پنجاب اور پنجابی کی مخالفت اک جدید فیشن ہے کہ اس میں بڑے بڑے جگادری حاضریاں بھرنا ضروری گردانتے ہیں کہ اس مہم میں پنجابی اور غیر پنجابی بھی شامل ہیں۔ انگریزوں کے خلاف مسلح و جمہوری جدوجہد ہو یا پھرپاکستان میں سیاسی لہر ، پنجابی ہر جگہ پیش پیش رہے کہ غدر پارٹی، بنئیے کے خلاف تاریخی فتح سے ذولفقار علی بھٹو کو قائد عوام بنانے اور ضیا شاہی کے خلاف جدوجہد سے تادم تحریر مزاحمتی جدوجہد میں پنجاب اور پنجابیوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ مگر جنھیں اپنی ہی مزاحمتی تاریخ بارے علم نہیں وہ کہتے ہیں کہ پنجاب اور پنجابیوں نے کبھی مزاحمت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے آپ کو اس تحریر کے ذریعے معلومات دی جا رہی ہیں کہ اپنی گمشدہ تاریخ بارے جانتے ہوئے ہی آپ انگریزی علم کے کھلار کو سمجھ پائیں گے۔
دنیا بھر میں پھیلے 20 کروڑ سے زیادہ پنجابیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ جنوبی ایشیائی باشندوں کے لیے 29 مارچ کا دن بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ دن ہے جب برصغیر کی آخری دیسی ریاست کو گورے حکمرانوں نے سر نگوں کیاتھا۔ وہ دیسی ریاست جس کا نام ”لہور دربار“ تھا اور جو پورے 50 برس کشمیر سے فاٹا تک برقرار رہی اور جس کا اثر شکار پور، کابل، قندہار اور قلات تک پھیلا تھا۔ اس ریاست کا ساتھ دینے والوں میں پنجابی’پٹھان، کشمیری،بلتی بھی تھے، ہندو، سکھ اور مسلمان بھی تھے’جٹ’راجپوت’ارائیں اور گجر بھی’پوربی اور افغان بھی اور یورپی و امریکی فوجی بھی۔ مگر انگریزوں اور ان کے ہمنوا لکھاریوں نے یہی جھوٹ پھیلایا کہ لہور دربار کی حکومت تو سکھوں کی بادشاہی تھی۔ ہشیار انگریز دانشوروں نے سکھ مسلم اور پنجابی’غیر پنجابی تضاد کو خوب استعمال کیا اور اس کے تحت مطلبی تاریخ لکھوائی جو آج بھی ہمارے محققین کا منہ چڑاتی ہے۔ اس مطلبی تاریخ کو کون آگے بڑھا رہا ہے؟یہ اپنی جگہ عجب داستان الم ہے کہ پاکستان، بھارت اور افغانستان کے سرکاری نصابوں میں سرکار انگلشیہ کا نقش پا ”نئی قوم پرستیوں” کی صورت صاف نظر آتا ہے۔ حتاکہ آکسفورڈ، کیمرج اور امریکی علم بھی اس کی وٹوانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک مثال افغان لٹریچر کی ہے کہ افغانستان کے بادشاہ دوست محمد خان( 1792 تا 1863) کا بھائی سلطان محمد خان طلائی تو آخر تک لہور دربار کا سجن رہا جبکہ باجوڑ’خیبر اور دیر کے خان لہور دربار کے ساتھ رہے۔ 1830 کی دہائی میں بریلی سے لاہور آ بسے دیوی پرشاد کی کتاب 1850میں چھپی کہ جس میں دوست محمد خان کے اس فرزند کا ذکر ہے جو جنوری 1849 میں گجرات کے پاس ہونے والی خونی جنگ میں انگریزوں کے خلاف پنجابیوں کے روبرو لڑا۔
جب 1790 کی دہائی میں نوجوان مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنی بادشاہت بنا رہا تھا تو کسی بھی بادشاہت کی طرح اس کے سکھ مثلوں کے پنجابی سرداروں، مسلمان پنجابی راجوں اورپٹھانوں و دیگر سے ٹاکرے ہوئے مگر ان میں کئی تھے جو ان لڑائیوں کے بعد طویل عرصہ مہاراجہ کے ساتھ رہے مگر انگریز سکالرشپ نے باوجوہ اس کا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا کہ وہ صرف لڑائیوں بارے ہی بتانا چاہتا تھا۔ایک مثال قصور کے حکمران خاندان کی ہے کہ ایک مہم میں قصور کے خان مہاراجہ کے ساتھ لڑے مگر بعد میں وہ تادیر مہاراجہ کے ہمرکاب رہے،کشمیر کی مہم میں تو یہ خان صاحب مہاراجہ کی طرف سے بڑی بے جگری سے لڑے۔لاہور کے فقیر خاندان بارے تو ہم سب جانتے ہی ہیں مگر امرتسر کے میاں غوثا’ملتان کے سانول مل اور مول راج ہوں یا کشمیر کے شیخ برادران اور یونینسٹ پارٹی کے میاں فصل حسین اور شاہنواز ممدوٹ کے بزرگ یہ سب لہور دربار کے ساتھ مل کر انگریزوں سے برسرپیکار رہے۔نور خان کا ذکر تو محمد شاہ کی مشہور رزمیہ ”جنگ ہند پنجاب“ میں محفوظ ہے جو پنجاب پر قبضہ کے بعد لکھی گئی۔ مگر ہمیں یہی سبق پڑھایا گیا کہ لہور دربار تو سکھوں کی بادشاہی تھی۔
شاہ شجاع سمیت احمد شاہ ابدالی کے تینوں پوتوں کو پناہ و جاگیریں دینے والے لہور دربار کو گرانے کے لیے انگریزوں کو تین خوفناک جنگوں سے گزرنا پڑا۔ گجرات کے قریب چیلیانوالہ کے مقام پر جو خوفناک لڑائی ہوئی اس میں پنجابیوں کے ہمراہ دوست محمد خان کا بیٹا بھی انگریزوں کے مخالف لڑا۔ اس جنگ کی بڑی یادگار چیلیانوالہ کا ”گورا قبرستان“ہے۔ فیصل آباد کے مرحوم میجر معین باری نے چلیانوالہ پر باکمال کتاب چھاپ رکھی ہے۔ ان جنگوں میں حصہ لینے والے کپتان کنگھم نے جب کتاب میں اعتراف کیا کہ یہ جنگیں سازشوں سے جیتیں گئی تھیں تو انگریزوں نے اس کتاب پر پابندی لگا دی تھی۔اس کی بیوی نے یہ کتاب تین بار چھپوائی مگر آزادی اظہار کے عملبرداروں نے اس پر ہر بار پابندی لگائی۔ یاد رہے کہ ہمارے بچوں کو یہ تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔ انگریز دانشوروں نے مسلمانوں کو ”سکھا شاہی“ اور سکھوں کو ”مسلم حملہ آوروں“ کی اصطلاحیں دیں تاکہ یہ آپس میں دست و گریباں ہی رہیں اور پنجابی پختون تضاد اور سکھ مسلم تضاد پھلتا پھولتا رہے۔ لہور دربار کی 90 فی صد آبادی تو ان دونوں مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل تھی کہ ان میں اختلافات ایجنڈے کا خصوصی حصہ رہا۔ مسلم اور سکھ بنیاد پرست و انتہاپسند گروہ آج بھی اُسی انگریز پالیسی کے اسیر ہیں کہ اس میں وہ قوم پرستوں کی جتھے بندیاں بھی پیش پیش رہیں۔
27 جون 1839 وہ دن تھا جب 1799 سے برسراقتدار گوجرانوالہ کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انتقال ہوگیا۔ 1803 میں دلی پر قبضہ کے بعد للچائی نظروں سے پنجاب پر قبضہ کے خواب دیکھنے والے انگریزوں کے راستے کی سب سے بڑی اور دیوقامت دیوار گر گئی۔ایک سال کے بعد قلات(بلوچستان)’پھر قندہار اور کابل،چار سال کے بعد سندھ’سات سال کے بعد کشمیر اور 10 سال کے بعد پنجاب بشمول فاٹا پر انگریز کا قبضہ ہوگیا۔ پرنسپ’دیوی پرشاد’برائن ہیوگل’سٹین بیچ’گاڈنر’کپتان کنگھم’گنیش داس’شہامت علی سمیت لاتعداد لکھاریوں نے 1850 تک لہوردربار بارے بہت سی کتب لکھیں۔ ان کتب کو پڑھنے سے ہمیں انگریزوں سے پہلے کے سیاسی’سماجی حالات بارے جاننے میں مدد ملتی ہے۔ اس دور میں ہمارے خطوں میں سب سے بڑی زبان فارسی تھی اور فارسی کا ہمارے خطہ کی مادری زبانوں سے گہرا رشتہ بھی تھا۔ خدا بھلا کرے اگروال صاحب کا جن کی وجہ سے گنیش داس کی فارسی میں 18ویں صدی کے پنجاب پر لکھی کتاب ”چار باغ پنجاب“ پنجابی و انگریزی میں ترجمہ ہوگئی۔ مقصود ثاقب نے اسے شاہ مکھی میں بھی چھاپ کر لاہور کی لاج رکھ لی۔ مگر تاحال ہمارے خطہ بارے کتنی ہی فارسی کتب ترجمہ نہیں کروائی گئیں۔ لہور دربار پر قبضہ کے بعد انگریزوں نے مرحلہ وار انداز میں فارسی کو ختم کرنے کی مہم شروع کی۔ 1865 کے بعد پنجاب بشمول پشاور’کشمیر اور قلات میں اُردو کا نفاذ فارسی کو ختم کرنے کی مہم کا خاص حصہ تھا۔ اس تاریخ کو ہمارے ہاں جان بوجھ کر چھپایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان’بنگلہ دیش اور بھارت کی گذشتہ ہزار سال کی تاریخ فارسی اور ترکی زبانوں ہی میں محفوظ ہے۔
29مارچ کا دن اس لیے اہم ہے کہ یہ ہمیں اپنی تاریخ کو جاننے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایک مثال بادشاہی مسجد کے میناروں کے شہید ہونے کی ہے جو 1827 کے زلزلے کے بعد اپنی اصلی حالت میں نہیں رہے تھے کہ اس کے بعد 1839 میں ایک اور زلزلہ آیا تھا۔ اس زمانے میں آنے والے زلزلوں کے ریکارڈ کے حوالہ جات زلزلوں کے حوالوں سے موجود بین الاقوامی ویب سائٹ پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ 1873 کا گیزیٹر بھی 1839 میں بادشاہی مسجد کے میناروں کے زلزلہ کے بعد شہید ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ مگر بہت سے لکھاریوں نے میناروں کے شہید ہونے کا الزام سکھوں پر دھردیا۔ یہ کہانی گھڑی گئی کہ راجہ جموں گلاب سنگھ کے سپاہی توپیں لے کر شاہی مسجد کے میناروں پر چڑھ گئے تاکہ شاہی قلعہ کے اندر گولے برسا سکیں۔ آپ میں سے جس نے بھی بادشاہی مسجد کے میناروں کی سیڑھیاں دیکھی ہیں وہ با آسانی اس جھوٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان تنگ سیڑھیوں میں سے تو پیں لے جانا تو دور کی بات’وہاں سے تو دو انسان اکٹھے بھی نہیں جاسکتے۔ اگر توپیں ہی لے جائی گئیں تھیں تو پھر مسجد کے پچھلے مینار گرانے کی تو ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ تو قلعہ کی طرف نہیں تھے۔ اسی طرح 1827 کے زلزلے میں لاہور کی بہت سی تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔ زلزلوں سے ہوئے ان نقصانات کو بھی سکھوں کے کھاتے ڈال دیا گیا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ لہور دربار کی حکومت میں مسلمانوں کا تناسب 70 فی صد سے بھی زیادہ تھا۔ اگر مہاراجہ مسلمانوں کا دشمن ہوتا تو اس کی حکومت 3 سال بھی نہ چل سکتی۔ اسی طرح سکھوں کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کے حملوں اور میر منو کے دَور کے واقعات کو مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا گیا۔ احمد شاہ ابدالی اور میر منو تو مسلمانوں اور پٹھانوں کے ساتھ بھی لڑتے رہے تھے مگر سکھوں کو یہ باتیں نہ بتائی گئیں۔یہ سب جیمس مل کی تقلید تھی جس نے جنوبی ایشیا بارے1824 میں کتاب لکھی اور ہندو دور اور مسلم دور کی گمراہ کن اصطلاحیں ایجاد کیں۔ بھلا ہو رومیلہ تھاپڑ کا جس نے اس کی کاٹ کی مگر بھارت اور پاکستان کے نصابوں میں اس عبقری کی تحقیق کو باوجوہ جگہ نہ مل سکی۔ جو سکول سسٹم ہمارے خطوں میں انگریزوں نے بنایا اس میں مادری زبانوں یعنی پشتو’بلوچی’براہوی اور پنجابی کو دیس نکالا دیاگیا تھا تو دوسری طرف ان کی تیار کردہ نصابی کتب میں صوفیا اور بھگتوں کی تعلیمات شامل ہی نہ تھیں۔
بنظر غائر دیکھا جائے تو1854 کے ووڈزڈسپیچ سے لے کر جی ڈبلیو لائیٹنر کی 1882 کی تعلیمی رپورٹ تک بہت سے انگریز تھے جنھوں نے ان اقدامات کی مخالفت کی۔ اس تعلیمی بندوبست کی خوبیوں اور گھاٹوں پر ہم نے تاحال کچھ کام نہیں کیا اور اس کا الزام انگریزوں پر قطعاً نہیں ڈالا جا سکتا۔ لائیٹنر نے تو اپنی شہرہ آفاق کتاب ”پنجاب میں دیسی تعلیم“ میں نہ صرف پنجابی زبان کے چھ رسم الخطوں کا ذکر کیا ہے بلکہ پنجابی’فارسی سلسلوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ مگر برٹش انتظامیہ نے بوجوہ ان باتوں کو ضروری نہ گردانا۔ دیکھا جائے تو فارسی نے اس خطہ کو جوڑا ہوا تھا جو ایک طرف وسط ایشیا و ایران تک جاتا تھا تو دوسری طرف کشمیر تک مگر اس جڑت کو توڑنا نو آبادیاتی مفادات کا بڑا مقصد ٹھہرا کہ وہ سلک روٹ کے رستوں کو برباد کرنے یا ان پر قابض ہونے ہی آئے تھے۔ یہ سب تو گورے حکمرانوں کے کارنامے تھے مگر ہم نے 75 سالوں میں اسی سلسلہ کو کیوں جاری رکھا؟ یہ ہے وہ سوال جس کو آج ہم نے دوبارہ سے دیکھنا ہے۔ 29مارچ کا دن اس کھوج کی طرف رخ کرنے ہی سے عبارت ہے۔”لہور دربار کے واقعات1810 تا1817“وہ قابل ذکر کتاب ہے جس کا مسودہ پٹنہ سے ملا تھا اور 1930 میں اس فارسی مسودے کو پنجاب ریکارڈ آفس بھیج دیا گیا تھا۔1933 میں اسے انگریزی میں چھاپا گیا جس کو پڑھ کت چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔دربار میں پنڈی داس بھی بیٹھا ہے جو بکھر ٹھٹہ آبی گذرگاہ کے ٹھٹہ میں حکمران راجہ کا نماہندہ ہے اور ٹھٹہ سے سمندر کو ملاتی گذگاہ پر بنی اس خطہ کی واحد تجارتی بندرگاہ ”لہوری بندر“ کا امین ہی نہیں بلکہ دریائی تجارتوں کا نگہبان بھی ہے۔تجارتوں کو چالو رکھنے کے لیے مہاراجہ اسی کو ہنڈی کروانے کے لیے رقمیں دیتا ہے۔ 1538 میں لکھی فارسی کتاب تاریخ طاہری میں لہوری بندر کا ایک پرانا نام لہورہ داہڑو بھی لکھا ہے اور یہ بھی کہ اس بندرگاہ کو1538سے قبل پرتگالی تین بار آگ لگا چکے تھے۔ 1332 میں ابن بطوطہ یہاں 5دن رہا تھا کہ انگریزوں نے سندھ پر1843 میں قبضہ کیا اور دریاوں سے جڑی قدرتی بندرگاہ کو برباد کر کے کراچی پر بظاہر اک حفاظتی بندگاہ بنائی۔ اسی کتاب میں قاضی فقیر اللہ کا واقعہ بھی لکھا ہے جنھوں نے1811 میں بادشاہی مسجد کو پہلی دفعہ عوام کے لیے کھولا اور یہاں عید کی نماز کروائی۔ مگر انگریزوں نے اپنے درباری لکھاریوں جیسے جج لطیف اور کنھیا لال کے ذریعے یہ لکھوایا کہ سکھوں نے مسجدیں برباد کر دیں۔
مذہبوں ’فرقوں ’زبانوں اور رسم الخطوں سے خوب کھیلا گیا۔ لہور دربار میں مسلمانوں کے بعد عددی اعتبار سے دوسرا بڑا مذہبی گروہ سکھ تھے۔ انگریزوں نے پہلے کشمیر کو لہور دربار سے الگ کیا اور 1850 کی دہائی کے اولین سالوں میں ستلج پار سے دلی تک کا علاقہ پنجاب میں شامل کردیا۔ اب پنجاب میں دوسرا بڑا مذہبی گروہ سکھوں کی بجائے ہندو بن گئے۔ سکھوں کو تو تادیر اس کی سمجھ ہی نہ آئی۔1941کی مردم شماری کے مطابق بھی پنجاب میں ہندو 22فی صد جبکہ سکھ 11فیصد تھے۔ ان اعدادو شمار سے اکھاڑ بچھاڑ کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ 29 مارچ کا دن ہمیں اس سماجی اتھل پتھل یعنی سوشل انجینئرنگ کی یادلاتا ہے جس سے ہمارے بچوں کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ محض پنجاب کا نہیں بلکہ خیبر پی کے’بلوچستان اور سندھ کا بھی ہے
اور مشرقی پنجاب اور کشمیروگلگت بلتستان کا بھی۔ افسوس ہمارا باخبر اور مقتدر میڈیا بھی 29 مارچ کے دن کی اہمیت سے تاحال ناآشنا ہے۔ ہم جانتے یا ناجانتے ہوئے سکھ مسلم اور پنجابی غیر پنجابی تضادات کے مہلک اثرات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مذہبی بنیاد پرست اور انتہا پسند تو انہی تضادات کو استعمال کر رہے ہیں مگر ترقی پسند، قوم پرست اور لبرل دانشور بھی اسی مطلبی تاریخ کے اسیر نظر آتے ہیں۔ آج اگر ہماری یونیورسٹیاں اور میڈیا اس بارے غور کریں تو کوئی وجہ نہیں ہم اپنی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنے کی طرف سکیں۔ کیا آپ یونیورسٹیوں میں پنجاب سٹیڈیز کے نام سے شعبہ جات نہیں بناسکتے؟ کیا آپ تاریخ ‘ سماجیات’سیاسیات اور جغرافیہ کے شعبہ جات میں ایم فل’ایم اے اور پی ایچ ڈی کے لیے پنجاب کی تاریخ و ثقافت کے حوالہ سے مقالے تجویز نہیں کر سکتے؟ آجا کر ہمیں 1857 جیسے واقعات ہی یاد رہتے ہیں جنھیں 1948 کے بعد بھارتی قوم پرستی کا جزو لاینفک بنالیا گیاحالانکہ خود نہرو اس کے حق میں نہیں تھے۔ ہندو بنیاد پرست ساور کر وہ پہلا شخص تھا جس نے 1857 کو جنگ آزادی کہاتھا اور حوالہ اس کا ہندو قوم پرستی تھی۔ انگریز اگر 29 مارچ کو یاد نہیں رکھنا چاہتے تھے وہ تو سمجھ آتا ہے مگر ہم آخر کیوں تاحال انگریزی پالیسیوں کے اسیر ہیں؟ ہم اپنے بچوں کو بابا فرید’بابا نانک’مادھو لال حسین’بابابلھے شاہ’وارث شاہ’بابافرید’میاں محمد بخش کے متعلق نہیں بتانا چاہتے۔ ان باکمال بزرگوں کے لازوال کلام کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ انگریزی کی 8 ویں کی کتاب میں میلہ چراغاں پر سبق شامل ہوتا تھا مگر اب وہ بھی نکال دیا گیا ہے۔ حسن نظامی کی پنجابیوں کے خلاف لکھی تحریروں کو تونصابی کتب میں ہشیاری سے شامل کیا جاتا ہے مگر امرتا پریتم کی ”اج آکھاں وارث شاہ نوں۔۔۔ کھتے قبراں وچوں بول“ کو نصابی کتابوں میں شامل کرنا گناہ عظیم ہے۔ ایک زمانہ میں تیسری سے 8 ویں جماعت تک ہر ضلع کی الگ الگ کتب چھپتی تھیں جو کسی حد تک طالب علم کا اپنی دھرتی سے تعلق جوڑتی تھیں۔ مگر اب ان کتب کو چھاپنابھی بند کر دیا گیا ہے۔ اگر ہمارے بچوں کو یہی معلوم نہ ہو گا کہ انگریزوں کے قبضہ سے قبل پنجابی وسیب کیا تھاتو وہ احساس کمتری کا شکار رہیں گے۔ بس 75 سالوں سے اس احساس محرومی کو بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بس اس لیے 29 مارچ کے دن کو یاد رکھنا ہم سب پر لازم ہے۔