✒️ “ن۔۔۔۔۔نئیں۔۔۔نئیں۔۔۔! اوں۔۔۔اوں۔۔۔۔! مجھے عیدی کےپورے پیسے چاہیے!” دس سالہ محمد تفہیم الدین یہ کہتا ہوا بس روئے جا رہا تھا۔ ” بیٹا! عیدی کے وہ پیسے سبھی بہن بھائیوں میں تقسیم ہوں گے۔ تم اکیلے وہ پیسے کیسے لے سکتے ہو؟” امی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ “ن۔۔نئیں۔۔۔نئیں۔۔۔ مہمانوں نے وہ پیسے مجھے ہی دیے تھے۔ ایسا نہیں کہا تھا کہ اپنے بہن بھائیوں کو بھی دینا!” وہ بولا۔ ” بیٹا! تم مہمانوں کے سامنے آ جا رہے ہو، اچھی اچھی باتیں کر رہے ہو۔ اس لیے جو مہمان عید ملنے آرہے ہیں وہ تمہیں ہی عیدی دے رہے ہیں۔ تم سب سے چھوٹے ہو نا!” ابو نے کہا۔ ” اسی لیے تو۔۔۔۔! جب سب مجھے ہی عیدی دے رہے ہیں تو وہ میری ہی ہوئی نا!” اس نے پھر کہا۔ اس کے دونوں بہن بھائی بھی وہیں موجود تھے۔ لیکن وہ کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔
“داداجان! دادی جان! آپ ہی سمجھائیے نا امی ابو کو! وہ آپ کی کوئی بات نہیں ٹالتے۔” محمد تفہیم الدین دادادادی کے پاس جا کر بولا۔ ” بیٹے! بہو! دے دو نا سارے جمع پیسے جب وہ مانگ رہا ہے تو۔ بچہ ہی تو ہے! بعد میں سمجھا کر واپس لے لینا!” دادا نے کہا۔ “ابو! میں دے بھی دوں! لیکن آخر یہ اتنے پیسوں کا کرے گا کیا؟” اس کے ابو نے اپنے ابو سے کہا۔ ” بے فضول کے کھلونے اور مٹھائیاں لے کر آئے گا اور کیا کرے گا؟” اس کی امی بولیں۔ ” نئیں۔۔۔نیئں! مجھے ان پیسوں کا بہت کام ہے۔” اس نے اتنی سادگی سے اتنی بڑی بات کہہ دی کہ سبھوں کو ہنسی آگئی۔
” آخر ان پیسوں کا ایسا کون سا کام آن پڑا میرے لاڈلے پوتے کو!؟” داداجان نے اسے بڑے پیار سے گود میں اٹھا کر حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔ ” آپ سب لوگ باتیں کر رہے تھے نا کہ کرونا بیماری کی وجہ سے لاک ڈاؤن لگ گیا تھا۔ غریبوں کو کھانا نہیں مل رہا تھا۔ دوسرے لوگ کھانا بنا بنا کر انہیں بانٹ رہے تھے۔” محمد تفہیم الدین رسان سے بولتا چلا گیا۔ ” توپھر۔۔۔!؟” داداجان نے تجسس سے پوچھا۔ وہ داداجان کی گود سے اتر پڑا اور بولا۔ ” اب اگر لاک ڈاؤن لگا تو میں بھی عیدی کے ان پیسوں سے ڈھیر سارا کھانا بنا کر غریبوں میں بانٹوں گا تاکہ کوئی بھوکا نہ سوئے۔ بہن بھائیوں اور دوستوں کو بھی ساتھ لوں گا۔” وہ ایک عزم سے بولا۔ ” امی! آپ کھانا بنا کر دیں گی نا!؟ اپی۔۔۔بھیا۔۔۔آپ دونوں میرے ساتھ کھانا بانٹنے چلیں گے نا۔۔۔۔؟ ابو! آپ ہمیں جانے دیں گے نا!؟” وہ سبھوں کی طرف باری باری دیکھتا ہوا ہر ایک سے پوچھتا گیا۔
سبھوں پر جیسے سکتہ سا طاری ہو گیا تھا ۔ تھوڑی دیر تک تو کوئی بھی کچھ نہیں بول پایا۔ پھر اچانک اس کے ابو نے لپک کر اسےگود میں اٹھا لیا۔ ان پر جیسے رقت طاری ہونے لگی تھی۔ ” اگر ایسا ہے میرے بیٹے تو ایک ہزار روپے میری طرف سے اور ملیں گے۔” اس کے ابو اسے شاباشی دیتے ہوئے بولے۔ ” میں بھی ایک ہزار روپے دوں گی میرے بچے!” اس کی امی انتہائی پیار بھرے انداز میں بولیں۔ ” میرے بھی ایک ہزار!” دادی جان نے کہا۔ ” اور میں تو پورے پانچ ہزار روپے دوں گا۔ اس بار کی پنشن کا ایک حصہ تمہارا!” داداجان نے کہا۔ ” ہماری عیدی کے پیسے بھی تمہارے ۔” “اور غلک میں جمع پیسے بھی تمہارے۔” بہن بھائی نے کہا۔ “پھر تو میرے پاس ڈھیر سارے پیسے جمع ہو جائیں گے!” محمد تفہیم الدین نے خوشی کے مارے ہاتھوں کے اشارے سے بتایا اور چلاتے ہوئے کہا۔ ” میں اپنے دوستوں کو یہ خوشخبری سنا کر آتا ہوں۔” وہ جانے ہی لگا تھا کہ اس کے ابو نے اسے روکا۔ ” ارے۔۔۔۔ارے۔۔۔!” ” جی ابو!” اس نے رک کر پوچھا۔ ” بیٹا! ماسک تو پہن لو۔” ابو نے کہا۔ ” اوہ! میں تو بھول ہی گیا تھا۔ امی! میرا ماسک؟” وہ امی سے بولا۔ ” اور یہ رہا تمہارا ماسک!” امی اسے ماسک پہناتی ہوئی بولیں۔ وہ خوشی خوشی باہر نکلا اور سب اسے دیکھتے ہی رہ گئے ۔ وہ تو ان کے دلوں میں بس گیا تھا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...