خواتین کے عالمی دن کے موقع پر، امریکی شاعرہ ایڈرین رچ کے ایک طویل مضمون سے ایک انتخاب احباب کی نذر؛
مندرجہ ذیل مضمون میں وہ اپنے اس تضاد پر بحث کرتی ہیں کہ جو 20 سال تک انکو تنگ کرتا رہا کہ آخر بطورِ عورت، بیوی، ماں یا شاعر، معاشرے میں زندہ رہنا ہے۔۔
•••
کسی بھی مرد مصنف نے بنیادی طور پر اضافی طور پر عورتوں کے لئے کچھ نہیں لکھا ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جب وہ اپنا موضوع ، زبان اور اسلوب اختراع کر رہا ہوتا ہے تو عورت کے بارے میں شعور کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔۔ جبکہ خاتون منصفین نے مردوں کے بارے میں لکھا بھی ہے۔۔ خاتون ورجینیا وولف ہی کیوں نہ ہو کہ جو عورتوں سے مخاطب سمجھی جاتی ہے۔۔ وہ بھی مرد کا حوالہ دیتی اور معمالات زیر بحث لاتی ہے۔۔ ممکن ہے کہ ہم اس متوازن لمحے میں آجائیں کہ جب عورتیں صرف عشق کے توسط سے پہچانی نہ جائیں اور نہ مملکت کے حوالے سے اپنا مقام پائیں جبکہ بین الاقوامی سطح پر فرد کے طور پر قبول کرنے کی مجبوری میں وہ یہ کہہ اٹھیں کہ خاتون لکھنے والیوں کے لیے اور پڑھنے والوں کے لیے یہ ایک غیر معمولی لمحہ ہے۔۔
میں جو کچھ اب کرنے والی ہوں۔۔ اس کے کرنے سے گریز کرتی رہی ہوں۔۔ یعنی اپنی شاعری کے حوالے سے خود اپنی تفسیر و تشریح۔۔ سبب اس کا ایک یہ ہے کہ اس بہانے، خاتون مصنفین کے بارے میں بات کرنی آسانی ہوگئی مگر ایک سبب اور بھی ہے۔۔ ورجینیا وولف کی طرح میں بھی واقف ہوں ان عورتوں سے جو ہمارے ساتھ اس میدان میں شریک جہد نہیں ہیں، کیونکہ وہ گھروں میں برتن دھو رہی ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔۔ ورجینیا وولف کی کہی بات کو 50 سال ہوگئے ہیں۔۔ ان پچاس سالوں میں حالات زرا بھی نہیں بدلے۔۔ بلکہ میں تو اس عورت کی بھی بات کرونگی کہ جس کا تذکرہ ورجینیا وولف بھول گئیں۔۔ وہ عورت جو برتن تو دھو رہی ہے مگر کسی اور کے گھر کے۔۔ بچے تو کھلاتی ہے مگر کسی اور کے۔۔ اس عورت کا تو تذکرہ کہیں ملتا ہی نہیں کہ جو گزشتہ رات گلی میں گئی کہ اپنے بچوں کو کھلانے کچھ لاسکے۔۔
یہاں ہم خاص قسم کی خواتین معلوم ہوتی ہیں کہ جو اپنے بارے میں سوچنا پسند کرتی ہے۔۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مرد اس کو برداشت نہیں کریں گے بلکہ ہمارے اس نظریے کو بھی رومانوی رنگ دینا پسند کریں گے۔۔ جب تک ہمارے کام اور الفاظ ان کی مراعات و مفادات خطرے میں نہ ڈالیں گے وہ برادشت کرتے رہیں گے۔۔ یا پھر اپنے خیالات ہمیں بتاتے رہیں گے کہ عورت کیسی اچھی لگتی ہے اور کیسی اچھی مانی جاتی ہے۔۔
آج کی عورتوں کی نسائی تحریک نے اس طلسم کو توڑا ہے کہ ہم جیسی عورت کوئی خاص یا نمائندہ عورت نہیں ہوتی ہے۔۔ بلکہ ہر کارکن اور آگے آنے والی عورت، معاشرے میں فرد کا مقام پانا چاہتی ہے۔۔ ہم استانیاں ہیں، مصنفین ہیں، ماہرین تعلیم ہیں، مگر ہماری اپنی صلاحیتیں یا دفن یا اجاڑ دی جاتی ہے۔۔ ہماری جدوجہد اور ہمارے حق کا مطلب چاہے مرد کی اجارہ داری میں کتنا کی مجرد کیوں نہ ہو، اس وقت بامعنی ہوسکتا ہے جب عورتوں کی زندگی اور صلاحیتوں کو باقاعدہ فرد کی حیثیت سے ابھرنے اور سامنے آنے کا موقع ملے۔۔
••
حوالہ : انتخاب خواتین کا عالمی ادب
انتخاب و ٹائپنگ : احمد بلال
ایک زبان کے ادب کا دوسری زبان میں ترجمہ: مسائل اور چیلنجز
ادب کا ترجمہ ایک فن ہے جو محض الفاظ کا ترجمہ کرنے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ثقافت،...