ممتاز نعت گو شاعر ، ادیب ، سفرنامہ نگار اور عظیم رجحان ساز تخلیق کار جناب حافظ لدھیانوی دنیائے حمد و نعت کا وہ آفتاب جہاں تاب جو 7/ جولائی 1920ء کو لدھیانہ ہندوستان میں حافظ محمد عظیم کے گھرطلوع ہوا اور دنیائے حمد ونعت کو اپنی ضیاء پاشیوں سے منور کرنے کے بعد 16/ اکتوبر 1999ء کو فیصل آباد پاکستان میں غروب ہو گیا ۔ریلوے لائن سے ملحقہ گلستان کالونی فیصل آباد کے شہر خاموشاں کی سرزمین نے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ ان کی وفات سے ادب و نعت کا ایک زریں عہد ختم ہوا۔ایک روشن چراغ تھا نہ رہا ۔۔۔۔ان کی وفات سے دنیا حمدونعت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ انھوں نے گزشتہ سات عشروں سے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھی جائیں گی ۔۔ بے لوث محبت ، بے باک صداقت ،انسانی ہمدردی اور خلوص و مروّت کا ایک یادگار عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔ حمد و نعت اور سفر نامہ کی درخشاں روایات کا علم بردارفطین ادیب ہماری بزمِ وفا سے کیااُٹھا کہ وفا کے سب افسانوں سے وابستہ تمام حقائق خیال و خواب بن گئے ۔اس کے سیکڑوں مداح اور ہزاروں عقیدت مند اس یگانہ ٔ روزگار فاضل کی دائمی مفارقت کی خبر سُن کر سکتے کے عالم میں آ گئے تھے ۔
حافظ لدھیانوی کا شمارحریت فکر و عمل کے ان مجاہدوں میں ہوتا تھا جنھوں نے زندگی بھر حرفِ صداقت لکھنا اپنا دستور العمل بنایا۔ ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر سے انھیں شدید نفرت تھی۔ انسانیت کی توہین،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کے مرتکب زمین کے ہر بوجھ پر لعنت بھیجنا اس کا شعار تھا۔اگرچہ وہ اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہے لیکن ان کی عطر بیز یادیں نہاں خانہ دل میں ہمیشہ موجود رہیں گی۔
زمین لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے
انھوں نے اپنے خون جگر سے گلشن ادب کو سیراب کیا ۔جناب حافظ لدھیانوی کا جذبہ ادب نوازی اپنی مثال آپ تھا۔تاریخ ہر دور میں اس عظیم انسان کے نام کی تعظیم کرے گی ۔
حافظ لدھیانوی کا اصل نام سراج الحق تھا۔وہ حافظ قرآن تھے اس وجہ سے “حافظ” تخلص اختیار کیا۔اور حافظ لدھیانوی کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔حافظ لدھیانوی کی خودنوشت “یادوں کے انمول خزانے” میں ان کی پوری زندگی کے حالات و واقعات رقم ہیں۔ اپنی پیدائش اور جائے پیدائش کے متعلق خود نوشت میں لکھتے ہیں۔
“7 جولائی 1920ء میں میرے وجود نے اس دنیا میں پہلا سانس لیا۔ میری پیدائش لدھیانہ میں ہوئی”۔
حافظ لدھیانوی کے والد گرامی محمد عظیم راجپوت (گوت سوپل)خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ حافظ لدھیانوی کے والد بھی حافظ قرآن تھے اور پرائمری سکول میں مدرس تھے ۔اس کے ساتھ وہ لدھیانہ کی جامعہ مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔ان کا شمار لدھیانہ کے جید حفاظ کرام میں ہوتا تھا۔ان کے حافظے کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک ہی رکعت میں کئی کئی سپارے پڑھ جاتے تھے ۔انھیں فارسی شاعری سے بھی خاص شغف تھا۔اور ساتھ اردو شاعری کا بھی شوق رکھتے تھے۔حافظ محمد عظیم شاعری میں “احقر ” تخلص کرتے تھے ۔
حافظ لدھیانوی کے والدین نے پوری زندگی مفلسی اور تنگ دستی میں گزاری لیکن ان کے والد گرامی نے صبر و شکر اور ثابت قدمی سے تمام حالات کا مقابلہ کیا لیکن حرف شکایت کبھی اپنی زبان پر لاتے۔ان کے والد گرامی متقی ،پرہیزگار اور اللہ والے تھے۔اس لیے دور دور سے لوگ ان سے دعا کروانے کے لیے آتے تھے حافظ لدھیانوی ان کے فقرواستغنا کے بارے میں اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں ۔
” میرے والد محترم جید حافظ کلام پاک ہونے کے ساتھ ساتھ اتقا کا پیکر ، پاکیزگی کا مظہر اور خدا رسیدہ بزرگ تھے تمام عمر عبادت و ریاضت اور خشیت الہی میں گزاری۔حلال روزی نے ایمان کو جلاء بخشی۔ فاقہ کشی اور مالی تنگی کے وصف زہد کے ایوان میں شگاف نہ پڑا ۔”
حافظ محمد عظیم بھگوڑا ریاست کپور تھلہ سے 1935ء میں لدھیانہ آگئے اور تقسیم ہند تک لدھیانہ میں ہی مقیم رہے۔ پاک و ہند تقسیم کے بعد پاکستان تشریف لے آئے۔اس ولی اللہ نے 1958ء میں ضلع شیخوپورہ واربرٹن میں وفات پائی۔
شادی اور آل اولاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1943ء میں جب حافظ لدھیانوی بی اے کے طالب علم تھے ان کا نکاح شیخ عبدالرحیم کی بیٹی نسیم اختر سے ہو گیا لیکن رخصتی بی اے کرنے بعد ہوئی ۔ وہ تنتالیس (43) سال حافظ لدھیانوی کے ساتھ رفاقت نبھانے کے بعد 1980ء میں اللّه کو پیاری ہو گئیں ۔بیگم نسیم اختر سے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ۔بیٹوں میں شفیق الرحمٰن ، منیب الرحمٰن،انیس الرحمٰن ،عتیق الرحمٰن اور بیٹیوں میں شہناز بیگم ، شانیہ سکندر ہیں ۔
حصول تعلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
💥حافظ لدھیانوی کو پانچ برس کی عمر میں لدھیانہ کے پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا یہاں انھوں نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔اپنے والد محترم سے عرصہ دو سال میں قرآن مجید حفظ کیا۔ جب قرآن مجید حفظ کیا تب حافظ لدھیانوی کی عمر گیارہ برس تھی۔ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد 1935ء میں یؤیٹنگ کرسچین سکول لدھیانہ میں داخل ہوگئے۔ اس اسکول سے انگریزی تعلیم خاص طور پر حاصل کی۔ یہ سکول تعلیم کے علاوہ کھیل کے میدان میں بھی خاصا مشہور تھا۔ حافظ لدھیانوی فٹ بال اور ہاکی کے یہاں بہت اچھے کھلاڑی رہے ہیں۔فٹبال میں بہترین گول کیپر تھے سالانہ دوڑ میں بھی حصہ لیتے تھے۔ سکول کے زمانے کی کھیلیں حافظ لدھیانوی کے لئے حسین یادگار بن کر رہ گئی تھیں۔
1938ء میں انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اس کے بعد گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخل ہوگئے کالج کے دور میں ساحر لدھیانوی سے تعلقات استوار ہوئے ساحر لدھیانوی یونین کے صدر تھے اور کالج کی دوسری بزم “بزم ادب” کے بلامقابلہ صدر حافظ لدھیانوی منتخب ہوگئے ۔کالج کے زمانے میں ساحر لدھیانوی اور حافظ لدھیانوی دونوں کا زیادہ تر وقت باغیانہ اور انقلابی نظمیں پڑھنے میں گزرتا تھا۔ کالج کی مختلف انجمنوں کے اجلاس میں ان کی نظمیں انقلاب برپا کر دیتی تھیں ۔جس سے آزادی کا سفر جاری رہتا ان کی نظمیں پاکستان اور آزادی کا حصہ ہیں ۔
حافظ لدھیانوی نے 1931ء میں ایف اے کا امتحان پاس کیا ۔مالی حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے لاہور آ گئے ۔لاہور میں ایک سال گزرا ۔ایک سال کے دوران حافظ لدھیانوی کی ملاقات بہت سے نامور شعراء سے ہوئی جن میں قابل ذکر حفیظ جالندھری ،عابد علی عابد ، فیض احمد فیض اور شیخ عبدالقادر شامل ہیں۔ ایک سال ادبی ماحول میں گزارنے کے بعد دوبارہ گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لے لیا۔گورنمنٹ کالج کے طلباء کو غلامی سے نفرت کی اور آزادی کے لیے ہر تحریک کا ساتھ دیتے تھے اس آزادی کی جدوجہد اور پرآشوب حالات میں حافظ لدھیانوی نے 1944ء کو بی اے کا امتحان پاس کر لیا۔
ملازمت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ معاش کے لیے حافظ لدھیانوی نے مختلف شعبوں میں ملازمت کی جو درج ذیل ہیں ۔
💥ایف اے کرنے کے بعد حافظ لدھیانوی ڈپٹی کمشنر لدھیانہ کے دفتر میں ملازم ہوگئے۔یوں عملی زندگی کا آغاز ہوگیا۔ حافظ لدھیانوی آزاد خیال ،آزادی کے متوالے اور باغی طبیعت کے مالک تھے۔وہ یہ ملازمت کی غلامی برداشت نہ کر سکے۔اور یہ نوکری بھی زیادہ دیر نہ چل سکی بس ایک ہفتے کے بعد ہندو سپرنٹینڈنٹ کے رویے سے تنگ آ کر استعفی دے دیا اور ملازمت ختم کر دی ۔ ڈی سی آفس سے مستعفی ہونے کے بعد لاہور آگئے۔لاہور میں عبدالحمید عدم سے ملاقات ہوئی۔ عبدالحمید عدم کی وساطت سے انہی کے دفتر میں شعبہ اکاؤنٹ میں بھرتی ہو گئے۔
بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1945ء میں دہلی میں بطور گارڈ کے عہدے پر بھرتی ہوگئے ان کا تقرر سندھ میں ہوا اور 135 روپے تنخواہ مقرر ہوئی تھی۔ گارڈ کی یہ ملازمت بہت دشوار تھی اس لیے اسے بھی جلد خیرباد کہہ دیا۔حافظ لدھیانوی تقسیم ہند سے پہلے محکمہ خوراک میں انسپکٹر کے فرائض سر انجام دیتے رہے اس ملازمت میں حرام مال بنانے کے مواقع بہت زیادہ تھے انھیں حرام مال کمانے کی ترغیب بھی دی گئی لیکن حافظ لدھیانوی نے حرام کمائی کو ترجیح دینے کے بجائے حلال روزی کو ترجیح دی ۔یہ حافظ لدھیانوی کی دینی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا ۔تقسیم ہند کے وقت حافظ لدھیانوی محکمہ خوراک میں ملازم رہے تھے ۔تقسیم ہند کے بعد پھر سے محکمہ خوراک میں انکوائری آفیسر بھرتی ہوگئے لیکن یہاں بھی افسر اعلی سے اختلاف ہوگیا اور یہ نوکری بھی چھوڑ دی اس کے بعد 1951ء میں ایئر فورس میں اسسٹنٹ سائیکالوجسٹ بھرتی ہو گئے ۔ڈھاکہ میں تین ماہ ملازمت کرنے کے بعد چھوڑ دی یوں اس ملازمت کا بھی خاتمہ ہوگیا ۔6 ماہ بے کار رہنے کے بعد آرمی میں آرڈینینس ڈپو میں کلرک کی نوکری مل گئی مگر یہ نوکری فوجی ڈسپلین ،طبیعت اور مزاج کے مطابق نہ تھی ۔جلدی یہ نوکری چھوڑ دی پھر انہیں انکم ٹیکس کے محکمے میں جگہ مل گئی۔انکم ٹیکس کے محکمہ میں بطور کلرک چند ماہ نوکری کی۔اس نوکری کے بعد حافظ لدھیانوی کو محکمہ قومی بچت میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی نوکری مل گئی ۔وہ یہ ملازمت تیس سال کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔اس ملازمت کے دوران حافظ لدھیانوی پاکستان کے مختلف شہروں ملتان، لاہور ، سرگودھا ،راولپنڈی، میانوالی ،ڈیرہ غازی خان اور کوہاٹ میں فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں لیکن ملازمت کا زیادہ عرصہ فیصل آباد میں گزارا ۔حافظ لدھیانوی نے محکمہ قومی بچت سے 1980ء میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر ریٹائرمنٹ لی ۔انھوں نے دوران ملازمت بہت کٹھن راستوں اور مشکلات کا سامنا کیا لیکن کبھی دیانتداری اور صداقت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
شاعری کا آغاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانہ طالب علمی سے ہی حافظ لدھیانوی کو شعراء معتقدین کے سینکڑوں اشعار ازبر تھے ۔ان کا حافظہ غیر معمولی تھا جس کی وجہ سے وہ بیت بازی کے مقابلوں میں ناقابل شکست رہتے تھے انہوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 1938ء میں کیا اور لدھیانہ کے مشہور شاعر اکرم یوسفی سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ابتدائی محرکات میں لدھیانہ کا عظیم الیشان مشاعرہ یاد گار ٹھہرا ۔ انھوں نے اپنے دوست حافظ انصر سے ” طرح مصرع ” پر غزل لکھوائی اور اس عظیم الشان مشاعرے میں پڑھی ۔اسی مشاعرے میں ان کا اسٹیج پر جانے کا یہ پہلا موقع تھا اس کے بعد حافظ لدھیانوی شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوگئے ۔حافظ لدھیانوی آغاز شاعری سے ہی موزوں شعر کہتے تھے “یادوں کے انمول خزانے” میں لکھتے ہیں ۔
“ایک عجیب بات تھی کہ میں نے آغاز شاعری میں کبھی بے وزن شعر نہیں کہا ۔کثرت مطالعہ سے نغمہ روح کا حصہ بن چکا تھا۔”
حافظ لدھیانوی کو پورے ہندوستان سے مشاعروں کے دعوت نامے آنے لگے ۔ادبی جرائد میں ان کا کلام شائع ہونا شروع ہوگیا۔ یوں حافظ لدھیانوی کا نام اس زمانہ کے مشہور شعراء میں آنے لگا۔ان کو زمانہ طالب علمی میں ہی ان کے استاد نے قادرالکلام شاعر ہونے کی پیش گوئی کر دی تھی ۔لدھیانا میں ادبی ماحول میسر آنے کے بعد لاہور میں جب ملازم تھے تو مشاعروں پر جانے کے اور زیادہ مواقع ملے۔لاہورکے مشاعروں میں یہاں کی ممتاز ادبی شخصیات شرکت کرتیں جن میں فیض احمد فیض ،حفیظ جالندھری ،عابد علی عابد، احسان دانش، ناصر کاظمی ، صوفی غلام مصطفی تبسم وغیرہ ان مشاعروں کو چار چاند لگا دیتے تھے۔
لاہور کے ایک مشاعرے میں حافظ لدھیانوی کی غزل کو بہت زیادہ سراہا گیا جس کے دو چار شعر درج ذیل ہیں ۔
یہ الگ بات ہے اپنے جی کی تھی
بات تو ویسے بے رخی کی تھی
ہم اسیر قفس نہیں بھولے
ہم نے گلشن میں زندگی کی تھی
وہ ستم آج یاد آتے ہیں
وہ بھی اک شکل دوستی کی تھی
جیسے گلشن میں پھول کھلتے ہیں
ہائے کیا بات برہمی کی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ لدھیانوی کے غزل یہ مجموعہ “خامہ مژگاں”کے دیباچے میں فیض احمد فیض نے اس غزل کے ایک شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے۔
“سینکڑوں انسانوں کو سرسری طور پر بیان کرنے کے لیے قلم میں سہولت اظہار بھی چاہیے اور کیسہ دل میں سخن ہائے گفتنی کا ذخیرہ بھی۔۔
حافظ لدھیانوی کے ادبی اور شعری ذوق کو پروان چڑھانے میں شہر لاہور کے مشاعروں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ لاہور میں قیام کے دوران بے شمار مشاعروں میں شرکت کی۔ حافظ لدھیانوی کی پوری زندگی مشاعروں میں شرکت اور شعراء سے میل جول میں گزری۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں مزید نکھار آتا گیا ۔ حافظ لدھیانوی غزل کی دنیا سے نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حسین وادی گل میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے لگ گئے۔
غزل سے سفر شروع ہونے والا وادی نعت میں جا پہنچا اور پھر بلندیوں کو چھونے لگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت کا صدقہ تھا کہ حافظ لدھیانوی بلند پایہ نعت گو شاعر بن گئے۔ اور ان کے قلم سے کل 26 نعتیہ مجموعے منظر عام پر آئے۔نعت پر کثیر المقدار کلام لکھنے کے علاوہ تین حمدیہ مجموعے، تین سفر نامے ، شخصی خاکے اور ایک خودنوشت اردو ادب میں یادگار چھوڑی ہیں۔
وہ اپنی ذات میں ان تمام اصناف کا خوبصورت امتزاج رکھتے تھے۔ ان کی ذات اپنے اندر بے پناہ صلاحیتیں اور قابلیتیں رکھتی تھی۔ان کا نام اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا ۔
حافظ لدھیانوی کی تصانیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ لدھیانوی کے احوال و آثار جاننے کا کے بعد ان کی تصانیف پر نگاہ دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حافظ لدھیانوی اپنا عہد اپنے وجود خاکی کے ساتھ لے کر نہیں گئے بلکہ ان کے قلمی نمونوں کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔انھوں نے نہ صرف شاعری کی مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی بلکہ نثر میں بھی ان کی تخلیقی کاوشیں اردو ادب کی تاریخ میں بے مثال حثیت رکھتی ہیں۔
حافظ لدھیانوی نے حمد باری تعالی کی صنف میں تین مجموعے یادگار چھوڑے ہیں۔ حمدیہ مجموعوں میں ۔۔
1- ذوالجلال و الاکرام (1986)
2- سبحان اللہ وبحمدہٖ (1990)
3- سبحان اللہ العظیم (1990)
حافظ لدھیانوی کے حمدیہ کلام کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا رقمطراز ہیں۔
“حافظ لدھیانوی کے تین حمدیہ مجموعے طبع ہوۓ گویا ان کا حمدیہ تخلیقی سرمایا سب سے زیادہ ہے۔””
ان کے حمدیہ مجموعہ “ذوالجلال والاکرام” سے چند اشعار ۔۔۔
ہر لب پہ ہے اس کی حمد و ثناء سبحان اللّه سبحان اللّه
وہ خالق اکبر ہے یکتا سبحان اللہ سبحان اللہ
گلشن میں ہے اس کی زیبائی ،پھولوں میں ہے اس کی رعنائی
ہر رنگ میں ہے وہ جلوہ نما سبحان اللہ سبحان اللہ
کوہسار کی رفعت اس کا علم ہے ، اوج فلک اس کا پرچم
حافظ کے ہے لوحِ دل پر لکھا سبحان اللہ سبحان اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعتیہ مجموعے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ لدھیانوی نعت گو شاعر کی حیثیت سے اردو ادب میں ایک نمایاں اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ان کا پہلا نعتیہ مجموعہ “ثنائے خواجہ” ہے۔انھوں نے کل 26 نعتیہ مجموعے لکھے جو ان کی عقیدت و محبت اور ان کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مبتلا ہونے کا ثبوت ہیں۔حافظ لدھیانوی کی نعت گوئی کے حوالے سے خواجہ محمد ذکریا لکھتے ہیں۔
“حافظ لدھیانوی دور حاضر کے اہم نعت گو شاعر ہیں ان کی لکھی نعتوں میں تاثر کی گہرائی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے غایت درجہ عشق کا نتیجہ ہے۔علاوہ ازیں وہ شاعری کے فن سے بالعموم اور نعت گوئی کے تقاضوں سے بلخصوص آگاہ ہیں۔ اس وجہ سے ان کی لکھی نعتوں میں تاثیر کے ساتھ ساتھ فنی پختگی بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔”
حافظ لدھیانوی کے 26 نعتیہ مجموعوں۔کی تعداد اس طرح ہیں ۔
1-” ثنائے خواجہ”۔۔۔۔(1971)
2-” نشیدی حضوری”۔۔۔۔(1980)
3- “نعتیہ قطعات”۔۔۔۔۔۔(1981)
4- کیف مسلسل “۔۔۔۔۔۔۔۔(1981)
5-” سلام بحضور سیدہ خیرالانام” -(س ن )
6- “مطلع فاراں”۔۔۔۔۔۔(1987)
7-” صلی علی النبی”۔۔۔۔(1990)
8-“یا صاحب الجمال”۔۔۔۔۔۔۔(1990
9-” جذب حسان “۔۔۔۔۔۔۔(1991)
10-” تائید جبریل “۔۔۔۔۔۔۔۔(1992)
11-” نعتیہ رعبایات”۔۔۔۔۔۔(1992)
12- “معراج فن”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1994)
13-” آہنگ ثنا”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1995)
14- “نعتیہ مثنویاں”۔۔۔۔۔۔۔(1995)
15َِ- “اعتراف عجز”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1996)
16- “فردوس خیال” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1997)
17-” ممدوح کائنات”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1997)
18- “نغمات مدحت”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1997)
19- “نقوش حرم “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1998)
20- “کیفیات دوام “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1998)
21-“آئینہ کرم”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1998)
22-” حدیث عشق “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1998)
23- “مطلع الفجر “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1998)
24-” مصدر خیر” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1999)
25- امام القبلتین”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1999)
26- “قرآن ناطق “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1999)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکار کے قدموں میں جو وقت گزارا ہے اب اس کا تصور ہی جینے کا سہارا ہے
اس نام کی برکت سے سب کام ہوئے میرے
افتاد پڑی جب بھی آقا کو پکارا ہے فردوس کے جلوے ہیں اس وادی رحمت میں
طیبہ میں جدھر دیکھا پرلطف نظارا ہے
دامان محبت میں ملتا ہے سکون سب کو جو وجہ تسلی ہے ایک نام تمہارا ہے
اس رحمت عالم ہے جس کو بھی ہوئی نسبت
خوش بخت وہ انسان ہے اللّه کا پیارا ہے
عشق شہ والا میں جو اشک محبّت ہیں
حافظ انہیں نعتوں شعروں میں اتارا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*حافظ لدھیانوی کی دیگر تصانیف *
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1- سر گزشت ۔۔۔”یادوں کے انمول خزانے”
“یادوں کے انمول خزانے” حافظ لدھیانوی کی خود نوشت ہے۔جس میں انھوں نے “یادوں کے انمول خزانے” میں کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے ۔ماضی انمول خزانہ ہوتا ہے اور پھر ایسا ماضی جو اپنے اندر علمی ، ادبی اور دینی خزانہ لیے ہو،اگر اس خزانہ کو صفحہ قرطاس پر منتقل کردیا جائے تو یقینا اس کا حق ادا ہوجاتا ہے ۔۔”یادوں کے انمول خزانے” میں حافظ لدھیانوی نے اپنے والدین ،ذاتی زندگی اور اس وقت کے معاشرے کے حالات قلم بند کیےہیں۔حافظ لدھیانوی کی ناقابل فراموش تصنیف “یادوں کے انمول خزانے” کو اردو ادب کی تاریخ بھی کہا جا سکتا ہے اور تخلیق پاکستان کی لازوال کہانی بھی۔۔ادوار کے تغیر و تبدل کی عکاس بھی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کی معروف شخصیت کی خوبصورت داستان حیات بھی ۔۔یہ وہ خود نوشت ہے جس کی مقبولیت کا جھنڈا ہر سو لہراتا ہوا نظر آتا ہے۔بلاشبہ حافظ لدھیانوی کی خود نوشت “یادوں کے انمول خزانے” اردو زبان کی عظیم اور یادگار خودنوشت ہے جس پر اہل فن و ادب کو صد افتخار ہے۔”۔۔۔۔۔یہ خود نوشت 351 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کو جنگ پبلشرز لاہور نے شائع کیا ہے۔یہ کتاب ان کی زندگی کے واقعات ،حصول ملازمت ،ذریعہ معاش اور ہم عصر شعراء کے چھوٹے چھوٹے خاکوں پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ تقسیم ہند اور ہجرت کے واقعات کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔۔
حافظ لدھیانوی کے سفر نامے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ لدھیانوی نے تین سفر نامے تحریر کیے ہیں۔ تینوں سفرناموں میں حج بیت اللہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کی عقیدت و محبّت سے لبریز روداد کو خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔۔
1- “جمال حرمین”۔۔۔۔(سفر نامہ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال حرمین کو ایمان افروز سفرناموں میں نمایاں مقام حاصل ہے ۔یہ سفرنامہ 440 صفحات پر مشتمل ہے ۔اس میں حافظ لدھیانوی نے سفر حج کے پاکیزہ مشاہدات و احساسات رقم کئے ہیں۔ حج کے بارے میں مفید معلومات کو پیش کیا گیا ہے ۔جمال حرمین کے دیباچے میں حافظ محمد افضل فقیر لکھتے ہیں۔
” جمال حرمین” کا ہر جملہ اور ہر سطر ذوق اور سوزوگداز سے لبریز ہے۔ وہ ذوق و شوق جس کا مصدر حریم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور سوزوگداز کا سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے روح کی وابستگی ہے۔”
2- “منزل سعادت “۔۔۔۔۔۔۔(سفر نامہ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ لدھیانوی کا خوبصورت نثر میں دوسرا سفر نامہ ” منزل سعادت” کی دوسری اشاعت 1996ء میں ہوئی۔۔ “جمال الحرمین “کے بعد دوسری دفعہ حج اور عمرے کا شرف حاصل کیا تو اپنے قلبی واردات اور تاثرات کو “منزل سعادت” میں بیان کیا ہے۔۔”منزل سعادت” میں انھوں نے اختصار سے اپنے احوال سفر اور واقعات کو دلچسپ بنا کر پیش کیا ہے اس سفرنامہ کی خوبی یہ ہے کہ قارئین خود اس ارض مقدس پر اپنے ہونے کا احساس کرنے لگتے ہیں ۔۔
3- “معراج سفر ” ۔۔۔۔۔۔(منظوم سفرنامہ حج)
حافظ لدھیانوی کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ انھوں نے ایک سفر نامہ حج منظوم بھی لکھا ہے ۔”معراج سفر” ان کا منظوم سفر نامہ حجاز ہے ۔سفر نامہ حج 168 صفحات پر مشتمل ہے۔حافظ لدھیانوی نے اپنے سفر کی معراج کے ساتھ ساتھ دنیا اردو ادب کے اس فن کو جلا بخشی کہ انھوں نے مثنوی کی صورت میں نہایت عمدہ انداز میں اپنی داستان سفر کو بیان کیا ہے ۔
” معراج سفر” میں منظوم سفر نامہ حجاز( ایک تاثر) میں احمد ندیم قاسمی رقمطراز ہیں ۔
“حافظ لدھیانوی کے اس سفر نامے کی یہ خصوصیت منفرد ہے کہ اسے اتنی روانی ، سلاست ، سچائی اور دانائی سے منظوم کیا گیا ہے کہ اس کے دو ہی سبب ذہن میں آتے ہیں ۔ اول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شاعر کا عشق اور دوم شاعر کی کہنہ مشقی اور قادرالکلامی۔”
“معراج سفر” میں سفر کے آغاز سے پہلے “نغمات عشق” کے نام سے ایک طویل مثنوی تحریر ہے۔جس کا ہر شعر لفظ عشق سے شروع ہوتا ہے۔ یہ مثنوی 200 اشعار پر مبنی ہے۔ مثنوی ‘نغمات عشق “کے حوالے سے “معراج سفر” کے دیباچہ نگار احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں ۔
“سفر نامہ حجاز کے شروع میں حافظ لدھیانوی نے مثنوی “نغمات عشق” بھی شامل کر دی ہے۔سفر نامے میں اس مثنوی کی شمولیت قطعی جائز ہے کیونکہ اس کے ہر شعر کا موضوع عشق ہے۔ہر مسئلے کا آغاز ہی عشق سے ہوتا ہے۔”
مثنوی “نغمات عشق” جو نعتیہ اشعار پر مشتمل ہے۔ جس میں عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور عشق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کے خوبصورت اشعار کو لڑی میں پرو دیا گیا ہے۔ دو سو اشعار پر مبنی مثنوی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔۔
عشق سے کھلتے ہیں اسرار حیات
عشق سے تفسیر شرح حیات
عشق سے گلزار ہے نارحیات
عشق ہے اعتبار ممکنات
عشق سے ہوتی ہے تکمیل حیات
منزل ہستی میں ہے اس سے ثبات
عشق سے ترتیب پاتی ہے حیات
عشق ہے آئینہ قدسی صفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفرنامہ “معراج سفر” سفر عمرہ کی روداد ہے ۔اس سفر میں مصنف کے دو دوست ڈاکٹر ریاض مجید اور حفیظ تائب بھی ہم سفر تھے ۔وہ ان کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں کی دلی آرزو اور خواہش تھی کہ وہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جالیوں کے بوسوں سے اپنے دلوں کو منور کریں ہم رکاب دوستوں کا اشعار میں ذکر کرتے ہیں ۔
ریاض نعت گو کی آرزو تھی
نگاہوں کو یہی ایک جستجو تھی
خداوندا دعائیں بارور ہوں
کے حافظ اور تائب ہمسفر ہوں
یہی تائب کی بھی خواہش رہی
یہی ایک آرزو میں زندگی تھی
رفاقت میں ہو حافظ کے سفر طے
یہی تھی آرزوئے زیست کی لے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف محقق اور نقاد ڈاکٹر شبیر احمد قادری رقمطراز ہیں ۔
” معراج سفر کے شاعر نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر نامے کی بنیاد بنایا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق حاضر کو ہر حوالے سے بیان کرنا چاہتا ہے۔ذات سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی جذبات اور قلبی تعلق شاعر کو حسن عطا کرتا ہے ۔حافظ صاحب نے اظہار مدعا کے لئے جو شعر رقم کیے ہیں وہ ان کی واردات قلب کے آئینہ دار ہیں۔مقامات مقدسہ کی زیارت کے تاثرات بڑے فصیح اور خوبصورت لہجے میں منظوم کیے ہیں ۔”
حافظ لودھیانوی خوش کلام اور خوش گفتار شاعر تھے انھوں نے حمدیہ اور نعتیہ شاعری کو اس طرح ادا کیا ہے کہ کوئی ایک لفظ یا شعر بے ادبی کے زمرے میں نہیں آتا۔ انھوں نے ہر شعر کے لیے ادب کو ملحوظ خاطر رکھا اور محتاط انداز میں احتیاط برتی ہے وہ دن رات اور ہر گھڑی حمدونعت کو صفحہ قرطاس پر اتارنے کے لئے کوشاں رہتے تھے ۔اس ضمن میں “معراج سفر” کے دیباچہ نگار ڈاکٹر ریاض مجید منظوم دیباچہ میں نظم کرتے ہیں۔
رہبر راہ حافظ خوش گو
شاعر خود کلام بخش گفتار
ہر پل آمادہ ثواب و صواب
ہر گھڑی ذکر و فکر پر تیار
صبح و شام آیہ و صایا مست
رات دن حمدونعت میں سرشار
شاعر حمد رب نعت رسول
ورق روح جس کا خلد آثار
ہر اک جذبہ اس کا طیبہ سرشت
اور مدینہ نژاد سب افکار
ہے زبان و بیان شائستہ
اور تہذیب یافتہ اظہار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منظوم سفر نامہ “معراج سفر “میں شاعر جس نے عقیدت اور احساسات کا جگہ ذکر کرتے ہیں وہ عبادت کی لذت سے لطف اندوز ہوتا ہے ان کی مسلسل عبادت اور ذکر الہی میں مشغول رہتی ہے کیونکہ ہر فکر اور شعر عبادت ہی میں شمار ہوتا ہے۔شاعر کی اس کیفیت کے بارے میں احمد ندیم قاسمی رقمطراز ہیں ۔
” اس مبارک سفر کے دوران حافظ صاحب جس کیفیت کا بار بار ذکر کرتے ہیں وہ عبادت کی لذت اور عبادت کی کیفیت کا نام ہے ۔عبادت کو ان معنوں میں کم سمجھا اور محسوس کیا گیا ہے۔ عبادت میں لذت وہی محسوس کر سکتے ہیں جن کے وجود باری تعالی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے مستیز ہو چکے ہوتے ہیں”۔
“سفر معراج” کا مصنف حافظ لدھیانوی صاحب بصیرت فنکار ہیں۔انہیں بہر طور اپنا فن عزیز از جان ہےوہ اس میں شب و روز ڈوب کا لعل و جواہر تلاش کرنا باعث سعادت سمجھتے ہیں ‘۔ حافظ لدھیانوی کی قادرالکلامی اور قادر القلبی محتاج تعارف نہیں ہے۔ وہ مسلمہ طور پر صاحب شاعر قرار دیے جا چکے ہیں۔ حافظ لدھیانوی دنیائے شعر و سخن کی ایک ایسی شخصیت ہیں جو برصغیر پاک و ہند میں یکساں مقبولیت کی حامل ہے ۔اس نامور سخن گر نے ابتدا غزل گوئی سے کی اور غزل کے فن کو معراج بخشا۔غزل گوئی کے بعد انھوں نے نعت لکھنا شروع کر دی اور پھر غزل کی طرف پلٹ کر نہ دیکھا۔اس کے بعد انھوں نے حمدیہ شاعری اور منظوم سفر نامہ ” سفر معراج ” میں اپنے کمال فن کی بدولت مشاہدات و کیفیات کو نظم کر کے اردو ادب کو مالا مال کر دیا ہے ۔
حافظ لدھیانوی کی خاکہ نگاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1-“متاع گم گشتہ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“متاع گم گشتہ “حافظ لدھیانوی کے خاکوں کا پہلا مجموعہ ہے۔حافظ لدھیانوی متاۓ گم گشتہ میں ایسے پیرایہ کا استعمال کرتے ہیں کہ جس شخص کا خاکہ بیان کر رہے ہوتے ہیں اس کی پوری شخصیت ہماری آنکھوں کے سامنے عیاں ہوجاتی ہے۔گویا حافظ لدھیانوی خاکہ نگاری کے فن اوراس کی تمام خوبیوں سے خوب واقف تھے۔اس میں جن معروف شخصیات کے خاکے بیان کیے گئے ہیں ان میں حفیظ جالندھری ،جگر مراد آبادی، احسان دانش ، عبدالحمیدعدم ، اور ساحر لدھیانوی جیسے شاعر شامل ہیں۔”متاع گم گشتہ” نے اردو ادب میں خاکہ نگاری کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
2- “متاع بے بہا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“متاع بے بہا ” حافظ لدھیانوی کا دوسرا شخصی خاکوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ اس میں دس برگزیدہ احباب کے بارے میں تاثرات شامل ہیں ۔
3- “متاع عزیز”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی حافظ لدھیانوی کے شخصی خاکوں کا ایک حسین مرقع ہے۔ خاکہ نگاری کے لیے خاکہ نگار کا وسیع معلومات کا حامل ہونا اور وسیع القلب ہونا ضروری ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں” متاع عزیز ” سے بخوبی معلوم ہوتا ہے۔
خواجہ محمد زکریا حافظ لدھیانوی کے حقوق کے متعلق رقمطراز ہیں۔
” حافظ لدھیانوی کے خاکوں کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ جس شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں اس کے شایان شان انداز تحریر اختیار کرتے ہیں۔”
“رنگ تغزل ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ حافظ لدھیانوی کا بنیادی حوالہ ان کی نعت گوئی ہے’ تاہم انھوں نے اردو میں غزلیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی غزلیات کا ایک مجموعہ ارباب علم و ادب سے داد و تحسین حاصل کر چکا ہے۔
“خامہ مژگاں”۔۔۔۔۔۔(غزل مجموعہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“خامہ مژگاں ” حافظ لدھیانوی کا پہلا اور آخری غزلیہ مجموعہ ہے۔انھوں نے بحیثیت غزل گو شاعر دنیائے ادب میں قدم رکھا غزل میں وہ ایک قدآور شاعر کے طور پر پہچانے گئے۔حافظ لدھیانوی غزل کے فکری اور فنی لوازمات پر عبور رکھتے تھے۔
حافظ لدھیانوی کے اشعار میں منفرد اسلوب اور سادہ انداز بیان نظر آتا ہے جو ان کی فنی عظمت ، دلی خلوص اور فکری بالیدگی کا غماز ہے ۔ان کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ ہو ۔
بات کرنے کی ادا ہوتی ہے
نکہت گل میں صدا ہوتی ہے
دیگر کتب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدیہ ،نعتیہ ، سفرناموں اور شخصی خاکوں کے علاوہ دیگر شعری مجموعے بھی ہیں جن میں ” ہمہ رنگ ” کے نام سے مختلف نظموں کا مجموعہ ہے جو 1996ء میں شائع ہوا تھا۔اس میں مختلف موضوعات پر اور قومی دنوں پر لکھی گئی نظمیں شامل ہیں ۔ حافظ لدھیانوی کا ایک مجموعہ “جگر لخت لخت” ہے۔ جو 1995ء میں شائع ہوا۔ اس میں متفرق اشعار کا خوبصورت ذخیرہ ہے۔جو ادبی ذوق رکھنے والوں کی تسکین کا سامان لئے ہوئے ہے ۔اس کے علاوہ “خاتم الانبیاء کے حضور ہدیہ اشعار ” جو 1996ء میں شائع ہوا اور ” مصطفی صادق کی روداد سفر حجاز کی منظوم ترجمانی ” بھی 1996ء میں شائع ہوا ۔ حافظ لدھیانوی کی کل 43 تصانیف ہیں ۔تصانیف کا اتنا بڑا ذخیرہ اردو ادب اور ادب کے چاہنے والوں پر بہت بڑا احسان ہے ۔جب تک اردو ادب اور ادب کو پڑھنے والے قارئین موجود ہیں حافظ لدھیانوی کا نام زندہ و تابندہ رہے گا۔
حافظ لدھیانوی کا حمدیہ کلام ملاحظہ ہو ۔
حمد باری تعالیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائے کلام کرتا ہوں
دم تری بندگی کا بھرتا ہوں
جب تری حمد کان پڑتی ہے
دلِ مردہ میں جان پڑتی ہے
صبح کا نور ہے کتاب تری
حمد کرتا ہے آفتاب تری
رات دِن کے ورق اُلٹتا ہے
لطف تیرے سے وقت کٹتا ہے
کوہساروں کو تو نے چمکایا
برف کا تاج اُن کو پہنایا
چاندنی تیرے گیت گاتی ہے
نغمہء حمد گنگناتی ہے
دھڑکنوں میں ہے نعرہء حق ہُو
تیری قدرت کے ہیں نشاں ہر سُو
کائنات آئنہ جمال کا ہے
نقش ہر اِک ترے کمال کا ہے
اشکِ غم کی ہے آبرو تجھ سے
شاخِ اُمید میں نمو تجھ سے
تیری رحمت پہ ہے نظر سب کی
تجھ کو ہر آن ہے خبر سب کی
سب خزانوں کا مالک و مختار
ذرّے ذرّے میں ہیں ترے انوار
ہر جگہ تیری حکمرانی ہے
تو ہے باقی، جہان فانی ہے
فکر کو بخش دی جِلا تو نے
ذوقِ مدحت عطا کیا تو نے
ہر عمل ہو تری رضا کے لیے
میرے افکار ہوں ثنا کے لیے
نعتِ سرکار سے ہو جاں روشن
ذکر سے جس کے ہے جہاں روشن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجموعہ کلام: کیفِ مسلسل
پبلشر: بیت الادب، فیصل آباد
طابع: پاکستان آرٹ پریس، فیصل آباد
سنِ اشاعت: اکتوبر ۱۹۸۲ء
ان کا نعتیہ کلام ملاحظہ ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیاں ہو کس طرح شان رسالت
تجھے حاصل ہے نبیوں پر فضیلت
ہے تو ہی آخری رہبر جہاں کا
ہوئی ہے تجھ پہ تکمیل۔ نبوت
مکمل ہو گیا دین تجھ پر
کیا اللہ نے اتمام نعمت
جہاں میں کوئی بھی تجھ سا نہیں ہے
تیری ہی ذات ہے شہکار قدرت
ہر اک منظرمیں تجھ سے دلکشی ہے
ہوا ہے تجھ سے روشن روئے فطرت
خدا کے بعد تو سب سے افضل
ہر ایک دل پر ہے تیری ہی حکومت
بیت اللہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کی سعادت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی جن لوگوں پر اپنا خاص فضل و کرم فرماتے ہیں انہیں اپنے گھر میں حاضری کا شرف بھی عطا کرتے رہتے ہیں ۔حافظ لدھیانوی ان خوش بخت لوگوں میں سے ہیں جو بار بار اس سعادت سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔۔حافظ لدھیانوی نے کم و بیش 13 مرتبہ حج بیت اللّه اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری کی سعادت حاصل کی۔حافظ لدھیانوی پہلی دفعہ حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد تقریبا ہر سال عمرہ کے لئے جاتے اور حرمین شریفین کی پر نور فضاؤں سے اپنے دل کو منور کرتے رہتے ۔حافظ جانویک و مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اعتکاف کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔۔ ان کے بیٹے انیس الرحمٰن کے بتانے کے مطابق کہ ان کے والد گرامی حافظ لودھیانوی نے اپنی پوری زندگی میں 54 سال نماز تراویح پڑھائی ہے جو کہ ایک بہت بڑی سعادت ہے ۔
احافظ لدھیانوی کے اعزاز میں تقریبات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ لدھیانوی کی پہلی برسی 16 اکتوبر 2000ء کو ضلع کونسل ہال فیصل آباد میں بڑے تزک و احتشام سے منائی گئی۔اس موقع پر حافظ لدھیانوی اکادمی کا اعلان کیا گیا۔ اکادمی کا مقصد حافظ لدھیانوی کے مشن کی تکمیل کے لیے کام کرنا تھا۔ “خوشبو کی ہجرت “جس کو ڈاکٹر شبیر احمد قادری اور ان کے بیٹے انیس الرحمن نے مل کر مرتب کیا تھا ۔جس میں ممتاز ارباب فکر و دانش کی مختصر اور طویل آراء کو شامل کیا گیا تھا۔یو یہ کتاب شاہ حافظ لدھیانوی کے سلسلہ مطبوعات کی پہلی کڑی کے طور پر پیش کیا گیا مگر بعد میں اس سلسلہ کو جاری رکھا جا سکا اور اس طرح حافظ لدھیانوی اکادمی اعلان اور نام تک محدود ہو کر رہ گئی ۔حافظ لدھیانوی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے انیس الرحمٰن ان کی برسی کے موقع پر ایک تقریب کا انعقاد کرتے ہیں جس میں شہر کے معروف اہل قلم اور دانشور اس عظیم شاعر حافظ لدھیانوی کے فکر و فن پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔۔۔علاوہ ازیں انیس الرحمٰن اپنے والد گرامی کی سالگرہ کے حوالے سے بھی باقاعدہ سالگرہ کا کیک کاٹ کر ان کی سالگرہ کو تزک و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں ۔جس میں اہل قلم ،شعرا و ادبا کی ایک کثیر تعداد شامل ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں ان کے بیٹے محترم انیس الرحمٰن کی خدمات لائق تحسین و صد آفرین ہیں ۔
معاشرتی زندگی میں بے لوث محبت ، بے باک صداقت ، خلوص ، درد مندی اور تعاون و اشتراک عمل سدا ان کا دستور العمل رہا۔الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلاف تھا۔ہزار خوف میں بھی ان کی زبان ان کے دل کا ساتھ دیتی اور جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے اُنھوں نے حریت فکر کا علم بلند رکھا ۔وہ خوف اور مصلحت سے ناآشنا تھے اس لیے وقت کے کسی فرعون یا نمرود کے سامنے سپر انداز ہونے سے انھوں نے ہمیشہ انکار کیا ۔وہ آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑنے کو جذبہء عشق کے لیے نا گزیر سمجھتے تھے۔ وہ زندگی کو جوئے شِیر و تیشہ و سنگِ گراں خیال کرتے تھے اور اس بات کی نصیحت کرتے کہ سعیء پیہم کے بغیر کسی جوہر کا کھلنا ممکن ہی نہیں ۔فرہاد کی کٹیا میں اُمید کی کرن شرر ِ تیشہ کی مر ہونِ منت ہے ۔ان کا خیال تھا کہ زندگی میں توازن اور اعتدال کو ہر حال میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔زندگی کے معمولات اور جملہ دلچسپیاں اگر اعتدال اور توازن کی حدود میں رہیں تو زندگی کی رعنائیاں برقرار رہتی ہیں اگر ہوا و ہوس میں حدسے گزر جائیں تو زندگی کے بے ہنگم ارتعاشات اور بد وضع کجیاں افراد کے لیے شرمندگی کا باعث بن جاتی ہیں۔ اپنے ہاتھوں اپنی تخریب کے ایسے مہلک اقدامات ایک دردِ لا دوا بن جاتے ہیں،جس کا مداوا ممکن ہی نہیں۔
خوش اخلاقی کو وہ ایک بہت بڑی نیکی اور صدقہء جاریہ سمجھتے تھے۔ حافظ لدھیانوی سب سے اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک روا رکھتے تھے ۔ حُسنِ سلوک کو ایک ایسی نیکی سے تعبیر کرتے تھے جو بہارِ بے خزاں کے مانند ہے ۔وہ اس بات پر اصرار کرتے کہ خوش اخلاقی کی مثال ایک ایسے سدا بہار گُلِ تر کی ہے جسے خزاں کی مسموم ہوا سے کوئی خطرہ نہیں۔اس کی عطر بیزی سے قریہء جاں مہک اُٹھتا ہے اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ خوش اخلاقی کے لیے کسی تپسیا یا دولت وثروت کی احتیاج نہیں بل کہ خلوص اور دردمندی پر مبنی رویہ خوش اخلاقی کے جذبات کو مہمیز کرتا ہے۔اسی کے اعجاز سے دلوں کو مرکزِ مہر وفا کیا جا سکتا ہے اور خوش اخلاقی کے اعجاز سے قلب و نظر کو مسخر کیا جا سکتا ہے۔ اپنی عملی زندگی میں جو بھی شخص خوش اخلاقی کو شعار بناتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاقی اس کی فطرت ِ ثانیہ بن جاتی ہے اور اس کے معجز نما اثر سے انسانی شخصیت میں شگفتگی اور نکھار کی مسحور کن کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔خوش اخلاق انسان ایک چاند کی صورت میں روشنی کا سفر جاری رکھتا ہے جس کی تابانیاں کبھی ماند نہیں پڑ سکتیں۔ حافظ لدھیانوی کی زندگی کے متعدد داخلی تجربات ، نفسیاتی کیفیات اور روحانی تاثرات ان کی تحریروں میں رچ بس گئے تھے۔توحید ،قرآن حکیم،رسالت اور درودِ پاک جیسے اہم روحانی اور پاکیزہ موضوعات پر ان کے فکر پرور اور خیال افروز مضامین قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتے اور ان کے مطالعہ سے فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے۔جہاں تک خارجی حالات کا تعلق ہے اُنھوں نے زندگی کے مشاہدات اور تجربات،معاشرے کو درپیش مسائل و مضمرات اور سماجی برائیوں پر کُھل کر لکھا۔اپنے گرد و نواح کے حالات ،زندگی کے ارتعاشات اور ماحول سے اُنھوں نے جو اثرات قبول کیے اُنھیں بلا کم و کاست زیبِ قرطاس کیا ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ داخلی زندگی میں تو خلوت نشینی کے قائل تھے لیکن خارجی معاملات میں وہ محفلوں کے انعقاد اور انجمن آرائی کے دلدادہ تھے۔ سیرت کا نفرنسوں،ادبی نشستوں ،علم و ادب کی نشستوں ،سیمینارز اور محافل میں شرکت کے لیے وہ ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔علم و ادب کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت انھیں ان تقریبات میں کشاں کشاں لے جاتی تھی۔ اُن کی موجودگی سے ہر محفل کشتِ زعفران بن جاتی ۔ان کے بغیر یہ محفلیں سُونی سُونی دکھائی دیتی تھیں ۔
جناب حافظ لدھیانوی آٹھ عشروں سے زیادہ عرصے تک اُفقِ علم و ادب پر مثلِ آفتاب ضوفشاں رہے۔اُن کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکنافِ علم و ادب کا گوشہ گوشہ بقعہء نور ہو گیا۔موت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن موت میں اتنا دم خم کہاں کہ ایسی ہفت اختر شخصیات کے اشہبِ قلم کی جولانیوں،تصنیف و تالیف کے شعبے کی کامرانیوں اور اصلاحی و فلاحی خدمات کی تابانیوں کو ماند کر سکے۔ حافظ لدھیانوی نے بے لوث خدمت ،اصلاح ِ معاشرہ اور قومی تعمیر و ترقی کو ہمیشہ اولیت دی اور اپنی تحریروں میں ان موضوعات پر مدلل انداز میں روشنی ڈالی۔ اردو حمد و نعت کو انھوں نے اپنے عالمانہ انداز سے مالا مال کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی حمد و نعت میں کامرانیوں نے جریدہء عالم پر اُن کا دوام ثبت کر دیا۔ جب تک دنیا باقی ہے’ مقصدیت سے لبریز ان کا تخلیقی کام اندھیروں کی دسترس سے دُور روشنی کے مانند سرگرمِ سفر رہے گا۔ حافظ لدھیانوی نے اپنی تخلیقی فعالیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اصلاح اور مقصدیت کی جو شمع فروزاں کی وہ ہمیشہ ضوفشاں رہے گی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی تابانیوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ہر دور کے علم و ادب میں ان کی تعمیری سوچ کے آثار ملیں گے۔ حافظ لدھیانوی نے پُورے خلوص سے قومی استحکام اور ملی وحدت کا وہ ساز چھیڑا جس کے معجز نما اثر سے دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے میں مدد ملی۔یہ سوچ کر کلیجہ منہہ کو آتا ہے کہ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس ساز کے تار توڑ دئیے جو گزشتہ آٹھ عشروں سے کانوں میں رس گھول رہا تھا۔وہ ساز خاموش ہوگیا لیکن اس کی صدائے باز گشت تا ابد فضاؤں میں گُونجتی رہے گی۔ اردو زبان و ادب کے اصناف حمد و نعت میں بلخصوص اور سفر نامہ اور خودنوشت میں بلعموم انھوں نے فروغ ادب کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں،ان کا پُوری دنیا میں اعتراف کیا گیا۔ حافظ لدھیانوی کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات کے اعتراف میں انھیں شعبہ نعت میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ حسان حمد و نعت ایوارڈ اور سیرت ادبی ایوارڈ کے اعزازات بھی دیے گئے ۔۔
ان کی وفات کے بعد ادبی محفلوں میں ضوفشاں چراغوں کی روشنی ماند پڑ گئی ہے اور وفا کے سب ہنگامے عنقا ہو گئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اب دنیا میں کہیں ایسا دانش ور دکھائی نہیں دیتا جسے حافظ لدھیانوی جیسا کہا جا سکے ۔ وہ بلاشبہ نابغہء روزگار ادیب ، شاعر ، عدیم النظر سفر نامہ نگار اور نایاب انسان تھے۔ حافظ لدھیانوی کا اسلوب لافانی ہے۔ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔دنیا میں جہاں بھی بزمِ ادب سجے گی وہاں ان کا ذکر ضرور ہو گا اور ہر عہد کے ادب میں ان کے اسلوب کے مثبت اثرات موجود رہیں گے۔ علم و ادب کا یہ خورشید جہاں تاب کبھی غروب نہیں ہو سکتا۔ یہ کسی اور اُفق پر اپنی تابانیاں پھیلا رہا ہو گا۔بلھے شاہ نے سچ کہا تھا ؎
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں’ گور پیا کوئی ہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر شعر غزل کا کہہ رہا ہے
تجھ کو بھی بچھڑ کے دکھ ہوا ہے
ہے شعلۂ جاں میں یاد تیری
کیا آگ میں پھول کھل رہا ہے
خورشید سحر طلوع ہو کر
شبنم کا مزاج پوچھتا ہے
کیا اس کو بتاؤں ہجر کے غم
جس پر مرا حال آئنہ ہے
میں کس سے کہوں فسانۂ غم
ہر ایک کا دل دکھا ہوا ہے
کیوں آ گئی درمیان دنیا
یہ تیرا مرا معاملہ ہے
کیا پاؤ گے بت سے فیض حافظؔ
پتھر بھی کہیں خدا بنا ہے
(حافظ لدھیانوی)