تحریر : او ہنری (امریکا)
ترجمہ : رومانیہ نور (ملتان)
لارڈ اوکہرسٹ , اوکہرسٹ محل کے مشرقی حصے کے اوک چیمبر میں بستر مرگ پر پڑا آخری سانسیں گن رہا تھا۔ موسم گرما کی شام کے سکون آور لمحوں میں کھلی کھڑکی سے موسم کے اولین بنفشی پھولوں اور شگوفے نکالتے ہوئے درختوں کی میٹھی خوشبو آئی اور مرتے ہوئے آدمی کو ایسا لگا جیسے زمین کی محبت اور خوبصورتی کبھی اتنی نمایاں نہیں تھی جتنی اس روشن جون کے دن، اس کی زندگی کے آخری دن نمایاں تھی۔
اس کی نوجوان بیوی، جسے وہ اس عقیدت اور شدت سے چاہتا تھا کہ موت کی آہٹ بھی اس کے جذبات میں کوئی رد و بدل نہیں کر سکتی تھی، روتے ہوئے اور غمگین ہو کر اپارٹمنٹ میں گھومتی رہتی تھی، کبھی بیمار شخص کا تکیہ درست کرتی تھی اور اس سے دھیمے افسردہ لہجے میں پوچھتی تھی کہ کیا اسے سکون دینے کے لئے کچھ کیا جاسکتا ہے، اور پھر، دبی ہوئی سسکیاں لے کر کچھ چاکلیٹ کیرامل کھانے لگتی جو وہ اپنے ایپرن کی جیب میں لیے ہوتے تھی۔ نوکر اس خاموش ماحول میں جو ایک ایسے گھر میں غالب ہوتا ہے جہاں موت متوقع مہمان ہوتی ہے ، دبے قدموں چلتے پھرتے تھے اور یہاں تک کہ برتنوں کے ٹوٹنے اور گلاسوں کے کھڑکھڑانے کی آوازیں بھی ان کے نقطۂ نظر کو جان کر معمول سے کم پُر شور انداز میں پردۂ سماعت سے ٹکراتی تھیں۔
لارڈ اوکہرسٹ بیتے ہوئے زمانے کے بارے میں سوچ رہا تھا، جب اس نے اپنی خوبصورت نوجوان بیوی سے اظہار محبت کیا اور اس کا دل جیتا تھا، جو اس وقت ایک دلکش اور معصوم لڑکی تھی۔ اس کی یاد داشت کے پردۂ سکرین پر وہ مناظر کتنی وضاحت اور باریک بینی سے نمودار ہوئے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ ایک بار پھر پرانے شاہ بلوط کے جھنڈ کے نیچے کھڑا تھا جہاں انہوں نے شفق کے وقت ستاروں کی روشنی میں اپنی منگنی کا اعلان کیا تھا ؛ جبکہ جون کے گلابوں کی نایاب مہک اور رات کے کھانے کی خوشبو ہوا کے جھونکوں میں نرمی سے گھل مل گئی تھی۔ وہاں اوکہرسٹ نے اس سے اظہار محبت کیا تھا۔ اس کی ساری خوشی اور مستقبل کی شادمانی کیسے اس امید میں سمٹ آئی تھی کہ شاید وہ اسے دلہن کے طور پر اپنا بنا لے اور یہ کہ اگر وہ اس کی دیکھ بھال کے لئے اپنے مستقبل پر بھروسہ کرے گی تو وہ زندگی بھر کے لیے اس کا مرید بن جائے گا ، اور اس کی واحد فکر اس کی تمام زندگی کو ایک طویل چمکیلا اور شہد آگیں دن بنانا ہوگا۔
اسے کتنا واضح طور پر یاد تھا کہ کس طرح وہ لڑکی شرم و حیا کے ساتھ پہلے تو ہچکچائی اور اپنے آپ میں ہی کچھ بڑ بڑائی “ایک بھونڈا ، گنجا بوڑھا” لیکن جب اس نے اسے بتایا کہ اس کے بغیر زندگی ایک تباہ کن مذاق بن جائے گی، اور اس کی آمدن سالانہ 50,000 £ پاؤنڈ تھی، تو اس نے خود کو اس پر گرا دیا اور اس کے بدن سے ایسی مضبوطی کے ساتھ چپک گئی جیسے چتکبری گائے کو چیچڑ چمٹتا ہے ۔ اور خوشی کے آنسوؤں سے کہا ” ہین۔۔۔۔ری میں تمہاری ہوں۔”
اور اب وہ مر رہا تھا. چند ہی گھنٹوں میں اس کی روح موت کے فرشتے کی پکار پر پرواز کرتے ہوئے اپنے بے چارے ، کمزور، دنیاوی جسم کو چھوڑ کر اس دھندلی اور خوفناک نامعلوم سرزمین کی طرف نکل جائے گی اور یقینی طور پر اس اسرار کو حل کر دے گی جو اپنے آپ فانی انسان پر آشکار نہیں ہوتا۔
II
ایک گاڑی تیزی سے گلی میں چلی آئی اور دروازے پر آ کر رک گئی۔ لندن کا مشہور معالج سر ایورہارڈ فٹز آرمنڈ، جس کو تار بھیجا گیا تھا، اتر ا اور تیزی سے سنگ مرمر کے زینوں پر چڑھ گیا۔ لیڈی اوکہرسٹ نے دروازے پر اس سے ملاقات کی، اس کے حسین چہرے پر پریشانی اور غم مترشح تھا۔ “اوہ، سر ایورہارڈ، مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ آئے ہیں. یوں لگتا تھا کہ اس کا دل تیزی سے ڈوب رہا ہے۔ کیا آپ وہ بادام کی کریم لائے جس کا میں نے تار میں ذکر کیا تھا؟”
سر ایورہارڈ نے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن خاموشی سے اسے ایک پیکٹ تھما دیا، اور اپنے منہ میں ایک دو لونگ پھانکتے ہوئے زینوں پر چڑھ گیا جو لارڈ اوکہرسٹ کے کمرے کی طرف جاتے تھے ۔ لیڈی اوکہرسٹ نے اس کی پیروی کی۔
سر ایورہارڈ اپنے مریض کے بستر کے پاس پہنچا اور اس بیمار شخص کی نبض پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔ اس کے پیشہ ورانہ چہرے پر احساس کا ایک سایہ سا لہرا گیا تب اس نے سختی اور سنجیدگی طاری کرتے ہوئے یہ الفاظ بیان کیے: “محترمہ، آپ کے شوہر گزر گئے ہیں۔”
لیڈی اوکہرسٹ کو پہلے تو اس کی تکنیکی زبان کی سمجھ نہیں آئی اور اس کا حسین مکھڑا بادام کی کریم پر سے ایک لمحے کے لئے اٹھا ۔ لیکن جلد ہی اس کا مفہوم اس کے ذہن میں کوندا اور اس نے فی الفور وہ کلہاڑی پکڑ لی جسے اس کا شوہر اپنے نوکروں کو دھمکانے کے لئے اپنے بستر کے پاس رکھنے کا عادی تھا ، اس نے لارڈ اوکہرسٹ کی الماری توڑی جس میں اس کے نجی کاغذات تھے ۔ اس نے پرشوق انداز سے وہ دستاویز کھولی جو وہ الماری سے اٹھا لائی تھی۔ پھر ایک وحشیانہ ، بے ساختہ چیخ کے ساتھ جس نے در و دیوار کو لرزا دیا وہ فرش پر گر گئی اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔ سر ایورہارڈ فٹز آرمنڈ نے کاغذ اٹھایا اور اس کے مشمولات پڑھے۔ یہ لارڈ اوکہرسٹ کی وصیت تھی جس میں اپنی تمام جائیداد کو اس مقصد کے لیے ایک سائنسی ادارے کے نام کر دیا تھا کہ انہیں لکڑی کے برادے سے آڑو کی شراب کشید کرنے کے لئے کوئی طریقہ ایجاد کرنا چاہئے۔
سر ایورہارڈ نے کمرے کے ارد گرد تیزی سے نظر ڈالی وہاں آس پاس کوئی بھی نظر نہیں آیا. وصیت چھوڑ کر اس نے تیزی سے کچھ قیمتی زیورات اور طلائی و نقرئی کام کے نادر نمونے درمیانی میز سے اپنی جیبوں میں منتقل کیے اور نوکروں کو بلانے کے لئے گھنٹی بجائی۔
III
سر ایورہارڈ فٹزآرمنڈ، اوکہرسٹ محل کی سیڑھیوں سے اترا اور اس گزر گاہ کی طرف نکل گیا جو داخلی دروازے سے پارک کے عظیم آہنی پھاٹکوں تک جاتا تھا۔ لارڈ اوکہرسٹ اپنی زندگی کے دوران ایک عظیم کھلاڑی رہے تھے اور ہمیشہ سے اپنے سگ خانہ میں وافر تعداد میں کتے پالے ہوئے تھے، جو اب اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکل آئے اور زور دار غراہٹوں کے ساتھ معالج پر پِل پڑے، اس کے نچلے دھڑ میں اپنے دانت پیوست کر دئیے اور اس کے لباس کو تار تار کرتے ہوئے شدید نقصان پہنچایا۔
ذاتی تکلیف کے احساس سے دوچار ہو کر سر ایورہارڈ اپنے پیشہ ورانہ وقار اور انسانی مصائب سے برتی جانے والی معمول کی بے اعتنائی سے چونکا اور شدید لعنت ملامت کا اظہار کرتے برق رفتاری سے اپنی گاڑی کی طرف بھاگا اور شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔
Original Title: LORD OAKHURST’S CURSE
By: O. Henry
For original Text
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...