دو سال سے بنتے پروگرام کو آخرکار میں نے عملی جامہ پہنا دیا اور والدہ کو لے کر ان کے آبائی قبرستان میں ابدی نیند سوئے بزرگوں کو ملنے چلی گئی۔ لاہور رنگ روڈ سے سیالکوٹ موٹر وے پر لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر مریدکے انٹر چینج سے ہم ماں جی کے گاؤں پہنچ گئے۔ تقریباً سترہ سال کے بعد میں نے دوبارہ ادھر کا رخ کیا تھا۔
گاؤں کے اندر سے گزرتے ہوئے میں نے گاڑی کا رُخ نہر کی جانب موڑ دیا۔ نہر سے متصل سڑک پر گاڑی کھڑی کی اور ماں جی کا ہاتھ تھامے خاندانی قبرستان کی جانب بڑھی۔ قبرستان کا بیرونی دروازہ کھول کر جب ہم چار دیواری میں داخل ہوئیں تو سامنے ایک تنگ سی پگڈنڈی تھی اور اس کے دونوں اطراف کی جگہ خودرو پودوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے بھری پڑی تھی۔ بمشکل خود کو اور اپنے کپڑوں کو بچاتی ہوئیں ہم مقبرے کی جانب بڑھیں جہاں ماں جی کے آباؤاجداد کی قبریں تھیں۔ قبریں خشک پتوں اور گھاس پھوس سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ مقبرے کی حالت بہت شکستہ تھی اور ہر طرف یاس و حسرت کا سماں تھا۔ قبرستان کی گہری خاموشی پیروں کے نیچے آتے خشک پتوں کی آواز سے ٹوٹ گئی۔
ماں جی کے بچپن میں اس مقبرے کے ساتھ لگ بھگ بارہ ایکڑ پر آم، جامن، امرود، لوکاٹ، دیسی سنگترے، مسمی، مالٹے، آلوچے، ناشپاتی اور کجھوروں کے باغ تھے اور ٹوکرے بھر بھر کر گھروں میں پھل آیا کرتا تھا۔ جب بھائیوں میں رقبے تقسیم ہوئے تو باغ بھی کاٹ دئیے گئے۔ اب وہاں پون صدی کی عمر کا ایک آم کا درخت، ایک صدی سے زیادہ عمر کا ایک جامن اور ایک پیپل کا درخت ہے جنہوں نے مقبرے اور چبوترے پر موجود قبروں پر سایہ کیا ہوا ہے۔ آم کے درخت پر جتنے پتے تھے اتنے ہی آم لگے نظر آ رہے تھے۔ آم کے درخت کے پاس ایک نلکا لگا تھا، خاندانی مسجد کا نام و نشان تو مٹ چکا تھا البتہ کنویں کے باقیات موجود تھے۔
راجپوت وارثوں نے مربعے تو بانٹ لئے لیکن ان مالکوں کی قبروں پر دعائے مغفرت کرنے کبھی کبھی آتے ہیں۔ ماں جی قبرستان کی حالت دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں فوراً پیسے نکالے اور ایک مزدور کو قبرستان کی صفائی کا پابند کیا۔ ساتھ گئے بھانجے کی ذمہ داری لگائی کہ وہ کسی ٹھیکیدار سے رقم طے کر کے مقبرے کی مرمت کروائے۔ اس مقبرے اور اس سے متصل باغات کے چپے چپے سے میری ماں جی کے بچپن کی یادیں جُڑی ہوئی ہیں اور وہیں کھڑے کھڑے انھوں نے مجھے کئی واقعات سنا دئیے۔
ماں جی بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ یعنی میری نانی اکثر فجر کے وقت اپنے بچوں اور کام والیوں کے ساتھ مقبرے پر آیا کرتی تھیں۔ نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد وہاں تلاوتِ قرآنِ پاک میں مصروف ہو جاتیں۔ ایسے میں میری ماں جی اپنی بہنوں کے ساتھ مقبرے کے اردگرد لگے موتیے کے پودوں سے ٹوکریاں بھر بھر کر موتیے کے پھول چُنتی تھیں۔ ماں جی کے بچپن میں مقبرے کے پاس میلہ لگا کرتا تھا۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ میلے میں گھومنے، کھانے پینے اور جھولے لینے کے بعد مقبرے سے متصل باغ میں چلی جاتیں تھیں۔ جہاں وہ سب مل کر پھل توڑتیں، گیت گاتیں اور لُڈی ڈالتی تھیں۔
اب میں ان صدیوں پرانے درختوں کی چھاؤں میں شکستہ قبروں کے درمیان کھڑی اپنی ماں جی کو مقبرے کی مرمت اور قبرستان کی صفائی کی ہدایات دیتے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ان کو تو ماں باپ کی وراثت میں سے ایک انچ زمین نہیں ملی لیکن انھیں پھر بھی اپنے بزرگوں کی قبروں کی مٹی تک سے پیار ہے۔ یہاں صدیوں سے والدین بیٹیوں کو اور بھائی بہنوں کو ان کے شرعی حق سے محروم رکھتے آ رہے ہیں۔ اپنا شرعی اور قانونی حصّہ غصب ہونے کے باوجود بیٹیاں ماں باپ اور بھائیوں سے محبت کرتی ہیں اور اکثر حصّہ مانگنے کی صورت میں ان کو میکے سے قطع تعلقی کی دھمکی ملتی ہے جس پر وہ خاموشی سے اپنے حصّے سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...