محبوبِ رب العالمین، رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الکمال سے و اپسی پر جس اہتمام کے ساتھ مولا علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان فرمایا، وہ کسی بیان کامحتاج نہیں۔ خُمِ غدیر کی فضائیں من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کی صداؤں سے گونج اٹھیں اور پھر چہاردانگ ِعالم میں اس کی بازگشت سنائی دی. صوفیا اور اولیاء اللہ کے حلقوں میں من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کاورد ہونے لگا بلکہ یہ ان کاوظیفہ بن گیا۔ مولائےکائنات حضرت علی المرتضی ٰعلیہ السلام کےخلفا نے اپنے حلقوں میں جوروایت قائم کی تھی ، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ مولائےکائنات حضرت علی المرتضی علیہ السلام کی شہادت کے سات سو سال بعد سید گھرانے کی ایک عظیم الشان روحانی شخصیت خواجۂ خواجگاں حضرت معین الدین چشتی سنجری اجمیری نے متحدہ ہندوستان میں آکر دینِ اسلام کاچراغ روشن کیا۔ اس چراغ سے لاکھوں چراغ روشن ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا اجالا پھیلتاچلاگیا۔ یہیں سے قولِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یعنی من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کی بنیاد پر گائیکی اور موسیقی کی ایک نئی صنف قوالی سامنے آئی۔ محبوب الہیٰ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے ایما پر حضرت امیر خسرو دہلوی نے من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کو اساس بناکر قول ترانہ تخلیق کیا اور آج بھی قوالی کی محفلوں کا آغاز اسی قول ترانے سے ہوتاہے۔ قوالی کارنگ ڈھنگ بدل چکاہے لیکن جس محفل میں یہ قول ترانہ نہیں پڑھاجاتا، اسے قوالی کی محفل نہیں سمجھا جاتا اورنہ ہی وہ قوالی کی محفل ہوسکتی ہے. سات سو سال سے امیرخسرو کا قول ترانہ ہی قوالی کی محفلوں میں پیش کیاجاتا ہے۔ یہ روایت اتنی مستحکم ہوچکی ہے کہ سات سو برسوں کے دوران کسی بڑے سے بڑے شاعر نے نیا قول ترانہ تخلیق کرنے کاسوچاتک نہیں. سلام ہے چشتیہ خانوادے کے چشم و چراغ سید فخرالدین بلے صاحب کو، جنہوں نے امیر خسرو دہلوی کے بعد نیا قول ترانہ تخلیق کیا۔ جسے بجاطور پر ایک تخلیقی معجزہ قراردیا جاسکتا ہے. بلے صاحب نے حمد، نعت اور منقبتوں کے موتیوں کو ایک لڑی میں پرو دیاہے۔ پہلا بند ملاحظہ فرمائیں ۔
اللہ تو واللہ ، ھواللہ ُ احد ہے
وہ قادر ِمطلق ہے، وہ خالق ہے، صمد ہے
احمد میں اِدھر میم، اُ دھر منی و منھہ
اِک پردۂ ادراک ہے ،اِک عقل کی حد ہے
غور فرمائیے۔کچھ نہ کہہ کر اور ایمائیت اور رمزیت کاحسن برقرار رکھتے ہوئے پردۂ ادراک ہی اٹھا دیا ہے۔ اس بند میں بھی ہمیں حمد، نعت اور منقبت کا دل کش امتزاج دکھائی دیتاہے ۔تین دریا یکجا ہوکر بہنے لگیں گے تو یہ خوب صورتی دیکھی جاسکتی ہے ۔
قرآن حکیم ، ارشادات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مستند تاریخی روایات سے انھوں نے جو ثمرات سمیٹے، انھیں بڑی فن کارانہ مہارت کےساتھ اپنے قول ترانے کی زینت بنا دیا ہے۔ عربی ، فارسی اور اردو زبان کے خوب صورت الفاظ نایاب نگینوں کی طرح اس پریم مالا میں جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام سے اپنی پہلی محبت و عقیدت کا اظہار انھوں نے سیرت و شخصیت پر ایک تحقیقی کتاب “ولایت پناہ ” لکھ کر کیا تھا۔ جو نثرنگاری کاشاہ کار ہے. جب کہ اس قول ترانے میں انھوں نے اپنی محبتوں کے رنگوں کو شعری زبان بخشی ہے. میں اسے ایک تخلیقی معجزے کے سوا اور کوئی نام نہیں دے سکتا۔ اللہ تبارک و تعالی ٰ اس قابل ِ قدر کاوش کوشہرت عام اور مقبولیت ِ دوام کی سند عطافرمائے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...