ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
عیدِ رمضان سے قبل رات دیر گئے کی ایک شاپنگ کا ذکر ہے۔ پتھرگٹی کی ایک مشہور دکان پر خریداری کے بعد قیمت ادائی کا وقت آیا تو حسب عادت جی-پے کھولا مگر بزرگ دکاندار نے کہا کہ: جی نہیں، کیش دیجیے۔ میں نے کاؤنٹر پر دھرے کیو آر کوڈ کی تختی کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ پھر یہ کس لیے ہے؟ بزرگ محترم نے کوڈ کی تختی اٹھا کر اندر رکھ دی اور ایک چھوٹے سے مکالمے کے بعد علامہ کا مذکورہ بالا شعر سنا کر جو اظہار خیال کیا اس کا لب لباب یہ تھا کہ:
“مشینیں زندگی پر یوں حاوی ہو گئی ہیں کہ عام آدمی ہو یا کاروباری یا ملازمت پیشہ۔۔۔ ایک دوسرے کا وہ درمیانی تعلق جو ہاتھ اور زبان سے جڑا تھا، تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ یہ قیامت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے؟”
آج مجھے یاد آیا کہ ممتاز ادیب اور ناقد محمد حمید شاہد نے تقریباً اسی موضوع یعنی “مشین” کے ذکر پر، میرے افسانوں کے تجزیے میں لکھا ہے:
“مکرم نیاز کا تخلیقی موضوع درد دِل رکھنے والا انسان ہے؛ جی وہ انسان جس کے ہاں مشینی اخلاقیات نہ ہوں۔ مکرم نیاز خود انجینئر ہیں، ان کا واسطہ مشینوں سے پڑتا رہتا ہے۔ مشین جو انسان سے بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے اور اس حکم کی پابند ہے جو اسے مالک دیتا ہے۔ مشین جو نئے عہد میں بہت اہم ہو گئی ہے۔ اتنی اہم کہ اس نے انسان کو کائنات کے مرکز سے دھکیل کر حاشیے پر پھینک دیا ہے۔ مشین جو اس لیے تخلیق ہوئی تھی کہ وہ کمزور انسان کا بوجھ بانٹتی مگر اس نے انسان کو ہی اپنے منصب سے معزول کر کے اسے بےکار کر دیا ہے۔ وہ اس مشین کی اصلیت کو پہچان گئے ہیں، اس مشین کو جو سرمایہ دار نے ہتھیا رکھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے ہاں مشین کا ذکر قدرے حقارت سے آیا ہے۔”
سچ تو یہ ہے کہ مجھے واقعی اس بات کا کوئی احساس نہیں تھا یا ممکن ہے غیرشعوری طور پر ایک تخلیق کار کے قلم سے ایسے حقارت آمیز رویے کا اظہار ہوا ہو۔ پھر میں نے اپنے افسانوں کی ورڈ فائل میں لفظ “مشین” کو فائنڈ کیا تو کوئی پانچ چھ افسانوں میں یہ لفظ انہی معنوں میں نظر آیا جس کی طرف موقر تجزیہ نگار نے اشارہ کیا ہے، یعنی:
“ان کے ہاں مشین کا ذکر قدرے حقارت سے آیا ہے”۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ اسی “مشین” کا سب سے زیادہ استعمال بھی میں نے ہی کیا ہے۔ چاہے لکھنے پڑھنے میں دفتری یا ذاتی استعمال ہو تو ڈیسک ٹاپ لیپ ٹاپ، رقمی لین دین ہو تو مختلف ذرائع کے آن لائن ٹرانزکشن، دوست احباب عزیز و اقارب سے روابط ہو تو انسٹنٹ مسیجنگ ایپس کا استعمال، سفر درپیش ہو تو آن لائن ٹکٹنگ ایپس، کبھی کھانا باہر سے منگوانا ہو تو سویگی، زوماٹو۔
ابھی کل کی بات ہے۔ ایک دفتری کام سے کڑی دھوپ میں لوٹتے ہوئے مرادنگر کی ایک پتلی سی گلی میں گنے کے جوس کا ٹھیلہ نظر آیا تو وہیں ٹھہری بیشمار بائکس کے بیچ اپنی بھی گاڑی پھنسائی اور ایک گلاس جوس کا آرڈر دینے لگا۔ مگر لمحہ بھر میں وہ پتلی سی گلی، گاڑیوں کی بےترتیب پارکنگ کے سبب ٹریفک جام کا شکار ہو گئی۔ ایک ٹریفک کانسٹبل کہیں سے نازل ہوا۔ میں گاڑی ہٹانے ہی والا تھا کہ اس نے میری گاڑی پر محکمے کا نام کا اسٹیکر دیکھ کر کہا: کیا صاب، آپ لوگ ہی ایسا کریں گے تو ہم کس کس کو روکیں گے؟
مارے شرمندگی کے بغیر جوس لیے گاڑی آگے بڑھا دی۔ قریبی محلہ شانتی نگر کے ایک مشہور وومن کالج کی سائڈ کارنر پر ایک اور گنا جوس بنڈی نظر آئی تو وہیں گاڑی روکنا چاہی مگر بنڈی راں خاتون نے کہا: صاب، گاڑی ذرا سائیڈ میں لے لیجیے۔
ٹھیک ہے۔ جوس لیا، پیا اور ویلٹ میں دیکھا تو سوائے پانچ سو کے نوٹ کے، کوئی دوسرا چھوٹا نوٹ نظر نہ آیا۔ وہی 500 کا نوٹ دینا چاہا تو خاتون نے تلگو میں کہا: صرف بیس روپے دو صاب۔
مگر اتنی ریزگاری ہوتی تو دی جاتی بھی۔ اس پر خاتون بنڈی راں نے اپنی کیوآر کوڈ تختی آگے بڑھا دی کہ بیس روپے آن لائن پے کر دیں۔ سو کر دیا، مگر پھر کہا:
بازو ہی مراد نگر پر اسی گلاس کا جوس دس روپے میں ہے، یہاں ڈبل قیمت کیوں؟
جواب ملا: گنے گنے میں فرق ہوتا صاب!!
میرے اندر کے تخلیق کار نے کہا:
“گنے” کی جگہ کوئی کوئی دوسرا لفظ اس جملے میں فٹ بیٹھتا ہے!
عصر نو مجھ کو نگاہوں میں چھپا کر رکھ لے
ایک مٹتی ہوئی تہذیب کا سرمایہ ہوں!!
(مظہر امام)
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...