشمالہ کی تو ہنسی چھوٹ گئی اسکی حالت دیکھ کر
ابھی زہرا کو اس صدمے سے نکلنے ک لئے وقت درکار تھا
اس لئے کشمالہ نے جہانزیب کا تعارف کروایا دانش یہ جہانزیب ملک ہیں پاپا ک بزنس پارٹنر
دانش اور جہانزیب نے ہاتھ ملایا
اور انکا اچھا دوست بھی جہانزیب نے کشمالہ کو دیکھ کر کہا کشمالہ کو لگا جیسے اسکی نظروں میں شکایت تھی
جی میرے اچھے دوست بھی کشمالہ نے بھی اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا جیسے اسکی شکایت ختم کی ہو
اچھا دوستو اب میں چلتا ہوں پورا دن گھوم گھوم کر اب تھک گیا ہوں دانش نے اجازت چاہی
تمہارے ساتھ اور کوئی بھی ہے یا اکیلے ہی گھومنے نکلے ہو کشمالہ نے پوچھا
کہاں یار ابھی وہ ملی ہی نہیں جس کے ساتھ میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پربت پربت چوٹی چوٹی گھوموں ہر بار یہاں اکیلا ہی اتا ہوں لیکن اس بار لگتا ہے میری قسمت کی پری یہاں اتر چکی ہے دانش نے ایک نظر زہرا کو دیکھ کر کہا جو اسکی موجودگی بمشکل برداشت کر رہی تھی اور سارا غصہ کھانے پر نکال رہی تھی
یہ میرا فون نمبر رکھ لو صبح جب کہیں سیر ک لئے نکلو تو مجھے بھی بتا دینا میں پہنچ جاؤں گا دانش نے اپنا کارڈ کشمالہ کو پکڑایا
ویسے تم لوگ یہاں کب تک ہو دانش نے پھر پوچھا
بس ایک ہفتہ ہی رکھیں گے کشمالہ نے جواب دیا
اچھا ٹھیک ہے پھر یہ ہفتہ ہم سب مل کر گھومیں گے اچھا میں چلتا ہوں خدا حافظ انکا جواب سنے بغیر ہی وہ اٹھ کر چلا گیا وہ ایسا ہی تھا ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار رہنے والا
کشمالہ میں
پہلے سے ہی بتا رہی ہوں کہ اگر یہ شخص آیا تو میں نہیں جاؤں گی کہیں زہرا نے غصے سے کہا
وہ اتنا برا بھی نہیں ہے یار کشمالہ نے حمایت کی
اب چلیں مجھے نیند آ رہی ہے جہانزیب نے کہا اور ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا اسکی آواز میں تھوڑی سختی تھی جو کہ دونوں کومحسوس ہوئی
اس لئے چپ چاپ بات مان لی واپسی کا سفر خاموشی سے گزرا جیسے وہ تینوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوں اور ان کے درمیاں بات کرنے کے لئے کچھ نہ ہو
واپس آ کر زہرا فورن بستر میں گھس گئی کشمالہ نے بات کرنے کی کوشش کی پر زہرا نے ابھی میں تھکی ہوئی ہوں صبوح بات کریں گے کہ کر ٹال دیا
ویسے تو ایسے موقوں پر دوست کو اکیلا نہی چوڑا جاتا بلکے انہیں مزید تنگ کیا جاتا ہے تاکہ خودی بول پڑیں
پر اس وقت کشمالہ کو زہرا کی ناراضگی پریشان نہیں کر رہی تھی کوئی اور بات تھی جو اسے فکر میں مبتلا کر رہی تھی
کشمالہ ان فکروں سے آزاد ہونے ک لئے باہر بالکنی میں آ گئی اس وقت ہوا خاصی تیز چل رہی تھی تھوڑی دیر پہاڑیوں کو دیکنے کے بعد وہ سردی کے احساس سے واپس مڑنے لگی تو نظر اپنی بالکنی میں کھڑے جہانزیب پر پڑی
جہانزیب جانے کب سے کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا
کشمالہ وہ اپ کے لئے کیا ہے
کشمالہ کو جہانزیب کا لہجہ اجنبی لگا
لاشوری طور پر وہ جہانزیب سے اسی سوال کی منتظر تھی
ہوا کے اس شور میں جہانزیب تک بمشکل ہی آواز پوھنچی
طوفان نے زور پکڑ لیا پر شہزادی کو پروا نہ تھی وہ سانس روکے اپنے شہزادے کے کچھ کہنے کی منتظر تھی
اس حسین وادی کی پہاڑیاں بھی شہزادے کے اقرار کی منتظر تھیں لیکن شہزادے نے کچھ نہ کہا شہزادی نے کچھ نہ سنا وادی کچھ سننے کی منتظر ہی رہ گئی
لیکن شہزادی نے دیکھا ضرور کہ اسکا شہزادہ پرسکون ہو گیا تھا طوفان اب رک گیا تھا شہزادہ بغیر کچھ کہے جا چکا تھا
منظر پھر غائب ہو رہا تھا اب شہزادی بھی نہیں تھی ہر طرف خاموشی تھی آج کی رات اقرار کی رات نہیں تھی
کشمالہ اب اٹھ بھی جاؤ ہم مری گھومنے ایں ہیں سونے نہیں زہرا نے اسے جگایا
تم تو مجھ سے ناراض تھی نا کشمالہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنے گھنے سیا بالوں کو سمیٹتے ہووے اسے یاد کروایا
بس رات گئی بات گئی زہرا کہ کر تیار ہونے لگی وہ ایسی ہی تھی کشمالہ سے ڈھیر سا پیار کرنے والی اور اس سے کبھی نا ناراض ہونے والی
کشمالہ اس پرایک پیار بھری نظر ڈال کر واشروم میں گھس گئی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...