گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اور سب بچے اپنی نانی دادی کے گھر گھومنے گئے ہوئے تھے۔لبیب بھی اپنی نانی کے گھر گیا ہوا تھا۔لبیب کے خالہ ماموں کے بچے بھی وہیں گئے ہوئے تھے۔سب کو خوب مزہ آرہا تھا۔دن بھر کھیل،اودھم کود،بچوں کی محفلیں الگ تو بڑوں کی الگ،رات کو کھانے پر تو سب مرد بھی جمع ہوتے اور خوب رات تک محفلیں چلتیں،کبھی مشاعرہ ہوتا تو کبھی بچے بڑے مل کر کوئی کھیل کھیلتے۔لبیب کو لوڈو اور کیرم بہت پسند تھا اور وہ چاہتا تھا کہ ہر وقت کسی نی کسی کے ساتھ کھیلتا رہے۔لوڈو ہر وقت اس کی بغل میں دبی نظر آتی۔نانی بچوں کو یون ہنستے کھیلتے دیکھتیں تو خوب خوش ہوتیں اور ان سب کی سلامتی مکی دعائیں کرتی رہتیں۔
آج سب بچے پروگرام بنائے بیٹھے تھے کہ رات کو نانی اماں سے کوئی کہانی سننا ہے۔اس لئے سب کھانا کھاتے ہی نانی اماں کے کمرے میں چلے گئے۔لبیب چونکہ سب سے بڑا تھا اور نانی کا لاڈلا بھی تھا اس لیے اس نے نانی اماں کے پاس جاتے ہی اپنے پروگرام کا اعلان کردیا۔
”نانی اماں آج ہم سب کو آپ سے کہانی سننا ہے بتایئے کون سی سنائیں گی؟“لبیب نے لوڈو کی گوٹوں کو نکال کر پھر سے رکھتے ہویے کہا۔
نانی اماں نے لبیب کی بات سن کر اسے مسکرا کر دیکھا اور اسے ٹالنا چاہا۔”بچے کہانی کیوں؟تم سب ایسا کرو کہ یہاں مل کر بیٹھو اور لوڈو کھیلو۔“
: ”نہ نہ ایسا کوئی چکر نہیں ہے۔ہمیں کہانی سننا ہے تو سننا ہے۔“لبیب نے ضد کرتے ہوئے کہا اور اپنے ساتھیوں سے پوچھا۔
نانی اماں سنائیے نا پلیز۔دیکھئے ہمیں آےء ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا اور چار پانچ دن بعد ہم سب چلے جائیں گے اور ابھی تک آپ نے ایک بھی کہانی نہین سنائی۔
”اچھا چھا۔چلو سب بیٹھو،سناتی ہوں۔“
”ہرے ہرے……“
”ہان تو بچو۱ جو کہانی میں سنانے والی ہوں وہ فارسی کی کہانی ہے اور پتہ ہے کہ یہ کہانی میں نے بہت پہلے پڑھی تھی جب میں اسکول جایا کرتی تھی۔“
”اچھا نانی!آپ کو ابھی تک وہ سب یاد ہے؟“بچوں نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں بیٹا!اور یہ کہانی مجھے بہت پسند ہے۔جس کو میں اردو میں سناتی ہوں۔کہانی نا م ’درخت کی گواہی‘ ہے۔بچوں کہانی یہ ہے کہ ایک نیک آدمی تھا۔ایک دن اس کا ایل ملنے والا اس کے پاس آیا اور اپنی کچھ پریشانی بتائی اور اس سے کچھ قرض مانگا۔اس نیک انسان نے اس کی پریشانی سن کر اسے سو اشرفیاں دے دیں۔قرض لینے والا اسے چار ماہ بعد لوٹانے کا کہہ کر چلا گیا۔وقت گزر تا گیا چار ماہ کا وقت گزر گیا لیکن وہ قرض لوٹانے نہیں آیا اور نہ ہی اس نے کچھ اور مہلت مانگی۔اس طرح چھہ ماہ گزر گئے۔ایک دن وہ نیک آدمی اس کے گھر گیا اور اس سے اپنا قرض واپس مانگا تب قرض لینے والے نے اس سے کہا کہ کون سا قرض؟میں نے تو کوئی قرض لیا ہی نہیں ہے۔دونوں میں کافی بحث ہوئی لیکن وہ انکار کرتا رہا۔آخر کار اس نیک آدمی نے کہا کہ اچھا چلو ہم قاضی کے پاس چلتے ہیں۔وہ جو فیصلہ کریں گے وہ ہم دونوں قبول کر لیں گے۔“
بے ایمان شخص اس بات پر راضی ہو گیا اور اگلے دن چلنے پر راضی ہو گیا۔اگلے دن دونوں قاضی صاحب کی عدالت میں پیش ہوئے اور اس نیک شخص نے پورا واقعہ قاضی جی کو سنایا۔قاضی جی نے کہا کہ ٹھیک ہے ابھی فیصلہ ہو جائے گا اس نیک شخص سے پوچھا کہ ”تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟“
‘ “نہیں حضور! کوئی نہیں۔اس وقت مین اپنے کھیتوں میں تھا۔میرے آس پاس کوئی نہیں تھا۔“
قاضی جی نے پوچھا کہ تم نے اشرفیاں کس وقت دیں تھیں اور تم اس وقت کیا کررہے تھے؟“
”حضور میں کھانا کھانے کے لیے درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔“
”اچھا تو جاؤ اس درخت کو یہاں کے کر آؤ۔وہی گواہی دے گا۔“
قاضی جی یہ بات سن کر سب حیران رہ گئے کہ درخت کیسے گواہی دے گا؟
”حضور! درخت کیسے آ سکتا ہے؟اس نیک انسان نے حیران ہو کر پوچھا۔“
”آئے گا۔تم جاؤ اور اس سے کہو کہ قاضی صاحب نے بلایا ہے۔“
وہ نیک آدمی حیران تھا لیکن قاضی جی کا کہنا بھی ماننا تھا اس لیے چل پڑا۔قاضی جی نے اس بے ایمان شخص سے کہا کہ تم یہیں میرے ساتھ درخت کے آنے کا انتطار کرو۔
بے ایمان شخص قاضی جی کی بے وقوفی پر بہت خوش ہوا کہ ”درخت تو آہی نہیں سکتا تو گواہی کیا دے گا۔“
کئی گھنٹے گزر گئے لیکن گواہی دینے کوئی نہیں آیا نہ ہی وہ نیک آدمی واپس آیا۔
تین گھنٹے گزرنے کے بعد اچانک قاضی جی نے اس بے ایمان شخص سے پوچھا کہ
”وہ آدمی درخت تک پہنچ گیا ہوگا؟“
تب اس نے بے ساختہ کہا
”ابھی نہیں۔“
تین گھنٹے اور گزر گئے۔شام ہونے کو تھی کہ وہ نیک آدمی پسینہ میں شرابور تھکا ماندہ قاضی جی کی عدالت میں واپس یا اور رورو کہ کہنے لگا
”حضور میں نے اس درخت سے بہت کہا کہ میرے ساتھ چل تجھے قاضی جی نے گواہی دینے کے لیے بلایا ہے لیکن وہ نہیں آیا۔“
قاضی صاحب مسکرائے اور بولے
”لیکن درخت توآکر گواہی دے بھی گیا۔“
اتنا سننا تھا کہ سب نے حیران ہو لکر ایک دوسرے کو دیکھا کہ
”کب آیا درخت؟“
وہ بے ایمان شخص بھی چونک اٹھا۔
تب قاضی صاحب نے اپنا فیصلہ سنایا کہ
”یہ آدمی سچا ہے اور تم اس کی سو اشرفیاں واپس کرو۔“
لیکن قاضی صاحب درخت کب آیا؟کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی۔ تب قاضی صاحب نے اس بے ایمان شخص سے کہا کہ جب میں نے تم سے پوچھا کہ کیا گواہی کے لیے گیا شخص درخت تک پہنچ گیا ہوگا؟تب تم نے کہا کہ ابھی نہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم اس درخت کو جانتے ہو جہاں یہ گیا تھا۔بس یہی درخت کی گواہی تھی۔
دربار کے سب لوگ قاضی جی کے اس سمجھداری کے فیصلے پر بہت خوش ہوئے اور اس طرح اس نیک انسان کو اس کی اشرفیاں ببھی واپس مل گئیں۔
سب بچے بہت غور سے کہانی سب رہے تھے۔ببنا اعصام تو سنتے سنتے وہیں سو بھی چکا تھا۔
”تو بچو! کیسی لگی کہانی؟ اور کیا سیکھا؟“
نانی نے مسکرا کر سب سے پوچھا۔
”واہ نانی مزہ!آگیا۔“
لبیب نے لوڈو بغل میں دبائی اور خوش ہو کر سب کو دیکھا
”اور نانی یہ سیکھا کہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔یہ ہمیشہ ہمیں شرمندہ کراتا ہے۔“
شاباش میرے بچو! چلو اب بھاگو۔مجھے ابھی نماز بھی پڑھنا ہے۔
”ہپ ہپ ہرے چلو بچو۔“
بچوں کا سردار بنا لبیب شور مچاتا ہوا سب کو لے کر کمرے سے نکل گیا۔🌲🌲🌲🌳🌳🌳🎄🎄🎄🌱🌱🌱
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...