بے شک ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت امیر خسرو کے سات سو سال بعد سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا تخلیق کردہ قول ترانہ من کنت مولا۔ فھذا علی مولا پڑھا اور بار بار پڑھا اور سنا ہے۔ واقعتا یہ ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے بلکہ سات صدیوں بعد اس نٸے قول ترانے کو آپ بلاجھجک ایک عظیم تخلیقی معجزہ قرار نہ دینا کم فہمی یا کم ظرفی سمجھی جا سکتی ہے۔ ہماری دانست میں یہ قول ترانہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے علم و عرفان و بصیرت کی کرامت ہے۔
طول تاریخ میں بڑے بڑے عظیم شعراء گزرے جنہوں نے اس وادی میں گراں قدر خدمات انجام دیں ظہور اسلام سے پہلے بھی یہ سلسلہ تھا اور ظہور اسلام کے بعد سے لے کر کے ابھی تک جاری و ساری ہے اور مولانا سید کلب حسن نونہروی صاحب نے اس قول ترانے کی علمی و تحقیقی شرح فرمائی جس نے اس قول ترانے کی افادیت و اہمیت کو مزید اجاگر کردیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی سید کلب حسن نونہروی صاحب کی یہ کاوش مولا امیر کائنات کے دربار میں قبول فرمائے اور ہم گناہ گاروں کا شمار بھی موالیان حیدر کرار میں فرمائے اور ہمیں اپنا حقیقی حبدار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین الہی آمین
طول تاریخ میں اسلام سے پہلے بھی اور اسلام کے بعد بھی یہ شعر و شاعری کا سلسلہ تھا اور آج تک جاری ہے دور پیمبر میں بھی جناب سرکار حضرت ابو طالب ع اور خود جناب امیرالمونین حضرت علی ابن ابی طالب ع نے جس سلسلہ نعت گوٸی کا آغاز فرمایا تھا اسے حضرت حسان بن ثابت اور فرذدق جیسے شعرإ نے جاری رکھا ۔ حضرت حسان بن ثابت اوران کے ہممزاج شعرا ٕ آئمہ علیھم السلام کی محفلوں میں شاعری کیا کرتے تھے اور آئمہ انکو انعامات سے نوازتے تھے بعد ازاں جناب سلطان الہند حضرت خواجہ جی غریب نواز معین الدین چشتی نے بھی سنت حضرت ابو طالب اور جناب امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ع کو جاری رکھا۔ حضرت امیر خسرو سے میر اور میر انیس و مرزا دبیر ۔ سعدی ۔ شیرازی اور شہریار و غالب علامہ اقبال اور اس کے بعد سے اب تک بہت سے شعراء برصغیر پاک و ہند میں گزرے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی اور جناب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے سرکار سید فخرالدین بلے شاہ صاحب ہیں۔
بہرحال شاعری کے بھی مختلف انداز و اطوار اور مختلف اسلوب ہیں لیکن وہ شاعری کیسی منفرد ور اچھوتی کہلاٸے گی کہ جو اہل بیت اطہار کی مدحت میں کی جائے۔ بالخصوص سرکار سردار الانبیا ٕ اور سردار الآٸمہ امیرالمومنین مولائے کائنات کی مدحت میں ہو۔
ممتاز مذہبی اسکالر ہر دلعزیز خطیب ۔ شاعر اہل بیت اطہار ع اور پچاسں سے زاٸد کتب کے مصنف علامہ ضمیر اختر نقوی نے حضرت امیر خسرو کے سات صدیوں بعد سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے تخلیق کردہ ”قول ترانہ“ کے حوالے سے ممتاز محقق اور اسکالر علامہ سید کلب حسن نونہروی کے تحقیقی کام کو بے حد سراہتے ہوٸے اپنے تاثرات میں بیان فرمایا کہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا یہ نیا قول ترانہ من کنت ولا فھذا علی مولا۔ دراصل معجزاتی تخلیق ہے دراصل غدیر خم کا واقعہ اللہ رب العزت اور کاٸنات کی دو سب سے اہم اور عظیم ترین ہستیوں کا معاملہ ہے لہذہ اس واقعہ اور واقعے کی روشنی کو پھیلانے کا جو بھی اس سطح پر اہتمام کرے گا وہ کوٸی عام شخص یا عام ہستی ہو یہ ناممکنات میں سے ہے۔ بےشک سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا انتخاب بھی انہوں نے ہی کیا کہ جن کا یہ معاملہ ہے۔ محترم علامہ ضمیر اختر نقوی صاحب نے اس نٸے قول ترانے کے ضمن میں یہ بھی فرمایا کہ حضرت امیر خسرو کے قول میں بے شک یہی الفاظ ہیں ۔من کنت مولا ۔ فھذا علی مولا ۔ لیکن حضرت امیر خسرو نے درحقیقت فقط دو چار مصرعوں پر ہی اکتفا کیا کیونکہ ان کی تمام تر توجہ صوتی اور تصریحی تہذیب کی بنیاد رکھنے پر مرکوز تھی اور صاحبان عرفان و بصیرت نے دیکھا سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے مولاٸے کاٸنات خلیفتہ الرسول ص جناب امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب ع کی صفاتِ جلیلہ کو قرآن و حدیث کی زبان میں اور اہم تاریخی واقعات کے تناظر میں سلیقہ مندی سے سمویا کیا ہے میں سمجھتا ہوں یہ کام ان سے کروا یا گیا اور سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کو خلق کرنے کا مقصد اس اہم مشن کا تکملہ تھا۔ علامہ ضمیر اختر نقوی نے اپنی تحریر میں سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے اس تحقیتی کام کا حوالہ بھی دیا کہ جو انہوں نے جناب امیرلمومنین حضرت علی ابن ابی طالب ع کی سیرت طیبہ پر ایک ضخیم تصنیف کی شکل میں پیش کیا۔
سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا یہ قول ترانہ من کنت مولا فھذا علی مولا لکھا گیا تو اس میں مولاٸے کاٸنات جناب امیرالمومنین ع کے فضائل کے جس انداز میں مرقعے سجائے گئے ہیں ان میں علم و عرفان کا سمندر موجزن ھے اور اگر مسلمان اس قول ترانے کو سمجھ لیں جو حقیقت میں تفسیر آیات ربانی اور تشریح احادیث نبوی ہے تو مولا کی خلافت بلا فصل ان پہ ثابت ہو جائے اور رسول پاک ص کے حکم پر عمل ہو جائے کیوں کہ رسول خدا نے حکم دیا ہے کہ حکم غدیر ہر حاضر غائب تک پہنچائے اب جسکی جتنی معرفت اور ظرف وسیع ہوگا اتنے یہ کلمات اس کے دل میں اترے چلے جائیں گے۔
آخر میں ہم دعا گو ہیں کہ مولا کریم سید فخرالدین شاہ صاحب کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائیں اور ان کے درجات بلند ہوں اور انہیں اہل بیت اطہار ع کے خاص الخاص خدمت گاروں میں شامل فرماٸے اور اہل بیت اطہار ع کی شفاعت سے بہرہ مند فرماٸے ۔ اٹلی ۔ جاپان۔ ایران۔ بھارت ۔ بنگلہ دیش۔ عراق امیریکہ ۔ آسٹریلیا اور پاکستان کی طرح دنیا بھر میں سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے تخلیق کردہ اس قول من کنت مولا فھذا علی مولا کو قبولیت عام عطا فرماٸے۔ وارث زمانہ ہم سب پہ اپنی نظر کرم فرمائیں اور ہماری توفیقات خیر میں اضافہ فرمائیں۔ آمین
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
اللهم عجل لوليك الفرج والعافيه والنصر واجعلنا من اعوانه وانصاره
دعا گو : مولانا سید ارتضی عاطف شیرازی
خطیب : مدینتہ العلم ایجوکیشن سینٹر کارپی۔ اٹلی
من کنت مولا فھذا علی مولا
سید فخرالدین بلے کا تخلیقی معجزہ = سات صدیوں بعد نیا قول ترانہ
تحریر:۔ علامہ سید ارتضی عاطف شیرازی ۔ (اٹلی)
اب پیش خدمت ہے جناب علامہ سید ارتضی عاطف شیرازی
صاحب کا مختصر تعارف
مولانا سید ارتضیٰ عاطف شیرازی ….. مختصر تعارف
آپ نےآٹھ ۔ نومبر انیس سو اکیاسی 8/11/1981 کو ایک مذہبی دینی و علمی گھرانے میں آنکھ کھولی آپ کے والد محترم گاؤں کے نمبردار ہیں اور آپ کے نانا مرحوم حجۃ الاسلام والمسلمین قبلہ سید محمد علی شیرازی بہت بڑے عالم دین تھے اور اسی طرح ان کے والد محترم حجۃ الاسلام والمسلمین قبلہ سید محمد امین شیرازی مرحوم اور ان کے والد بزرگوار حجۃ الاسلام والمسلمین سید شاہ غلام حسین شاہ شیرازی مرحوم ان بزرگان کی برصغیر پاک و ہند میں میں بہت زیادہ مذہبی دینی سیاسی و سماجی خدمات ہیں جن کو اگر بیان کیا جائے تو پوری ایک کتاب بنتی ہے خداوند قدوس ان بزرگواروں کو غریق رحمت فرمائے اور انکی قبور پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے آپ نے اپنے نانا مرحوم قبلہ سید محمد علی شیرازی کے زیر سایہ تربیت پائی اور انھی کے زیر کفالت رھے موصوف نے میٹرک کا امتحان اپنے گاؤں کے گورنمنٹ ہائی سکول سے اچھے نمبروں میں پاس کیا اور اس کے بعد دینی تعلیم کا آغاز جامعہ رضویہ عزیز المدارس چیچہ وطنی سے کیا جس کا سھرا موصوف کے نانا مرحوم کے سر ھے جھاں سے شمس الفاضل قمر الفاضل نجم الفاضل اور سلطان الفاضل بھی کا امتحان پاس کرنے کے ساتھ ساتھ رسائل و مکاسب تک حوزوی تعلیم مکمل کی اور دنیاوی تعلیم کو بھی جاری رکھا پرائیویٹ ایف اے بی اے اور بھاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم عربی کا امتحان پاس کرنے کیبعد مزید علمی تشنگی کو بجھانے کے لئے حوزہ علمیہ قم المقدسہ تشریف لے گئے جھاں دس سال تعلیم حاصل کی وھاں سے علوم قرآن و حدیث میں پی ایچ ڈی کی اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے تعلیمی و تدریسی اور تبلیغی سرگرمیوں کو بھی جاری و ساری رکھا موصوف آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی صاحب قبلہ جو کسی تعارف کے محتاج نھی مدیر حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاھور اور رئیس وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے داماد بھی ھیں موصوف نے دنیا کے مختلف ممالک میں ماہ مبارک رمضان المبارک اور محرم الحرام میں تبلیغ کے فرائض سرانجام دیے اور دے رھے ھیں
اب عرصہ ایک سال سے مدینۃ العلم ایجوکیشن سینٹر کار پی اٹلی میں دینی خدمات انجام دے رھے ھیں تقریبا 35/ 40 بچے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کر رھے ھیں جس میں حفظ و ناظرہ قراءۃ و تجوید اور احکام و عقاید و اخلاق و احادیث شامل ھیں اور اس کے علاوہ نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ باجماعت ادا کی جاتی ہے مراسم عزا بھی بھر پور انداز میں منعقد کیے جا تے ہیں۔
من کنت مولا فھذا علی مولا
سید فخرالدین بلے کا تخلیقی معجزہ = سات صدیوں بعد نیا قول ترانہ
تحریر:۔ علامہ سید ارتضی عاطف شیرازی ۔ (اٹلی)