یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ غزل دور حاضر میںمقبولیت کی نئی نئی منزلوں کو طے کر تی جا رہی ہے۔صدیوں سے یہ اردو شاعری کی مقبول ترین صنف رہی ہے کیوں کہ ہمارے اردو شعراء نے ہر طرح کے مضامین کو اس میں شامل کر کے اس کو حسن و عاشقی کے محدود حلقے سے آزاد کرایا اور مختلف رنگوں میں اشعار کہہ کر اپنی شاعری کے ایسے کمالات دکھائے جس سے نئی نسل کی دلچسپی اس صنف کی طرف بڑھنے لگی۔آج کے دور میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہوگا جس نے اس صنف شاعری میں طبع آزمائی نہ کی ہو۔کیوں کہ آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ہر لمحہ انسان نئی نئی سائنسی ترقیات اور ایجادات سے ہم کنار ہو رہا ہے اس لئے دور حاضر میں لکھا جانے والا ادب بھی سائنس کے رنگ میں رنگتا چلا جا رہا ہے۔وہ دن دور نہیں جب مخصوص سائنسی غزلیں لکھیں جائیں گی ۔اور ہماری غزلوں کے اشعار سائنسی مضامین کی کنجی ثابت ہوں گے۔اگر اردو شعر وادب میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کی رسائی سائنسی مضامین تک کرادی جائے اوروہ سائنسی علوم سے بخوبی آشنا ہو جائیں توہماری غزلیں سائنسی مضامین کی لمبی چوڑی باتوں اور اصول و ضوابط کو اپنے اشعار میں پیش کرنے کے حیرت انگیز کارنامے انجام دے سکتی ہیں۔اس کی مثال کے طور پر چکبستؔ لکھنوی کا یہ شعر پیش کیا جا سکتا ہے جس میںسائنس کے مختلف مضامین اور اصول و ضوابط سمٹ کر آگئے ہیں:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے ان ہی اجزاء کا پریشاں ہونا
اگر سائنس کے مختلف موضوعات کی روشنی میں چکبست ؔکے اس مشہور شعر کا تجزیہ مختلف زاویوں سے کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چکبستؔ نے کس خوبی سے سائنس ،فلسفے اور منطق کی ادق باتوں کو اپنے اس ایک شعر میں سمو دیا ہے جس کی مثال ملنامحال ہے۔
’اردو غزل میں فوبیا‘ کے عنوان سے یہ مضمون اپنے دامن میںمیڈیکل سائنس اور علم نفسیات کی منفرد معلومات پرروشنی ڈالتا ہے۔ایسا ہرگزنہیںہے کہ ہماری اردو شاعری کے لئے یہ مضمون بالکل نیا ہو ۔کلاسیکی شعراء کے کلام سے لے کر دور جدید اور مابعد جدید شعراء کے کلام میں اس طرح کے مضامین کو بخوبی د یکھا جاسکتا ہے۔ہمارے شعراء نے انسانی جذبات،اور نفسیات پر بہت سے اشعار لکھے ہیں۔خوف و ہراس ،گھبراہٹ، کو بھی پیش کیا ہے۔جس کا کہیں نہ کہیںتعلق ’فوبیا‘ سے بھی جڑتا ہوا نظر آتا ہے۔آئیے سب سے پہلے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ آخر ’فوبیا‘ کیا ہے۔اور انسانی نفسیات سے اس کا کیا تعلق ہے۔
’فوبیا‘ یونانی(Greek) لفظ ’فوبوس‘ (Phobos) سے نکلا ہے۔ماہرین کے مطابق اگر آپ ضرورت سے زیادہ اور بنا کسی وجہ کے ڈرتے ہیں یا خوف زدہ ہوتے ہیں تو یہ ’فوبیا‘ ہے۔یہ ڈر کسی خاص جگہ،حالت اور چیز سے لگ سکتا ہے۔یوں تو فوبیا کی سو (۱۰۰) سے زیادہ اقسام ہوسکتی ہیں۔لیکن اس میں کچھ خاص علامتوں کی وجہ سے اس کو تین بڑے گروپ میں درجہ بند کیاجاسکتا ہے۔
(۱)سماجی فوبیا
(۲) اگور فوبیا
(۳) مخصوص فوبس
سماجی فوبیا (Social Phobia)
سماجی فوبیا ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میںمریض سماجی ماحول میں جانے یا حصہّ لینے سے بہت ڈرتا ہے۔اگر وہ اس ماحول میں حصہّ لیتا ہے تو اسے بہت تکلیف ہوتی ہے۔اور اس کے کام کرنے کی صلاحیتیں اس فوبیا کی وجہ سے بہت کم ہوجاتی ہیں۔یہ ایک عام نفسیاتی بیماری ہے۔ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 12% ہندوستانی جوان اس کے شکار ہو سکتے ہیں۔
در اصل سماجی فوبیا کو سماجی تشویش کی خرابی کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔اس فوبیا میں گرفتار افراد سماجی حالات کے بارے میں انتہائی تشویش رکھتے ہیں۔اور ہمیشہ ایک انجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔کسی محفل،مجلس اور پروگرام میں شامل ہونے سے گریز کرتے ہیں اورا گر ان کو کسی کام میں شریک کیا جاتا ہے یا خطاب کرنے کو کہا جاتا ہے تو ان پر ایک گھبراہٹ طاری ہونے لگتی ہے۔اس کے علاوہ یہ افراد بہت چھوٹے چھوٹے کاموں مثلاً ٹیلی فون اٹھانے،لوگوں سے موبائل پر بات کرنے،ریستوراں میں جانے اور کھانے کا آڈر کرنے میںبھی جھجکتے ہیں۔اوراپنے اس عمل کے سبب لوگوں کی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔
اگور فوبیا (Agora Phobia)
اگور فوبیا ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میں گرفتار افراد گھر سے باہر جانے،دوکانوں یا فلم ہال میں گھومنے میں،بھیڑ بھاڑ میں جانے،ٹرین میںاکیلے سفر کرنے میں ایک گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں۔یعنی وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ ایسی جگہیں ہیں جہاں ان کو پریشانی ہوسکتی ہے اور یہاں سے نکلنا آسان نہیں ہے۔ماہرین کے مطابق اگور فوبیا ایک ایسی بیماری ہے جوسماجی فوبیا کے ساتھ جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔لیکن فرق یہ ہے کہ اگور فوبیا کے ساتھ لوگوں کو یہ خوف ہے کہ وہ اس جگہ کی ہنگامی صورت حال سے بغیر کسی مدد کے باہر نہیں نکل سکیںگے جہاں ان کو طبی امداد کی ضرورت پیش آئے گی۔
مخصوص فوبیا (Specific Phobia)
ماہرین نفسات کے مطابق مخصوص فوبیا تشویش کی بیماریوں کی ایک قسم ہے جو خاص طور پر کسی مخصوص چیز یا واقعے کے بارے میں شدیدیا غیر معمولی خوف کو ظاہر کرتی ہے۔اس فوبیا میں گرفتار افرادکسی مخصوص چیز یا صورت حال کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔مثال کے طور پر ایسے افراد بلند مقامات پر پرواز کرنے،جانوروں کو دیکھ کر،انجکشن لگوانے،اور خون دیکھنے وغیرہ سے گھبرا کر رد عمل ظاہرکرتے ہیں۔
آئیے اب اردو غزل میں ایسے اشعار پر نظر ڈالتے ہیں جس میں فوبیا کی مختلف اقسام دیکھنے کو ملتی ہیں۔
میسو فونیا (Misophonia)
میسوفونیا ایک ایسی حالت ہے جس میں ایک شخص کسی مخصوص آواز سے خوف زدہ ہو کر اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔یہ آوازیں مختلف ہو سکتی ہیں جو اس شخص کو بے قرار کر سکتی ہیں ۔عام طور پر دیکھا گیا ہے ایسی بہت سی آوازیں جو لوگوں کی عادت میں ہوتی ہیں مثلاً چبانے،زبان پر کلک کرنا،سیٹی بجانا وغیرہ کی آوازیں بھی آدمی کو بے قرار کر سکتی ہیں اگر وہ اس قسم کے فوبیا سے متاثر ہے۔ماہرین نفسیات کے مطابق یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے اگر اس کا علاج نہیں کیا گیا تو یہ مرض زندگی بھر قائم رہ سکتا ہے۔ابھی اس مرض پر مزید رتحقیقات کی ضرورت ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں اور کیسے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔دنیا کی کئی مشہور و معروف شخصیات مثلاً بیسویں صدی کا بہترین ناول نگار ’فرانز کافکا‘(Franz Kafka) ،روسی افسانہ نویس اور ڈرامہ نگار’ انتون پائولاوچ چیخوف‘ (Anton Pavlovich Chekhov) ، اداکارہ’ میلانی لنسکی‘،نغمہ نگار ’کیلی آوسبورن‘ اس فوبیا میں گرفتار ہو چکے ہیں۔اردو غزل کا ایک شعر ملاحظہ کریں جو میسوفونیا کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے:
بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصہ نکل آیا
مرے دکھ سے کسی آواز کا رشتہ نکل آیا
بشر نوازؔ
بشر نوازؔ بڑے ہی منفرد انداز میں ’میسوفوبیا‘ کی ترجمانی اپنے اس شعرمیںکرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔شاعر نے اپنے اس شعرمیں مخاطبانہ لہجہ اختیار کیا ہے۔جس میں وہ میسو فوبیا کا ذکر کر رہا ہے۔وہ اس فوبیا کی علامت بتاتے ہوئے اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح آواز کے خوف سے اس کو اذیت ہورہی ہے۔جب مریض آواز کے خوف میں شدید مبتلا ہوتا ہے تو اس کی رات کی نیند اور دن کا چین بھی حرام ہو جاتا ہے۔محمد شاہد فیروزؔ نے بھی اپنے ایک شعر میں اس فوبیا کی ترجمانی کی ہے:
جس نے تمہاری نیند کی دنیا اجاڑ دی
مجھ کو بھی ایک ایسی ہی آواز کا ہے خوف
محمد شاہد فیروزؔ
یہ بات بھی واضح ہے کہ میسو فوبیا کے شکار لوگ شور سے دور بھاگتے ہیں اور پرسکون سناٹے سے دور جگہ اور تنہائی کو پسند کرتے ہیں۔اگرایسے افراد کو کسی شور بھری جگہ پر لایا جائے تو ایسے ماحول میں ان کو بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اوروہ چیخ و پکار سے خوف زدہ نظر آتے ہیں۔عرفان ؔصدیقی کے یہ اشعارملاحظہ کریں جو اس بات کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
جانے کب سے ایک سنّاٹابسا ہے ذہن میں
اب کوئی ان کو پکارے گا تو ڈر جائیں گے لوگ
یہ گزرگاہ کا سنّاٹا، یہ پر شور ہوا
کھڑکیاں کھول کے سونے نہیں دیتا کوئی
عرفانؔ صدیقی
گلوسوفوبیا (Glossophobia)
گلوسوفوبیا یایعنی عوام میں بولنے کا خوف نمایاں طور پر ایک عام نفسیاتی بیماری تصور کیا جاتا ہے۔یہ سماجی فوبیا کی ایک قسم ہے ۔ماہرین کے مطابق یہ ایک عام حالت ہے تقریباً 75 فی صد آبادی کا تعلق اس نفسیاتی بیماری سے جڑا ہو سکتا ہے ۔اردو غزل کا شاعر جب اس موضوع پرقلم اٹھاتا ہے تو اس طرح کہتا ہے:
خوف سا پھر لبوں پہ طاری ہے
اک عجب کیفیت ہماری ہے
اعجاز الحق شہابؔ
اعجاز الحق شہابؔ نے اپنے اس شعر میں گلوسو فوبیا کی مکمل عکاسی کر دی ہے۔کہ کس طرح اس فوبیا میں گرفتار شخص کی ذہنی اور جسمانی کیفیت ہوتی ہے ۔اور کس طرح وہ رد عمل کرتا ہے۔اگر اس کو کسی محفل میں خطاب کرنے کو کہا جاتا ہے۔تو اس پر ایک انجانہ خوف طاری ہوجاتا ہے۔اور اس کے ہاتھ پائوں کانپنے لگتے ہیںاور اس کے لبوں پر بھی کپکپاہٹ اورزبان میں لکنت آنے لگتی ہے۔
اگورفوبیا (Agoraphobia)
پچھلے سطور میں اس فوبیا کی وضاحت ہو چکی ہے کہ اگور فوبیا(Agora Phobia) ایسی جگہ یا صورت حال ہے جس میں مبتلا افراد بھیڑ،سماجی حالت یا گھر سے باہر جانے سے بچتے ہیں اور وہ گھر یاتنہائی میں زیادہ آرام محسوس کرتے ہیں۔یہ فوبیا سماجی فوبیا سے جڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔لیکن فرق یہ ہے کہ اس فوبیا کے ساتھ لوگوں کو یہ خوف رہتا ہے کہ وہ اس جگہ سے باہر نہیں نکل سکیں گے جہاں ان کی کو کسی طبی یا ہنگامی صورت حال میں کسی کے ضرورت پڑے گی۔اردو غزل کے اشعار میں اس فوبیا کا یوں ذکر ملتا ہے:
خوف آتا ہے بھیڑ سے جب بھی
گھر کی ویرانیوں سے ڈرتے ہیں
فرحانؔ حنیف وارثی
بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا
گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا
علیم مسرورؔ؎؎؎؎؎
پہلے شعر میں آیا مصرع ’’خوف آتا ہے بھیڑ سے جب بھی‘‘اگور فوبیا کی علامت بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ دوسرے شعر میں’’بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا‘‘کہہ کر شاعر اس فوبیا کی کیا خوب عکاسی کر دیتا ہے۔کس طرح اگور فوبیا میںگرفتار شخص بھیڑ میں خوف کھاتا ہے۔اور پرسکون جگہ پر رہنا پسند کرتا ہے۔
ایکرو فوبیا(Acrophobia)
یہ مخصوص فوبیا کی ایک قسم ہے۔اس فوبیا کے شکار انسان کو اونچائی سے ڈر لگتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریض کو پہاڑوں،پل اور بلند عمارتوں میں جانے سے بھی بہت ڈر لگتا ہے۔فوبیا کے اثرات میں چکّر آنا،پسینے آنا اور ایسا محسوس ہونا کہ وہ بہار نکلے گا توبے ہوش ہوجائے گا وغیرہ شامل ہے۔ایکروفوبیا کے حوالے سے یہ اشعاردیکھیں:
اس بلندی خوف سے آزاد ہو اس نے کہا
چاند سے جب بھی کہا نیچے اترنے کے لئے
شہریارؔ
شہریارؔ اپنے اس شعر میں’’بلندی‘‘ اور ’’خوف‘‘ کا ذکر کر رہے ہیں۔جس سے ایکرو فوبیا کی طرف ذہن جاتا ہے۔
فریحہؔ نقوی کا شعر ملاحظہ کریں:
اسی لیے میں سنبھل سنبھل کر قدم اتھاتی ہوں
اتنی بلندی سے رہتا ہے گرجانے کا خوف
ٖفریحہؔ نقوی
فریحہؔ نقوی اپنے شعر میں بلند مقام پر سنبھل سنبھل کر قدم اٹھانے کی بات کہتی ہیں۔اور اس کاسبب وہ یہ بیان کرتی ہیں کہ بلندی پر جانے کے بعد ان کو گرجانے کا خوف لگا رہتا ہے۔یعنی فریحہؔ نقوی ایکرو فوبیاکی علامت کو بیان کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔
عادل فرازؔ اس موضوع کو اس طرح پیش کرتے ہیں:
بلندیوں پر پہنچنے والو
قدم زمیں پر جمائے رکھنا
عادل ؔفراز
شاعر اس شعر میں بلندیوںپر پہنچنے والو کو مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ بلندیوں پر پہنچنے والو اس بات کا خیال رہے کہ تمھارے قدم زمیں سے اکھڑنے نہ پائیں۔کیوں کہ اکثر بلندیوں پر پہنچنے کے بعد گرنے کا خوف ہوتا ہے۔واضح ہے کہ شاعر بلندی کے خوف ’ایکرو فوبیا‘ کو بیان کررہا ہے۔اشوک ساحلؔ کاایک مشہور شعر ہے:
بلندیوں پہ پہنچنا کوئی کمال نہیں
بلندیوں پہ ٹھہرنا کمال ہوتا ہے
اگراشوک ساحل ؔ کے اس شعر کو ’ایکرو فوبیا ‘ کی عکاسی کے طور پر لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ شعر بلندی کے خوف کا عکاس ہے۔تب ہی تو وہ بلندی پر ٹھہرنے کو کمال بتا رہے ہیں۔
ایقوا فوبیا (Aquaphobia)
اس فوبیا میں آدمی کو پانی کا بے حد خوف رہتا ہے۔اس میں ایسا بھی دیکھا گیاہے کہ کبھی کبھی لوگ گہرے پانی یا بڑی لہروں سے بھی ڈرتے ہیں۔جب کہ کچھ لوگ سوئمنگ پول یا اس کے علاوہ پانی دیکھنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ماہرین کاکہنا ہے کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کسی رقیق مادے کو دیکھ کر بھی خوف زدہ ہو سکتا ہے۔اور رد عمل ظاہر کرسکتا ہے۔اردو غزل میں آئے اس سے متعلق اشعار کو دیکھیں:
دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر
آتی ہے یاد موت کی پانی کو دیکھ کر
منیرؔ نیازی
منیر نیازی نے اپنے اس شعر میں’ایقوا فوبیا‘ کی عمدہ ترجمانی کی ہے۔شاعر نے اس شعر میں ایک ایسے شخص کا خاکہ کھینچا ہے جو اس فوبیا میں گرفتار ہے۔اور کس طرح وہ ہر لمحہ خوف زدہ رہتا ہے۔جب کبھی وہ پانی کو دیکھتا ہے تو وہ خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کو اپنی موت یاد آنے لگتی ہے ۔
’ایقوا فوبیا‘ کا مریض نہ صرف رقیق مادے کو دیکھ کرخوف کھاتا ہے بلکہ اس کو گہرے پانی میں ڈوب کر مرجانے کا بھی خطرہ لاحق رہتا ہے۔ساجدؔ پریمی اپنے ایک شعر میں اس علامت کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
ایسے تیراک ہم نہیں ساجدؔ
خوف گہرائیوں سے کھاتے ہیں
ساجد ؔ پریمی
نکٹو فوبیا (Nyctophobia)
اس فوبیا میں گرفتار شخص کو رات اور اس کے اندھیرے سے بے حد ڈر لگتاہے۔ایسا بھی دیکھا گیاہے کہ اس فوبیا میں مبتلا افراد بہت توہمات کا شکار ہوتے ہیں۔وہ جن،بھوت،بلائوں کے خیالات میںگرفتار رہتے ہیں۔اس فوبیا سے متعلق اشعار دیکھیں:
ہمیں یہ خوف اندھیرے نگل نہ جائیں کہیں
سو ہم نے جسم کو ڈھانپا ہے آفتاب کے ساتھ
زعم رشیدؔ
زعم ؔرشید اپنے اس شعر میں اندھیرے میں پیدا ہونے والے خوف کی بات کر رہے ہیں۔اندھیرے کا خوف ہونے کے سبب شاعر خود کو روشنی میںرہنے کو ترجیح دے رہا ہے۔مصرع میں ’’ڈھانپا ہے آفتاب کے ساتھ‘‘اس بات کی وضاحت کر رہا ہے۔اس کے علاوہ شاعر کہتا ہے ’’ہمیں یہ خوف اندھیرے نگل نہ جائیں کہیں‘‘ یہ مصرع مکمل طور پر نکٹو فوبیا میں مبتلا شخص کی کیفیت کو بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔شاعر اپنے اس شعر میںنکٹو فوبیا کی علامت اور اس کے بعد ہونے والے رد عمل کو بڑی ہی خوبصورتی سے پیش کر دیا ہے۔
شہر یارؔ کا ایک شعر ملاحظہ کریں جس میں وہ نکٹو فوبیاکی ترجمانی بڑے منفرد انداز میں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
عجیب سانحہ مجھ پرگزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو
شہر یارؔ
شہر یار کا یہ شعر نکٹوفوبیا میں گرفتار شخص کی ذہنی کیفیت کا عکاس ہے۔ماہرین نفسیات کے مطابق جس شخص کو یہ فوبیا ہوتا ہے وہ شخص اپنے سائے سے بھی دور بھاگتاہے۔اور اگر اس کی نظر اپنے سائے پر پڑ جائے تووہ خوف زدہ ہوجاتا ہے اور رد عمل ظاہر کرتا ہے۔شہریارؔ اپنے اس شعر کے ذریعے اس فوبیا میں مبتلا شخص کا بہترین خاکہ پیش کرتے ہیں۔ناصرؔ کاظمی اس موضوع کو جب اپنے شعر کے قالب میں پیش کرتے ہیں تو یوں کہتے ہیں:
کیسی اندھیری رات ہے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے
ناصرؔ کاظمی
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس فوبیا میں گرفتار شخص رات اور اس کے اندھیرے میںبے حد خوف زدہ ہو جاتا ہے۔اور اس کی کیفیت بدلنے لگتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کو اس خوف کے سبب مریض کے دل کی دھڑکنوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔اور اگر اس فوبیا کا علاج نہ کیا جائے تو یہ خوف ہمیشہ کے لئے اس کے دل میں بیٹھ جاتا ہے۔سلمان اخترؔ کاایک شعر دیکھیں جو اس علامت کو پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے:
رات کے بعدرات آئے گی
دل سے جاتا ہے کب یہ ڈر دیکھو
سلمان اختر ؔ
عباس تابشؔ بھی اس فوبیا کو علامتی انداز میں کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں:
رات کو گھر سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے
چاند دیوار پہ رکھا ہوا سر لگتا ہے
عباس تابشؔ
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے جس شخص کو فوبیا ہوجائے اس کے ساتھ بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسے شخص کو رات کے وقت اکیلا گھر پر نہیںچھوڑنا چاہئے۔کیوںکہ ایسا شخص رات کے خوف میں مبتلا ہو کر کچھ بھی رد عمل کر سکتا ہے۔آشوؔ مشرا کس انوکھے انداز میں اس بات کو بیان کر رہے ہیں:
دل کو اب ہجر کے لمحات میں ڈر لگتا ہے
گھر اکیلا ہو تو پھر رات میں ڈر لگتا ہے
آشوؔ مشرا
آئیے اب کچھ ماحول اور موسمی فوبیا سے متعلق فوبیا پر غور و فکر کرتے ہیں کہ کس طرح شاعر نے اس سے متعلق فوبیا کو اپنے اشعار میںپیش کیا ہے۔
اسٹرافوبیا (Astraphobia)
یہ دو یونانی (Greek) لفظ ’’اسٹرو‘‘ (Astro)جس کا مطلب ہے’ آسمانی بجلی کی چمک‘ اور فوبو س (Phobos) جس کا مطلب ڈر ہے سے مل کر بنا ہے۔یہ ماحول کے خوف سے متعلق ایک فوبیا ہے۔جس کا شمار مخصوص فوبیا میں ہوتا ہے۔
اسٹرو فوبیا ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میں مریض آسمانی بجلی کی چمک ،بادل کی گرج اور آندھی طوفان سے ڈرنے لگتا ہے۔اس دوران وہ عجیب حرکتیں کرنے لگتا ہے۔جیسے اس کے ساتھ کچھ برا ہو رہا ہے۔وہ ایسے حالات سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔کئی بار وہ خود کو کمرے میں بند کرلیتا ہے اور اپنے کانوں پر انگلی سے بند کرلیتا ہے۔اگر موسم کچھ گھنٹے تک خراب رہتا ہے تو اس شخص کی ذہنی اور جسمانی حالت بھی خراب ہونے لگتی ہے۔وہ شخص ڈر سے چیخنے اور چلاّنے لگتا ہے۔جب کہ کئی موقعوں پر رونے بھی لگتا ہے۔ڈر سے اس آدمی کاپورا بدن کانپنے لگتا ہے۔یہ ہر عمر کے لوگوں کو متاثرکر سکتا ہے۔حالانکہ یہ بچوں میں بڑوں سے زیادہ عام ہو سکتا ہے۔یہ جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے۔اور وہ بھی طوفان کے سبب خوف زدہ نظر آتے ہیںاور رد عمل کرتے ہیں۔اس فوبیا میں مبتلا لوگوں کو طوفانی آندھی میں پھنس جانے یا شدید موسمی حالات میں دو چار ہونے کا خوف لگا رہتا ہے۔اور ان کے اوپر ایک اضطراب اور بے چینی دکھائی دیتی ہے۔وہ یہ سوچتے ہیںاگر وہ ایسے نامناسب حالت میں مبتلا ہوئے توکیسے اس سے باہر نکلیںگے۔جب کہیں گرج اور چمک دیکھتے ہیں تو شدید رد عمل کرتے ہیں۔یہ ایک قابل علاج بیماری ہے جس کا علاج ممکن ہے۔امریکی نفسیاتی ایسوسی ایش (America Psychiatric Association) کے مطابق یہ کوئی بڑی بیماری نہیں ہے۔اس کو نفسیاتی علاج کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔اسٹرا فوبیاسے متعلق اردو غزل میں آئے اشعار دیکھیں:
کیوں خوف زدہ ہوگئے تم ایک گھٹا سے
میںنے تو بتایا تھا کہ طوفان نہیں ہے
نجمہ شاہینؔ کھوسہ
خود پر کوئی طوفان گزر جانے کے ڈر سے
میں بندہوں کمرے میں بکھر جانے کے ڈر سے
حسن عزیزؔ
نیفو فوبیا (Nephophobia)
بادلوں کے ڈر کو نیفو فوبیا کہا جاتا ہے۔یہ لفظ دو یونانی لفظوں سے مل کر بنا ہے۔نیفو (Nepho) جس کا مطلب ہے بادل اور’فوبوس (Phobos) کا مطلب ڈر اورخوف ہے۔یہ حالت بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن جن لوگوں کو یہ نفسیاتی بیماری ہوتی ہے۔ان کے لئے بادلوں کا خوف بہت بڑی بات ہے۔نیفو فوبیا کی علامتیں مختلف حالات میں مختلف ہوسکتی ہیں۔ہر شخص الگ الگ تجربہ کرسکتا ہے۔لیکن ماہرین نفسیات کے مطابق کچھ علامتیں اس طرح ہیں۔مریض بہت زیادہ خوف زدہ اورجذباتی ہوجاتا ہے اور اس کی کیفیت میں تبدیلی آجاتی ہے جب وہ بادلوں کو جمع ہوتے ہوئے یا بادلوں کی شکل و صورت بدلتے ہوئے دیکھتا ہے۔دل زور زورسے ڈھڑکنے لگتا ہے اور دل کی ڈھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔اسی حالت میں چکّر آنا یا متلی ہونا عام بات ہوتی ہے۔ نیفو فوبیا سے متعلق یہ شعر دیکھیں:
سمجھ میں آتی ہے بادل کی آہ و زاری اب
وہ مہربان مجھے بھی بہت رلاتا ہے
شائستہ ؔیوسف
چائو نو فوبیا (Chionophobia)
یہ دو یونانی الفاظ ’چیون‘ مطلب برف اور’ فوبوس‘ مطلب خوف سے مل کر بنا ہے ۔اس فوبیا کی وجہ عام طور پر برف میں شامل بچپن کے تکلیف دہ تجربے کا نتیجہ ہے۔جیسے برف میں کھیلتے ہوئے وقت یا کسی ٹریفک حادثے میں اگر وہ برف میںدب جاتا ہے،یا زخمی ہوجاتا ہے۔تو اس کے دل میں ایک انجانہ خوف گھر کر جاتا ہے۔جب کبھی وہ برف باری دیکھتا ہے۔یا کہیں پر زیادہ مقدار میں برف دیکھتا ہے تو رد عمل کرتا ہے۔اس کو لگتا ہے کہ برف میں دب جانے سے اس کی جان بھی جاسکتی ہے۔اور ایسی صورت حال میں کوئی اس کی مدد بھی نہیں کر پائے گا۔دوسرے فوبیا کی طرح اس فوبیا میں بھی مریض میں دل کا تیزڈھڑکنا،سانس لینے میں دشواری ہونا،رونا،چیخنا،بے ہوشی،دماغ میں کمی کا احساس اور بھاگ جانے یاچھپنا دیکھنے کو ملتا ہے۔ چائو نو فوبیا سے متعلق غزل میں آئے اشعار دیکھیں:
برف جمنے لگی بدن پہ میرے
کون مجھ کو یہاں بچائے گا
عبد الحفیظؔ
گھر سے کیوں جائوں میں باہر کہ برف باری ہے
آج عالم میں مری موت کی تیاری ہے
عالم نسیمؔ
آمبر و بوبیا (Ombraphobia)
یہ دو یونانی الفاظ “Ombros” جس کا مطلب ہے ’بارش کا طوفان‘ اور “Phobos” مطلب خوف سے مل کر وجود میں آیا ہے۔بارش کے طوفان سے پیدا ہونے والا خوف ’آمبرو فوبیا‘ کہلاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بالغ لوگوں کے مقابلے بچوں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اس میں مبتلا مریض جب کبھی موسم تبدیل ہوتے ہوئے،بادلوں کے ساتھ بجلی کڑکتے یا بارش ہوتے دیکھتا ہے۔تو خوف زدہ ہوکر رد عمل کرتا ہے۔اگر یہ مرض حد سے زیادہ تجاوز کر جائے تو وہ ہلکی پھلکی بوندا باندی ،اور ہوائوں کے سرسراہٹ سے بھی خوف زدہ ہونے لگتا ہے۔ ایسے مریض کے لئے برسات کے دن عام طور ناپسندیدہ ہوتے ہیں۔وہ بارش کے خوف کے وجہ سے باہر نکلنے سے بھی ڈرتے ہیں۔اردو غزل میں اس سے متعلق اشعار ملاحظہ کریں:
کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرا ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
شکیبؔ جلالی
بادلوں کے درمیاں رات کیا سازش ہوئی
میرا گھر مٹّی کا تھامیرے گھر بارش ہوئی
بشیر بدرؔ
ہیلو فوبیا (Heliophobia)
یہ ایک ایسا فوبیا ہے جس میں مبتلا افراد سورج کی روشنی اور اس کی تپیش سے خوف کھاتے ہیں۔اور سورج کی روشنی میں باہر جانے سے گھبراتے ہیں۔ایسے لوگ اندھیرے کمرے میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔وہ دن کے بجائے رات میں کام کرنے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔شعر دیکھیں:
سوکھا،بارش کے ماروں کا دکھ کب جاکر ختم ہوا
سورج دیکھ کے ڈر جائے ہیں بادل دیکھ کے گھبرائے ہیں
پرتاپ سوم ونشی
بوٹانو فوبیا (Botanophobia)
بوٹانو فوبیا پودوں کا ایک غیر معمولی اور مستقل خوف ہے۔جو ماضی کے ایک منفی تجربے کی وجہ سے ہوتا ہے۔بوٹانو فوبیا کے شکار افراد کو پودوں کا سامنا ہونے پر عجیب سی بے چینی ہوتی ہے۔اگر اس مرض کا علاج نہ کیا جائے تو یہ فوبیا بہت تکلیف دے سکتا ہے۔اس سے متعلق شعر دیکھیں:
شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے
افتخار عارفؔ
انتھو فوبیا (Anthophobia)
پھولوں سے لگنے والے خوف کو انتھوفوبیا کہا جاتا ہے۔اس مرض میں مبتلا افراد یا تو ہر طرح کے پھول سے خوف کھاتے ہیں یا کچھ خاص قسم کے پھولوں کو چھونے یا دیکھنے سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔اس سے متعلق شعر دیکھیں:
نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کے پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے
ملک زادہ منظورؔ احمد
سیلینو فوبیا (Selenophobia)
یونانی زبان میں “Selene” چاند کو کہتے ہیں۔چاند یا اس کی روشنی کا غیرمعقول خوف ’سیلینو فوبیا‘ہے۔اس کا خوف میںمبتلا افراد چاند کے بارے میں بات کرنے یا سوچنے سے بھی خوف یا اضطراب میں آسکتے ہیں۔اس سے متعلق ایک شعر دیکھیں:
یہ کب کہاتھا نظاروں سے خوف آتا ہے
مجھے تو چاند ستاروں سے خوف آتا ہے
وصی شاہؔ
ڈسٹا ئچیفوبیا (Dystychiphobia)
یہ حادثات کے سبب پیدا ہونے والا خوف ہے۔اکثر ایسے شخص میں دیکھا جاتا ہے جو ماضی میں کسی سنگین یا قریب سے مہلک حادثے کا شکار رہا ہو۔کچھ معاملات میں حادثے میں کسی کے کھو جانے سے بھی فوبیا متحرک ہو جاتا ہے۔اس فوبیا کے مرض کو یہ خوف لگا رہتا ہے کہ دوسرے افراد ان کو تکلیف پہنچاسکتے ہیں۔اس سے متعلق اشعار دیکھیں:
آنے والے حادثوں کے خوف سے سہمے ہوئے
لوگ پھرتے ہیں کہ جیسے خواب ہوں ٹوٹے ہوئے
آزادؔ گلہاٹی
گھر کی گھٹن سے دور نکل جائے آدمی
سڑکوں پہ خوف ہونہ اگر حادثات کا
بدیع الزماں خاورؔ
افینو فوس فوبیا (Aphenphosmphobia)
اس فوبیا میں فرد کسی کے چھونے بھر سے ہی خوف زدہ ہو جاتا ہے۔اکثر یہ جنسی حملے کے خوف سے منسلک ہوتا ہے۔اس فوبیا میں گرفتار شخص کو جنسی استحصال کا نشانہ بننے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔شعر دیکھیں:
اپنا بھی ہاتھ چھونے سے ڈر جائے آدمی
میری سمجھ میں آچکا کتنا برا ہے خوف
محمد شاہد فیروزؔ
الغرض اردو غزل سے فوبیا کی مختلف اقسام پراشعار پیش کئے جا سکتے ہیں جن کو پڑھ کر اور سمجھ کر اردو کے قارئین بخوبی اندازہ کر سکتے کہ ہماری اردو غزل نے موجودہ دور میں سائنس کی آواز میں آواز ملا کر کس قدر ترقی حاصل کی ہے۔اور کس طرح مختلف موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔
حوالہ جات:
اینگزائٹی(گھبراہٹ) اور فوبیا rcpsych.ac.uk/mental-health/translations/urdu/
https://www.healthline.com (List of phobias:How Many Are There?)
https://www.medicalnewstoday.com (Phobias: Symptoms,types,causes,and treatment)
https://phobia.wiki.org/wiki/chionophobia
www.fearof.net/fear-of-rain-phobia-ombrophobia