ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ
سُنی نہ بات کسی نے تو مر گئے چُپ چاپ
پنجابی زبان کے ممتاز شاعر ، اور پنجابی زبان و ادبیات کے یگانۂ روزگار فاضل استاد ، محقق اور نقاد پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی قمر نے 8/ اپریل 2016 کو زینہ ٔ ہستی سے اُتر کرعدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا ۔بے لوث محبت ،بے باک صداقت ،انسانی ہمدردی اور خلوص و مروّت کا ایک یادگار عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔علمی و ادبی تحقیق و تنقیدکی درخشاں روایات کا علم بردارفطین ادیب ہماری بزمِ وفا سے کیااُٹھا کہ وفا کے سب افسانوں سے وابستہ تمام حقائق خیال و خواب بن گئے ۔۔ 4/ نومبر 1950 کو ملک رمضان علی امرتسری اور معراج بی بی کے گھر لائل پور (فیصل آباد ) کے محلہ خالصہ کالج ، پرانی آبادی میں شوکت علی کے نام سے ایک ایسا آفتاب جہان تاب طلوع ہوا جس نے عالمی ادبیات کو اپنی خوبصورت رچناوؤں / تحریروں ، پر فکر سوچوں اور خیالوں سے روشن کر کے 2016 کو عدم کی طرف رخت سفر باندھ لیا ۔۔محلہ شریف پورا فیصل آباد کی زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسماں کو اپنے دامن میں چھپا لیا ۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شوکت علی قمر ایک سیلف میڈ انسان تھے جس نے کوہ نور ٹیکسٹائل ملز کے عام ورکر سے ترقی کر کے علم و ادب کی دنیا میں ایک نام پیدا کیا ۔۔کوہ نور ملز کے عام ورکر سے گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں بطور لیکچرر تقرری اور جیسے وقت آگے بڑھتا گیا ،ڈاکٹر شوکت علی قمر بھی کامیابیوں کے زینے چڑھتے گئے ۔۔۔اسسٹنٹ پروفیسر کے بعد ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر انھوں نے پنجابی زبان و ادب کے لیے پھر پور کام کیا ۔۔ان کی محنت بار اور ثابت ہوئی اور اللہ رب العزت کے فضل سے ان کو پروفیسر کے عہدہ پر ترقی دی گئی اور اس لحاظ سے گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی میں پنجابی کے پہلے پروفیسرہونے کا اعزاز بھی انھی کے حصہ میں آیا ۔۔۔۔
وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شوکت علی قمر نے کہیں بھی پڑاؤ نہیں کیا ۔۔محنت ، لگن ، جستجو ،اخلاص اور عجز ان کی شخصیت کا خاصہ رہی ۔۔ان کی اسی لگن اور منکسر المزاجی نے انھیں مزید رفعتوں اور کامیابیوں سے نوازا اور انھیں جی سی یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی کا چیئرمین بنا دیا گیا اور اس طرح پہلے چیئرمین ہونے کا اعزاز بھی ان کے حصہ میں آیا ۔۔۔
بطور شاعر ان کی 1968/ ١٩٦٩ میں پنجابی اور اردو نعتوں اور مرثیہ کی تین کتابریاں ” مدینے کے نظارے “، ،رب دا جانی ” ،اور” کربل کا قاری “منصہ شہود پر آ گئ تھیں ۔۔۔۔۔۔۔1971 سے انھوں نے جدید شاعری شروع کی اور 1983 میں ان کی جدید پنجابی نظموں کا مجموعہ کلام ” اکھ دی پیڑ “چھپی ۔۔اس شعری مجموعہ کو۔ ہندوستان میں سردار چیتن سنگھ نے 1991 میں گرمکھی میں تراجم کے ساتھ شایع کیا ۔۔۔۔۔ممتاز شاعر اور دانشور شفقت اللہ مشتاق ، ڈاکٹر شوکت علی قمر کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ۔”
اڈاکٹر شوکت علی قمر کے بارے میں آپ کا کالم پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب ایک عظیم محقق۔ استاد۔ شاعر۔ ادیب اور انسان تھے۔ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے”۔
ڈاکٹر شوکت علی قمر کی جدید پنجابی نظموں کے مجموعہ ” اکھ دی پیڑ “کو گرمکھی میں ترجمہ کر کے بھارت میں اسے شائع کیا گیا جو کہ فیصل آباد کے لیے بہت اعزاز کی بات ہے ۔۔انڈیا کے ہی ایک معروف لکھاری سندرا لائل پوری نے اپنی مشہور کتاب “دو آر دیاں دو پار دیاں ” میں ان کی دو غزلوں کو شامل کیا ہے ۔۔خوشی اس بات کی ہے پنجابی زبان کے عالم گیر شہرت کے حامل لکھاری کا کلام وطن کی سرحدوں کو عبور کر گیا ہے ۔۔۔ان کی شاعری میں آفاقیت اور انسانیت کے وقار کا گہرا رنگ موجود ہے ۔اسی وجہ سے سردار چیتن سنگھ نے ان کی شاعری کا گھورمکھی تراجمہ کر کے اس کی گونج ہندوستان تک پہنچا دی۔ ۔اور اس بات کا ذکر سردار چیتن سنگھ نے اپنی اس ترجمہ زاد کتاب میں بھی کیا ہے ۔۔یہ بات بھی قابل غور رہے کہ شوکت علی قمر کے ساتھ چیتن سنگھ کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔شوکت علی قمر کی شاعری کا زیادہ حوالہ ان کی چھوٹی نظم یا نئی نظم کے شاعر کے طور پر دیا جاتا ہے جب کہ انھوں نے سینکڑوں کی تعداد میں پنجابی غزلیں بھی لکھی ہیں۔۔شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا رہا ۔۔۔۔اس کے علاوہ انھوں نے بہت خوبصورت پنجابی کہانی ، ڈرامہ ، تنقید اور تحقیق کے ضمن میں کافی خامہ فرسائی کی ہے ۔۔۔۔۔ان کی پنجابی کہانیاں معروف ادبی میگزین میں تواتر سے چھپتی رہی ہیں ۔۔۔۔معروف پنجابی لکھاری پریتم سنگھ نے اپنی کہانیوں کا انتخاب کر کے ایک ضخیم کتاب شائع کی تو اس میں ان کی لکھی کہانیاں ” جمن مٹی “، گامی ” ، اور” ایک مہاجر ” شامل کیں ۔۔۔دیس پیار اور ستمبر 1965 اور 1971 سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے یہ کہانیاں لکھی گئی ہیں ۔۔انھوں نے کچھ غیر ملکوں میں لکھی کہانیوں کا پنجابی میں ترجمہ بھی کیا ہوا ہے ۔۔اس سلسلے میں اطالوی کہانی کا کیا ترجمہ ” روح دے پھٹ “قابل ذکر ہے ۔۔ریڈیو لاہور سے ان کا پنجابی فیچر ڈرامے بھی نشر ہوے ہیں ۔۔ریڈیو پاکستان فیصل آباد کے لیے بھی کئی فیچر اور ڈرامے بھی لکھے ہیں ۔۔۔۔۔ان کے سینکڑوں کی تعداد میں تنقیدی مضامین اور درجنوں تحقیقی مضمون چھپ چکے ہیں ۔۔۔۔ان کی تنقیدی مضامین کی۔ کتاب مشتاق باسط کی کہانیوں بارے ” سوچ دی سانجھ ” ١٩٧٦ میں چھپی تھی ۔۔۔۔۔۔
شوکت علی قمر نے باقاعدہ 1967 سے پنجابی اور اردو شاعری شروع کی ۔۔نصرت فتح علی خان قوال اور کئی دوسرے گلو کاروں نے ان کا ااردو اور پنجابی کلام لاہور ریڈیو سے گایا ہے ۔۔۔۔۔ان کی مشہور نظموں میں ” راشد منہاس شہید (نشان حیدر) پر ان کی اردو نظم جو روزنامہ ” امروز ” میں چھپی تھی ۔۔اس نظم کو پڑھ کر راشد منہاس کے والد مجید منہاس نے ان کو شکریے کا خط لکھتے ہوۓ شہید کے باپ نے جذباتی فخر کا اظہار کیا تھا ۔۔
شوکت علی قمر ایک ہمہ وقت متحرک رہنے ادیب تھے ۔۔۔ ان کے دور میں چھپنے والا پنجابی کا کوئی ایسا شمارہ نہیں ہو گا ، جس میں ان کی شاعری یا کوئی دوسری تحریر نہ چھپتی ہو ۔۔۔۔۔۔۔روزانہ کے حساب سے وافر مقدار میں ان کے خطوط ادبی شماروں کے ایڈیٹر وں کو جاتے اور روزانہ کی بنیاد پر خطوط آتے تھے ۔۔۔۔فیصل آباد کی سطح پر اتنا اس دور میں اخبارات اور جراید کے ایڈیٹروں کے ساتھ کسی اور اہل قلم کے اتنے روابط ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر شوکت علی قمر نے اردو مشاعرے بھی کافی پڑھے ہیں ۔انھوں نے جوش ملیح آبادی ،فیض احمد فیض ،حبیب جالب ،صوفی تبسم،حفیظ جالندھری ،شورش کاشمیری ،احمد ندیم قاسمی ،عبد المجید عدم اور سیف الدین سیف جیسے جید شعرا کے پاس بیٹھنے ان کے ساتھ مشاعرے پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل رہا ۔۔علم عروض کے حوالے سے وہ کہا کرتے تھے کہ شاعر کو عروض کے علم بارے پتہ ہونا چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اوہ عروضیہ ہی نہ بن کے رہ جاۓ ۔۔اور عمدہ خیال اور پر مغز سوچوں سے کلام خالی ہو جاے ۔۔یعنی فکر پیچھے رہ جاۓ اور فن سامنے آ کر کھڑا ہو جاۓ _ پنجابی کے صوفی شاعروں نے عروض کی نسبت اور لے ،ترنم پر زیادہ دھیان رکھا ہے ۔
فیصل آباد کی ادبی فضا کیے حوالے سے وہ کہا کرتے تھے کہ فیصل آباد کی ادبی فضا بہت شاندار اور اپنے دامن میں بے پناہ خزانہ لیے ہوے ہے ۔۔۔۔۔۔ساندل بار سے نئے بنتے شہر لائل پور سے فیصل آباد کی تاریخ سالوں سے زیادہ پرانی نہیں ۔۔۔۔۔۔پنجابی ادب کے حوالے سے پاکستان کے قیام سے قبل یہاں میراں بخش منہاس ،جوشوا فضل الدین ، ظہیر نیاز بیگی اور جھنڈا بلوچ اہم ادبی حوالے بنتے ہیں ۔۔۔۔۔یہاں افضل احسن رندھاوا اور نادر جاجوی اس شہر کے نمایاں پنجابی ادیب ہیں ۔۔
ڈاکٹر شوکت علی قمر نے پنجابی کی ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے ۔”حرف نمازاں ” ان کی حمدوں ،نعتوں ، منقبتوں اور مرثیہ پر مشتمل کتاب ہے ۔۔۔۔ایک طرف تو “حرف نمازاں ” کا ایک ایک حرف آستانہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سر جھکا کر سجدہ عشق ادا کر رہا ہے اور دوسری طرف ” حرف نمازاں ” میں نماز عشق ادا کرنے کے لیے پنجابی زبان کی ہر سمت میں بچھا ہوا مصلے مصنف کے علم ، عرفان اور سوچوں کے غیر محدود اور لا متناہی ہونے کا پتہ دیتا ہے ۔۔۔۔
ممتاز شاعر صائم چشتی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں کہ ۔۔۔۔۔
“عزیزم شوکت علی قمر کا پنجابی شاعری کی ہر صنف پر محیط نعتوں کا یہ مجموعہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رنگا ہوا ہے ۔۔یہ اس شاعر کے قلم کی عطا ہے جو۔ پنجابی زبان کا منجھا ہوا استاد بھی ہے اور ایک اچھا شاعر بھی ۔۔۔۔۔۔۔اس کو اس سفر پر چلتے ہوۓ تیس سال گزر چکے ہیں ۔۔اس نے عشق کے سمندر سے محبتوں کے موتی نکال نکال کر نعتوں کے ہار پروے ہیں “”۔
ممتاز محقق ، نقاد اور استاد پروفیسر ڈاکٹر شببر احمد قادری ، ان کی شخصیت اور فکر و فن پر یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں ۔۔۔۔
“”ڈاکٹر صاحب کے ساتھ برسوں گورنمنٹ کالج فیصل آباد پھر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں گزارنے کا موقع ملا ،سٹاف روم ،ٹی کلب اور ان کے دفتر شعبہ پنجابی میں بہت طویل رفاقتیں رہیں ،مرنجاں مرنج شخص تھے ، لطیفے سنتے سناتے ۔ مجھ سے برسوں پہلے روزنامہ” عوام” فیصل آباد کے پنجابی صفحے کے انچارج تھے ،مدیر عوام قمر لدھیانوی کے شاگرد تھے ،بانی عوام خلیق قریشی مرحوم کے بہت مداح تھے ،نادر جاجوی مرحوم سے بھی اصلاح لیتے تھے، پیپلز کالونی نمبر دو میں رہتے تھے ،مجھے کیی بار اُن کے دولت کدے پر حاضری کا موقع ملا وہ میرے گھر بھی آ جاتے تھے ۔ان سے انٹرویو بھے لیے اور ان کی کتابوں بر اپنے تاثرات قلم بند بھی کیے ۔پنجابی زبان کے سچے محب تھے۔غزلوں نظموں کے ساتھ ساتھ نثر بھی بہت لکھی ، جی سی یو فیصل آباد سے انھوں نے ان گنت نیے چراغ روشن کیے اور نسلِ نو میں اپنی ماں بولی سے محبت کا شعور اجاگر کرنے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ان کی پنجابی تخلیقات کے دوسری زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں ،ضرورت ہے کہ ان کی غرض مطبوعہ یا مختلف ادبی رسایل و جراید میں بکھری ہوٸ تحریروں کو یک جا جمع کرکے ان کی اشاعت کا اہتمام کیا جاۓ۔انھوں نے بزرگ شاعر حضرت علی حیدر ملتانی کے فکر و فن پر پی ایچ ۔ڈی پنجابی کی سند کے حصول کے لیے ضخیم تحقیقی مقالہ لکھا جو ہنوز غیر مطبوعہ ہے ۔ان کے نگرانِ کار ڈاکٹر شہباز ملک تھے ۔یہ مقالہ پنجاب یونیورسٹی ، لاہور کے زیرِ اہتمام لکھا گیا ۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے مجلّہ “روشنی” کے پنجابی حصے کا نام انھوں نے ” چانن ” کا نام دیا اور کئی دہاییوں تک اس کے نگران کی حیثیت سے پنجابی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے سرگرم اور فعال رہے ۔” روشنی”( انگریزی نام بیکن ) کے اب تک شایع ہونے والے آخری مجلے ٢٠٠٩ ٕ کے اردو اور پنجابی صفحے ڈاکٹر افضال احمد انور ( صدر شعبہ اردو ) کی نگرانی میں ڈاکٹر شوکت علی قمر ( صدر شعبہ پنجابی) ،میں اور بحیثیت طالب علم مدیر عارف حسین عارف نے ہی ترتیب دیا تھا ۔””
ممتاز دانشور اور علمی و ادبی شخصیت ریٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج سمن آباد فیصل آباد، پروفیسر ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم ، ڈاکٹر شوکت علی قمر کی شخصیت اور فکر و فن پر خامہ فرسائی یوں کرتے ہیں ۔۔۔۔
“”میرا بھی ان سے بہت دیرینہ تعلق تھا ۔ہم اکٹھے ایسوسی ایٹ پروفیسر سلیکٹ ہوئے۔۔1998 میں وہ سینیئر تھے۔قوی الجثہ ہونے کے باوجود کئی بار سیڑھیاں چڑھ کر
بر وقت قائد اعظم بلاک میں شعبہ عربی میں تشریف لاکر میری عزت افزائی فرماتے۔۔مختلف امور پر مشاورت فرماتے۔۔جب میں سمن آباد کالج چلاگیا،تو مادری زبانوں کے عالمی دن کے ایک پروگرام میں انھیں بحیثیتِ مہمان خصوصی بلانے کا شرف بھی مجھے ملا ۔ان کی وفات پر شہر بھر میں واحد تعزیتی پروگرام بھی میرے ہی کالج میں میری خواہش پر منعقد ہوا۔۔ان کی کئی باتیں قابل ذکر ہیں۔ایک تو بہت معروف ہے کہ ملنے پر یا فون پر ایک جملہ شروع میں یا آخر میں ضرور کہتے۔۔۔ “ہسدے وسدے رہو۔”۔ اللہ غریق رحمت کرے آمین۔۔علم وادب کا بہت بڑا نام۔۔بہت بڑا انسان۔۔جس کی قدر نہ کی گئی۔””۔۔۔۔۔۔۔۔پنجابی زبان کا اتنا مخلص اور انتھک خدمت گار جس کی ساری زندگی پنجابی سے عشق کرنے میں گزر گئی ۔۔۔۔وہ تمام صوفی شاعروں کے عاشق صادق تھے اور اپنی گفتگو میں کلاسیکل شعرا کے اشعار کا اکثر حوالہ دیتے ۔۔۔۔۔۔پنجابی زبان و ادب کے سچے خدمتگار ، جن کو “فنا فی الپنجابی ” کہا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔