زرگزشت جوبقول مشتاق احمدیوسفیؔ ان کی’سوانح نوعمری‘ہے، کےایک باب میں ان کے دوست فاروقی صاحب کا تذکرہ ہے۔ یہیں لگ بھگ دو ڈھائی صفحےیوسفیؔ نےایک چھوٹی سی سندھی اجرک پرباندھےہیں جو فاروقی صاحب کےشیخ کی عنایت تھی جن سےوہ بیعت تھے
اس کثیرالمقاصد تحفےکی منظرکشی میں لفظوں کی رنگ پچکاری ہےکہ چلتی چلی جاتی ہے۔ کہیں اونٹتادودھ لانےکےلیےاینڈوےکاکام دیتی توکہیں بیوی اس کی چنوری بناکرمکھیاں جھلتیں
ایک دفعہ توفاروقی صاحب نےاسی اجرک میں کلدارروپیہ باندھ کےبنوٹ کےایسےہاتھ دکھائےکہ ایک غنڈے کی کنپٹی میں بھمباقاکھل گیا
پھر مشیت ایزدی کی اوٹ سے ایک ٹائیفائیڈ کی موت کا ذکر کہ فاروقی صاحب کی بیوی ان سے رخصت ہوگئیں۔ یہی اجرک پھولوں کی چادر، گلاب جل اور شمامۃ العنبر لے جانے کے کام آئی۔ اسی اجرک کو میت کی کمر میں ڈال کر فاروقی صاحب نے دکھ درد کے ساتھی کو مٹی میں سلادیا۔
شیخ کا یہ تبرک زندگی بھرکے مونس و غمخوار کے کفن کا ہار بنا اور منوں مٹی تلے دفن ہوگیا۔
اپنی زندگی میں شریک حیات کو وداع کرنے کےسانحے سے خو د یوسفؔی صاحب بھی گزرے۔ زندگی کے آخری ایام کسی مونس ، کسی دسراہٹ کے بغیرکیسے گزرے ہوں گے یہ کچھ ان کا دل ہی جانتا ہوگا۔
ادریس فاطمہ، جن کےنام ان کی آدم جی انعام یافتہ کتاب خاکم بدہن کاانتساب ہے، کےگزر جانے کےبعد یوسفیؔ نےانکی زردرنگ کی چادرکومتاع فقیرسمجھ کراوڑھ لیا۔ انہی دنوں دیےگئےایک انٹرویو میں انہوں نےکہاتھا، ’میری بےحد پسندیدہ بسنتی رنگ کی یہ چادرمرحومہ نےبڑے شوق سےاپنے ہاتھ سےاپنےلیےسی تھی۔
آخری دن دمِ وداع یہی چادر اوڑھے ہوئے تھیں۔ رُخسار بھی ہمرنگِ چادر ہوچلے تھے۔ سب نے کہا، یہ چادر بھی فقیر فقراکو دے دلادو۔ سو میں نے سب سے اُتاؤلے باؤلے سوالی، دھجا دھاری بیراگی کو یہ کفنی سونپ دی۔‘
کہیں اوڑھ چدریا سجنی گئی
کوئی کفنی پہنے راہ تکت ہے
صاحبو جس یوسفیؔ کی آبِ زر سے لکھنے کے لائق پھلجھڑیاں تھکے ہاروں کا دل شاد کرتی ہیں اسی کے سوگوار لفظ رنج و الم کی بوند بوند ٹپکاتےپڑھنےوالےکو تھامے زندگی جینے اور جیئے جانے کاراز کھولتے ہیں۔ یوسفیؔ کومحض ایک مزاح نگار کہنا اس کے فن سے زیادتی ہوگی۔ مشتاق احمد لفظوں کا جادوگر ہے۔
زندگی اپنے بھید بھاؤ ان پرکھولتی ہے جواسے جیے جانے کی طرح جیتے اوربرتتے ہیں۔ سکھ کی فصل اوردکھ کی بیگار ایک راضی بہ رضارغبت سے کاٹ لینے والوں پراس کا اسم اعظم دھیرےدھیرے اترتا ہے۔ اورپھر چہرے کوایک بے نیازمسکان عطا ہوتی ہے۔