پاکستان بھر میں ان دنوں آئین کی بالادستی کا خوب شور رہا۔ اس شور میں ایک آواز یہ بھی سنائی دی کہ سردار اختر مینگل پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر دکھائیں۔ یہ فرمائش مینگل صاحب سے نہیں کی گئی، دراصل بلوچستان سے کی گئی۔
یہ پرانی روایت ہے کہ جہاں شہری حق کا سوال نظر آجائے اسے قومی پرچم کے نیچے چھپا دو۔ حب الوطنی اگر کوئی چیز ہے تو اسے جانچنے کا معیار سوائے آئین کے کیا ہو سکتا ہے؟ جو آئین مانتا ہے، وہ نعرہ نہ لگاکر بھی ایک معزز شہری ہے۔ جو نہیں مانتا، وہ جھنڈے کا کفن اوڑھ کر بھی پاک پوتر نہیں ہو سکتا۔
آئین اور جمہوریت سے وابستگی کا مطلب یہاں غداری ہے۔ اگر یہ جاننا ہو کہ کس علاقے میں آئینی رجحان سب سے زیادہ ہے، معلوم کرو کہ وہاں غداروں کی تعداد کیا ہے۔ پاکستان کا کون سا علاقہ ہے، جس کے پاس غداروں کی تعداد بلوچستان سے زیادہ ہو۔ اس علاقے کا ہر دانشور اور ہر عوامی سیاست دان غدار ہے۔ جو گزر گئے وہ غدار تھے، جو موجود ہیں وہ غدار ابنِ غدار ہیں۔
محب وطن اِس صوبے میں بھی پیدا ہوتے ہیں، مگر انہیں بلوچ دانشوروں کی تائید حاصل نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان کے نامہ سیاہ میں علم دشمنی، جمہوریت بیزاری اور آئین شکنی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ قاسم سوری نامی جس تازہ بلوچ کو ”ہیرو‘‘ کی حیثیت سے گلی گلی گھمایا جا رہا ہے، اس کے نامے میں آئین شکنی کے علاوہ دوسرا کوئی سیاسی حوالہ موجود نہیں ہے۔ چونکہ وہ آئین شکن ہے تو سبز ہلالی دستار اس کے سر پر باندھ دی گئی ہے۔
جہاں جھنڈے کو اشرافیہ کا نمائندہ بناکر بے توقیر کر دیا گیا ہو، وہاں ایک معزز شہری اس جھنڈے کو لہرا کر اپنی سمجھ بوجھ پر سوالات کیوں کھڑے کرے گا۔کیا جھنڈا گلے میں ڈال کر زمین کے خود دار بیٹے یہ اعلان کرتے پھریں کہ ہم سب رمضان مینگل ہیں؟
بہت سوچ سمجھ کر بلوچستان سے اس کی دانش چھینی گئی ہے۔ شاہ محمد مری فخر سے کہتے تھے کہ بلوچستان کی مٹی ہی کچھ ایسی ہے کہ اس میں نسیم حجازی نہیں اُگتے۔ شاہ صاحب زندہ ہیں اور تبلیغی جماعت کو بلوچ ثقافت پر بلڈوزر پھیرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ قبضے کی زمینوں میں جو بیج بوئے گئے تھے وہ اب برگ و بار لا رہے ہیں۔
دانش تو تقریبا ہر علاقے سے چھینی گئی، مگر بلوچستان سے اہلِ دانش بھی تواتر کے ساتھ چھینے گئے ہیں۔ بلوچستان میں کوئی شخص لاپتہ ہوجائے تو سمجھ جائیں کہ اس شخص میں تین اوصاف نمایاں ہوں گے۔ جمہوریت پسند ہو گا، اپنی مٹی سے پیار کرتا ہو گا، خواندہ ہو یا ناخواندہ ہو کتاب سے تعلق رکھتا ہو گا۔
ابھی پچھلے دنوں ہی حفیظ بلوچ نامی ایک نوجوان اسلام آباد سے چھٹیاں گزارنے اپنے علاقے خضدار گیا تھا۔ شام کا وقت اس نے باغبانہ کے ایک سکول میں بچوں کو پڑھانے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ وہ درس گاہ میں ہی کھڑا تھا جب مسلح اہلکار آئے اسے بالوں سے کھینچتے ہوئے لاہوت ولامکان کی طرف لے گئے۔ اطلاعات ہیں کہ حفیظ بازیاب ہو چکا ہے، مگر درس گاہ میں بیٹھے معصوم بچوں کو جو پیغام پہنچانا تھا وہ پہنچ گیا ہے۔ علم دہشت گردی ہے اور سوال جرم ہے۔
بلوچستان سے ”پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگانے کی فرمائش ایسے وقت میں کی گئی کہ جب چاغی میں ایک ڈرائیور کو مار دیا گیا اور باقیوں کو تپتے ہوئے صحرا میں چھوڑ دیا گیا۔ یہ وہی مقام ہے، جہاں سے چار سال پہلے لاپتہ ہونے والے حفیظ اللہ کی لاش برآمد ہوئی تھی۔
کچھ بلوچ شہری یہ بتانے کے لیے نوکنڈی میں جمع ہوئے تھے کہ ہمیں بھوک پیاس سے مرنے والوں کی کچھ لاشیں صحرا سے ملی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح ان کی یہ بات سننے کی ذمہ داری بندوق کو سونپی گئی۔ وہی انجام کہ گولیاں چلیں اور چھ مزید نوجوان خون خون ہو گئے۔ یہ ہر گز ایسا واقعہ نہیں ہے جس کے ساتھ ‘مبینہ’ لکھ کر ہلکا سا ایک ابہام چھوڑا جا سکے۔ یہ واقعات کسی اخبار نویس کی گواہی کے محتاج بھی نہیں ہیں۔
بات یہ نہیں ہے کہ چاغی میں کوئی حادثہ ہوا ہے۔ حادثے سے بڑھ کر یہ سانحہ ہوا ہے کہ اِس حادثے کو ہوتا ہوا دیکھ کر بھی پاکستان ایک لمحے کے لیے نہیں رکا۔ وہ دوسری منہ پھیر کر آرام سے افطار پارٹی انجوائے کر رہا ہے۔ اس منظر کو پینٹ کریں تو بالکل وہی تصویر ابھر کے سامنے آئے گی جس میں ایک پاپڑ والے کی بے گور وکفن لاش رکھی ہے اور ساتھ ہی لوگ اطمیان سے شادی کا کھانا کھا رہے ہیں۔
زندوں کو ہم سہارا نہیں دیتے، مرتے دم انہیں کلمہ ضرور پڑھواتے ہیں۔ جلتے ہوئے صحرا میں اوندھے منہ پڑا بلوچستان اشارے سے دو گھونٹ پانی مانگ رہا ہے، پاکستان اکڑوں بیٹھ کر اس سے کہہ رہا ہے پہلے بتاو میں کیسا لگ رہا ہوں۔
فرمائشی نعرے لگوا کر احترام کم تو کیا جاسکتا ہے بڑھایا نہیں جا سکتا۔ ریاستِ پاکستان کی فرمائش ہندوستان کے اُس مذہبی انتہاپسند ہندو کی فرمائش سے کیا ذرا بھی مختلف ہے جو کسی بھی راہ چلتے مسلمان کو پکڑ کر کہتا ہے جے شری رام کا نعرہ لگاو؟ نعرہ لگاو تو تم اچھے شہری ہو، نہ لگاو تو برے شہری ہو؟
آئین کے پلیٹ فارم پر کھڑے کسی بھی مسافر کو دوسرے مسافر پر فضیلت حاصل نہیں ہوتی۔ چھت پر جھنڈا لگا گھر کو کلیسا کا درجہ نہیں مل جاتا۔ جھنڈا محبت کا اظہار تو ہو سکتا ہے، مگر جھنڈے کا اب یہ مطلب ہی کہاں رہا۔ اب تو جھنڈا آئین سے ہٹ کر ہونے والی کچھ سرگرمیوں کی علامت بن گیا ہے۔
مجھے کوسٹر کا وہ ڈرائیور یاد آرہا ہے جو اگست کے مہینے میں ہمیں گلگت سے اسلام آباد لے جا رہا تھا۔ رستے میں ہر دوسری دکان پر رک کر وہ جھنڈے کا پوچھتا تھا۔ بلآخر جھنڈا مل گیا تو کوسٹر کے فرنٹ پر چپکا کر مطمئن ہو گیا۔ میں نے پوچھا، کیوں اتنے اتاولے ہو رہے تھے جھنڈے کے لیے؟ ہنس کر بولا، گاڑی کے کاغذات نہیں ہیں نا سر۔ جھنڈا لگا ہوا ہو تو پولیس والے روکتے نہیں ہیں۔ سراج رئیسانی کے پاس جھنڈے تو بہت تھے مگر کاغذات پورے نہیں تھے۔ مارے گئے تو ریاست نے اپنا جھنڈا سرنگوں کر دیا۔ میر حاصل خان بزنجو کے پاس جھنڈا نہیں تھا مگر کاغذات پورے تھے۔ گزر گئے تو ریاست نے تعزیت کا رسمی تکلف بھی گوارا نہیں کیا۔
پچھہتر برسوں میں پاکستان نے اپنے شہریوں سے وفاداری کا ثبوت مانگا ہے۔ غفلت کا یہ عالم ہے کہ اب بھی وہ ثبوت ہی مانگ رہا ہے۔ وہ نہیں جان پا رہا کہ حالات کس قدر بدل گئے ہیں اور شہری کیا کہہ رہا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ وفاداری کے جتنے ثبوت ممکن ہو سکتے تھے ہم نے اپنی بساط سے بڑھ کر دے دیے ہیں۔ اب ریاست کی باری ہے کہ وہ شہری سے اپنی وفاداری کا کوئی ثبوت پیش کرے۔
سوہنی دھرتی کے لاوارث شہید ارضِ وطن کے عسکری یتیموں کا نوحہ
بہت سال پہلے کا ذکر ہے ۔ لاہور سے سیالکوٹ آیا مانی چھاوٗنی کے شمال مشرقی گیٹ کے پار لال...