ایک نئے مطالعہ کےمطابق ، جتنے بھی ڈی این اے اور آر این کے بیس base کی اقسام ہیں، وہ سب شہاب ثاقب میں پائی گئی ہیں۔
یہ حالیہ دریافت اس مفروضے میں اپنا وزن بڑھا سکتی ہے کہ زمین پر زندگی کی آغازکی بنیاد دراصل خلا میں پڑی تھی۔ لیکن کچھ سائنسدانوں نے خلاء سے آئے ان شہاب ثاقب کے پتھروں میں زمینی ماحول کی وجہ سے زندگی کی موجودگی کی آلودگی کے امکان کو نوٹ کیا۔
26 اپریل 2022 کو نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، تمام پانچ نیوکلیو بیس جو ڈی این اے اور آر این اے بناتے ہیں اب ان شہاب ثاقب کے نمونوں میں پائے گئے ہیں، جو زمین پر گرے تھے۔
اس کام میں نہ صرف ایڈنائن adenine اور گوانائن guanine کی شناخت کرنے کے لیے حال ہی میں تیار کی گئی تکنیکوں کا استعمال کیا گیا ، جن کی شناخت پہلے کچھ ایسے ہی شہابیوں کے نمونوں میں کی گئی تھی ، بلکہ کچھ مزید ڈی این اے/آر این اے کی اساسی اقسام جیسے سائٹوسین cytosine ، یوریسل uracil اور تھامین thymine کی بھی ان میں شناخت ہوچکی ہے جو اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ زمین پر زندگی کے پیش رو خلاء سے آ سکتے ہیں۔ اور ایک حادثے کے نتیجے میں زمین پر زندگی کا آغاز ہوا۔ .
یہ کام "اس نظریہ کے لیے اضافی مدد فراہم کرتا ہے کہ شہابیوں کے ذریعے زمین پر ان مرکبات کی ترسیل نے ابتدائی زندگی کے لیے جینیاتی افعال کے ظہور میں کردار ادا کیا ہو گا،” ۔ اس مطالعہ کے مصنف ڈینیل گلیون Daniel Glavin ، ناسا کے ماہر فلکیات ہیں ، جنہوں نے ان تین میں سے ایک شہابیوں کو فراہم کیا تھا اور اسکی بنیاد پر اپنی یہ تحقیق پیش کی تھی۔ اس مطالعہ میں استعمال ہونے والےشہابیوں کے بارے میں کیمسٹری ورلڈ کو گلیون بتاتے ہیں اور اپنی تحقیق کے متعلق معلومات اس سے شئیر کرتے ہیں۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا یہ نیوکلیوبیسز ماورائے ارضی حالات میں بن سکتے ہیں، محققین نے انٹرسٹیلر میڈیم میں کچھ فوٹو کیمیکل رد عمل کی نقل کرتے ہوئے لیبارٹری تجربات بھی کیے، گلیون نے اس بارے میں کیمسٹری ورلڈ کو بتایا۔انہوں نے محسوس کیا کہ وہ نیوکلیوبیسز کو ایسے ارتکاز پر بنا سکتے ہیں جیسا کہ وہ ان شہابیوں پر پائے جاتے ہیں، وہ مزید کہتے ہیں، "یہ نیا انکشاف اس چیز کے بارے میں اضافی ثبوت فراہم کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ خلا میں تمام زندگی سے جڑے نیوکلیوبیسز بن سکتے ہیں۔”
"یہ سوچنا بہت عجیب ہے کہ ڈی این اے بنانے والے مالیکیول ،خلا ئی چٹانوں میں پائے جاسکتے ہیں،” ہیلینا بیٹس Helena Bates ، جو کہ لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں زمین پر گرنے والے سیارچوں پر تحقیق کرتی ہیں لیکن وہ اس تحقیقی کام میں شامل نہیں تھیں، انہوں نے میوزیم کی نیوز سائٹ کو یہ بات بتائی۔”اس بات سےیہ پتہ چلتا ہے کہ یہ حیات کو آغاز دینے والے ممکنہ مالیکیول خلاء میں ہر جگہ موجود ہیں، جس کے بہت سے مضمرات اور امکانات ہیں جب ہمارے نظام شمسی کے اندر زندگی کی ممکنہ تقسیم پر غور کرنے کی بات آتی ہے۔”۔ یعنی زمین کے علاوہ بھی کہیں ہمارے ہی نظام شمسی میں زندگی پائی جاسکتی ہے۔
تاہم، بوائس اسٹیٹ یونیورسٹی ، ایڈاہو ، امریکہ کے ایک کاسمو کیمسٹ مائیکل کالہان Michael Callahan جو اس کام میں شامل نہیں تھے، لیکن انہوں نے اس تحقیق کے کچھ مصنفین کے ساتھ تعاون کیا ہے، سائنس نیوز کو بتاتے ہیں کہ ان کے خیال میں اس مطالعے سے اس امکان کو رد نہیں کیا گیا کہ زمین پر پہنچنے کے بعد ان شہابیوں کے آلودہ ہونے کاتھوڑا امکان ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ زمینی مٹی اور دیگر ماحول میں بھی نیوکلیوٹائڈ بیسز موجود ہوسکتے ہیں۔جو ان شہابیوں کے ان نمونوں میں اس وقت شامل ہوسکتے ہیں جب یہ اوپر سے آتے وقت زمین سے تصادم کررہےہوں۔ کالہان کا کہنا ہے کہ "میرے خیال میں ہمارےمحققین نے ان مرکبات کی مثبت شناخت کی ہے۔ لیکن انہوں نے مجھے قائل کرنے کے لیے اتنا زبردست ڈیٹا پیش نہیں کیا کہ وہ واقعی ماورائے ارضی ہیں”۔
بہرحال خلائی سائنسدان اس امر کی باریک بینی سے معائنہ کررہے ہیں کہ مختلف شہابیوں میں کس قسم کا حیات انگیز مواد پایا جاتا ہے اور آیا یہ وہی نیکلیو بیس ہیں جنہوں نے آج سے ساڑھے چار ارب سال پہلے زمین پر زندگی کے آغاز میں مدد دی تھی یا انکی نوعیت جدا ہے۔ جلد یا بدیر سائنسدان کسی نتیجے پر پہنچ ہی جائیں گے اور بالاخر سب سے قدیم اور سب سے اہم اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں کامیاب ہی ہوجائے گے کہ آخر زمین پر زندگی کا آغاز کیسے اور کیوں ہوا؟
اوریجنل آرٹیکل لنک
ایک زبان کے ادب کا دوسری زبان میں ترجمہ: مسائل اور چیلنجز
ادب کا ترجمہ ایک فن ہے جو محض الفاظ کا ترجمہ کرنے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ثقافت،...