پچھلے ہفتے سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے مدمقابل دور دور تک کوئی سیاسی جماعت مقابلے میں نظر نہیں آتی۔ ہمیشہ کی طرح ہارنے والوں نے دھاندلی کے وہی پرانے گھسے پٹے الزامات لگائے لیکن ان الزامات میں اس لئے بھی کوئی وزن نہیں ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کی مدمقابل سیاسی جماعتیں اور اتحاد بہت ہی کم سیٹوں پر اپنے امیدوار سامنے لا سکے تھے جبکہ بہت ساری جگہوں پر پیپلزپارٹی کے مدمقابل پیپلزپارٹی کے اپنے ہی لوگ الیکشن لڑ رہے تھے جن کو بوجوہ پارٹی ٹکٹ نہیں مل سکا تھا۔ اس تاریخ ساز کامیابی کے بعد پیپلزپارٹی کے تھنک ٹینک اور پالیسی سازوں کو سوچنا چاہئیے کہ سندھ اور بلوچستان میں پارٹی کی بہترین کارکردگی کے بعد پارٹی قیادت کا زیادہ تر فوکس پنجاب اور خیبرپختونخوا پر ہونا چاہئیے جہاں بوجوہ پارٹی اپنی مقبولیت بہت حد تک کھو چکی ہے اور ان عوامل پر غور کرنا چاہئیے کہ پیپلزپارٹی کی بے پناہ مقبولیت جب سندھ کا بارڈر پار کرنے کے بعد جونہی پنجاب میں داخل ہوتی ہے تو اس میں ایک دم اتنی تیزی سے کمی کیوں ہو جاتی ہے۔ وہی پیپلزپارٹی جس کا سندھ میں طوطی بولتا ہے اور اس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں کموں شہید کراس کرتے ہی زبوں حالی کا شکار کیوں نظر آتی ہے۔ ان عوامل کا پتہ لگایا جانا اور ان کا تدارک کیا جانا بہت ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکی۔
پنجاب میں پیپلزپارٹی کی زبوں حالی میں جہاں اندرونی عنصر یعنی پیپلزپارٹی کی اپنی تنظیمی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا بہت عمل دخل ہے وہاں بیرونی عنصر یعنی مقتدرہ کے پیپلزپارٹی کے بارے معاندانہ رویے اور مسلسل مخالفانہ مہم نے بھی پیپلزپارٹی کو پنجاب میں بہت زیادہ سیاسی نقصان پہنچایا ہے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں کنگز پارٹیز کو انتخابات جتوائے جاتے رہے جبکہ پیپلزپارٹی کے جیتے ہوئے انتخابات کے نتائج بدلے جاتے رہے۔ پنجاب میں خفیہ ہاتھوں کے دباؤ پر پیپلزپارٹی کے مضبوط امیدواروں کو توڑ کر کنگز پارٹیز میں شامل کیا جاتا رہا۔ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں انتخابی مہم کے لئے بھی کبھی یکساں میدان فراہم نہیں کیا گیا۔ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی پنجاب میں انتخابی مہم بھی چند شہروں تک ہی محدود رکھی جاتی رہی۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں تو دہشت گردی کی وجہ سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابی مہم چلانے ہی نہیں دی گئی جبکہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں انتہائی محدود انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی گئی۔ بیرونی عنصر یعنی مقتدرہ کے کردارکو ایک طرف رکھ کر اگر اندرونی عنصر یعنی پیپلزپارٹی کی اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں اور تنظیمی خلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئیے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی اگر اپنی تنظیمی کمزوریوں، کوتاہیوں اور دوسری مشکلات پر قابو پا لے تو نہ صرف پنجاب میں پیپلزپارٹی کے مسلسل گرتے ہوئے گراف کو بہتر بنانے میں کامیابی مل سکتی ہے بلکہ بیرونی عنصر کا مقابلہ بھی اپنی اندرونی کمزوریوں پر قابو پانے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر پارٹی تنظیمی طور پر مضبوط ہو گی، قیادت کا کارکنوں کے ساتھ تعلق ہو گا، عوام کے ساتھ مسلسل اور براہ راست رابطہ رکھا جائے گا تو بیرونی عنصر کی مداخلت کا مقابلہ بھی آسانی کے ساتھ کیا جا سکے گا۔
جنوبی پنجاب جہاں آج بھی پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک کسی حد تک موجود ہے وہاں کی تنظیم کاغذوں اور تصویروں کی حد تک تو نظر آتی ہے لیکن نہ کبھی کسی تنظیمی پروگرام کی خبر ملتی ہے نہ ورکرز کنونشن کی اور نہ کسی عوامی رابطے کی۔ جنوبی پنجاب میں شائد یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ انتخابات سے پہلے کچھ الیکٹیبلز پارٹی میں شامل کروا لئے جائیں گے اور اس طرح کچھ سیٹیں پارٹی کو مل جائیں گی اس کے علاوہ جنوبی پنجاب میں عوامی رابطے کے لئے کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ سنٹرل پنجاب میں نئی تنظیم کا اعلان ہونے کے بعد لاہور میں ہونے والے این اے 133 کے ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی میں جان پڑتی نظر آئی اور کہا گیا کہ پارٹی کو گراس روٹ لیول تک مضبوط کیا جائے گا اور پارٹی چھوڑ جانے والوں کو گھر گھر جا کر منایا جائے گا لیکن اس کے بعد حکومت کی تبدیلی اور نئی حکومت میں پیپلزپارٹی کی شمولیت کے نتیجے میں صدر سنٹرل پنجاب راجہ پرویز اشرف قومی اسمبلی کے سپیکر بن گئے اور جنرل سیکرٹری سید حسن مرتضی پنجاب کے سنئیر وزیر بن گئے جس سے پارٹی کو تنظیمی طور پر بہرحال نقصان ہوا۔ سید حسن مرتضی اگرچہ دونوں محاذوں پر لڑتے ہوئے پارٹی اور کارکنوں کے ساتھ نہ صرف مسلسل رابطے میں رہتے ہیں بلکہ کارکنوں کے مسائل کے حل کے لئے بھی ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود نئی تنظیم کا اعلان کیا جانا نہایت ضروری ہے تاکہ پارٹی کا تنظیمی کام متاثر نہ ہو۔
آنے والے مہینوں میں پیپلزپارٹی کے لئے ایک بڑا امتحان پنجاب کے بلدیاتی انتخابات بھی ہیں۔ پنجاب کے پچھلے بلدیاتی انتخابات میں راجہ ریاض اور فردوس عاشق اعوان جیسے لوگوں پر پارٹی کا اعتراض تھا کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزارتوں کے مزے لوٹنے کے باوجود یہ لوگ اپنے حلقوں میں بلدیاتی امیدوار تک کھڑے نہیں کر سکے تھے تو یہ سوال آج بھی موجود ہے کہ پانچ چھ سال گزرنے کے بعد پورے پنجاب میں کتنے اراکین اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز موجود ہیں جو اپنے حلقوں میں بلدیاتی امیدوار کھڑے کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ یقیننا اس سوال کا جواب کوئی بہت حوصلہ افزا نہیں ہو گا اور اس کی مثال چند ماہ پہلے ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات بھی ہیں جن میں پورے پنجاب میں کوئی سیٹ جیتنا تو درکنار پیپلزپارٹی کے پاس امیدوار تک نہیں تھے۔ آج جب سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کی مخالف جماعتوں کو امیدوار نہ ملنے کا طعنہ دیا جاتا ہے تو مت بھولیں اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو پنجاب میں پیپلزپارٹی کو اسی طعنے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جہاں تک پنجاب میں پیپلزپارٹی کی مدمقابل دوسری جماعتوں کا تعلق ہے تو حکومت کی تبدیلی کی بعد عمران خان نے مسلسل جلسے کئے، ناکام لانگ مارچ بھی کیا۔ اس بحث میں جائے بغیر کہ یہ جلسے کامیاب تھے یا ناکام یہ ماننا پڑے گا کہ عمران خان حکومت سے نکلنے کے بعد سے مسلسل عوامی رابطے میں مصروف ہیں اور جلسوں، سمینارز یا کسی بھی پروگرام کی صورت میں مسلسل اپنا بےبنیاد بیانیہ یا پروپیگنڈہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ن لیگ بھی کسی حد تک پنجاب میں عوامی رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہے لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے پچھلے مارچ میں کئے جانے والے لانگ مارچ کے بعد پنجاب میں کوئی قابل ذکر سیاسی سرگرمی یا عوامی رابط مہم نظر نہیں آئی جس کی وجہ سے عمران خان کی جانب سے مسلسل کئے جانے والے پروپیگنڈے کا توڑ بھی نہیں کیا جا سکا۔
اگلے انتخابات اگر مقررہ وقت پر بھی ہوں تو سال سوا سال کا وقت ہی باقی بچتا ہے، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت اپنا پورا فوکس پنجاب پر مرکوز کرے کیونکہ اگر وفاق میں حکومت بنانی ہے تو اس کے لئے پنجاب میں اپنی ساکھ بحال کرنی ہو گی۔ چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری چونکہ وزارت خارجہ کی مصروفیات کی وجہ سے اس وقت پنجاب کو پورا وقت نہیں دے سکتے اس لئے زرداری صاحب کو اپنا زیادہ وقت پنجاب میں گزارنا چاہئیے۔ چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی سرکاری مصروفیات کی وجہ سے عدم موجودگی کے باعث آصفہ بھٹو زرداری کو پنجاب میں عوامی رابطہ مہم کے لئے میدان میں اتارنا بہت ضروری ہے کیونکہ پیپلزپارٹی اس وقت پنجاب میں بہت پیچھے جا چکی ہے اور عوامی رابطے میں مزید تاخیر ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن جائے گی۔ تحریک لبیک جیسی شدت پسند جماعت جس طرح اپنی سرگرمیاں بڑھا رہی ہے اس سے خدشہ ہے کہ تحریک انصاف کی پے در پے سیاسی ناکامیوں کے باعث تحریک انصاف کا ووٹ بینک اگر تحریک انصاف سے متنفر ہوتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والا خلا پیپلزپارٹی کی بجائے تحریک لبیک جیسی شدت پسند جماعت پورا کرے گی۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ پیپلزپارٹی کی پنجاب سے عدم توجہی ہو گی۔ اس لئے اگر پیپلزپارٹی نے پنجاب کو سنجیدگی سے نہ لیا تو پنجاب میں انتہاپسندی میں مزید اضافہ ہو گا اور تحریک لبیک جیسی شدت پسند جماعتیں سامنے آئیں گی۔
پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کی وجہ سے پنجاب میں بننے والا ردہم بھی حکومت میں شمولیت اور ناقابل برداشت مہنگائی کے الزامات کی وجہ سے مدہم پڑ چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے فوری طور پر پنجاب کی تنظیموں کا فعال ہونا اور عوامی رابطہ مہم کا آغاز بہت ضروری ہے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی اور پیپلزپارٹی پنجاب کی انتخابی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گی۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری کی بی بی شہید سے مشابہت اور عکس بینظیر کے امیج کی وجہ سے اگر آصفہ بھٹو زرداری کو پنجاب میں سامنے لایا جائے تو پیپلزپارٹی کا ووٹر واپس آ جائے گا۔ جس طرح مریم نواز پنجاب میں ن لیگ کو لیڈ کررہی ہیں تو آصفہ بھٹو کی پنجاب میں انٹری پیپلزپارٹی کو پنجاب میں اچھے نتائج دے سکتی ہے۔ عوامی رابطہ مہم کے پہلے مرحلے میں ابھی بڑے جلسے بے شک نہ کریں لیکن ضلعی اور تحصیل لیول پر ورکرز کنونشن ضرور کئے جائیں جہاں سیکیورٹی بھی نسبتا آسان ہوتی ہے اس سے کارکنوں اور لوکل قیادت کو متحرک کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ پنجاب کے بہت سارے حلقوں میں پیپلزپارٹی کے پاس یا تو امیدوار ہی موجود نہیں اور اگر ہیں بھی تو ایسے امیدوار ہیں جن کا شوق صرف ٹکٹ ہولڈر کہلوانے کی حد تک ہے نہ تو ان کا کارکنوں سے کوئی رابطہ ہے اور نہ عوام سے۔ ابھی انتخابات میں سال سوا سال کا عرصہ باقی ہے اس لئے کوشش کی جانی چاہئیے کہ بااثر اور سنئیر پارٹی رہنماوں کو ذمہ داری سونپی جائے کہ مضبوط امیدواروں کے ساتھ رابطے کئے جائیں، انہیں پارٹی میں شامل کیا جائے اور کوئی بھی حلقہ خالی نہ چھوڑا جائے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اچھے، بااثر اور مضبوط امیدوار بھی اسی صورت میں آپ کے ساتھ شامل ہوتے ہیں اگر پارٹی گراونڈ لیول پر موجود ہو۔ پنجاب میں انتخابی سیاست کا ایک بڑا رخ یہ بھی ہے کہ یہاں الیکشن لڑنے والے ہوا کے رخ کا بھی اندازہ کر لیتے ہیں اور جیسا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہو رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کی ناکامی اور فاش سیاسی غلطیوں کے باعث اب تحریک انصاف کی اقتدار میں واپسی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے تو ایسی صورت میں پنجاب کے ووٹرز اور الیکٹیبلز بھی بڑی تیزی سے راستہ بدل لیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اگر پنجاب میں سیاسی سرگرمیاں شروع کردے تو پھر لوگ پیپلزپارٹی کی طرف بھی دیکھنا شروع کردیں گے۔
پیپلزپارٹی اگر واقعی پنجاب میں اپنے ووٹ بینک کی بحالی اور ماضی جیسی مقبولیت دوبارہ حاصل کرنے میں سنجیدہ ہے تو پھر اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے، ہر سطح پر تنظیموں کو فعال کیا جائے، تنظیموں کے اہداف مقرر کئے جائیں، ڈویژن، ضلع اورتحصیل کے عہدیداروں کو ٹاسک دئیے جائیں جس کا باقاعدگی سے فالو اپ بھی ہو۔ ٹکٹ ہولڈرز کو بلدیاتی انتخابات میں ہر حلقے میں امیدوار کھڑا کرنے کا ٹاسک دیا جائے اور آنے والے بلدیاتی انتخابات کو اگلے عام انتخابات کی ریہرسل سمجھ کر لڑا جائے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو اپنا کھویا ہوا شاندار ماضی دوبارہ حاصل کرنے کے لئے زمینی حقائق کا ادراک کرنا ہو گا۔ ڈرائنگ روم کی سیاست چھوڑ کر میدان عمل میں نکلنا ہو گا اور اس کے لئے اب زیادہ وقت بھی باقی نہیں بچا۔ اگلا سال شروع ہوتے ہی انتخابی سرگرمیاں بھی شروع ہو جائیں گی اس سے پہلے اپنی صفیں درست کرنی بہت ضروری ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو نتائج دو ہزار تیرہ اور دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔
چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے تقریباً ایک سال قبل کہا تھا کہ جس گھر پر ماضی میں کسی بھی وقت پیپلزپارٹی کا جھنڈا لہراتا رہا ہے اسے پیپلزپارٹی میں واپس لایا جائے گا، اگر چیرمین کی صرف اس ایک ہدایت پر عمل کر لیا جائے تو پیپلزپارٹی کا پنجاب میں کارکن بھی واپس آ جائے گا اور ووٹ بینک بھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...