آج کے TRIBUNE کی ایک تصویری خبر
——————————————
اس ضرب عضب کا کیا کہنا کہ دہشت گرد بچا ہی نہیں
محفوظ ھے یہ بستی جس میں انسان کویؑ رہتا ہی نہیں
——————————————————————
یہ باڑہ مارکٹ ھے۔آپ میں بہت ہونگے جو میری طرح اسمگل کیا ہوا الیکٹرانکس کا سامان۔۔خصوصا" روسی ٹی وی اور خواتین کے ساتھ غیر ملکی ریشمی کپڑا خریدنے کا جرم کرنے اس بازار میں گۓؑ ہوں گے اور وہاں دنبے کے گوشت کی مرحوم کی چربی میں بنی آدھی کچی پکی کڑھایؑ بھی کھایؑ ھوگی ۔۔ اس وقت پاکستان مییں کڑھایؑ گوشت کا طوطی نہیں بولتا تھا۔وہاں کھانا کھانے والوں کے درمیاں ڈالڈا کا ڈبہ پانی سے بھرا موجود رہتا تھا۔گلاس مانگنے کی بد اخلاقی مجھ سے نادانستہ سر زد ہویؑ تودیگر تین ٹیبل شریک برادران اسلام نے غصہ بھری نظروں سے مجھے گھورا اور ایک نے غرا کے کہا "خو ہم سب مسلمان بھای کی طرح پیو" اور سہم کر میں نے ڈبہ منہ سے لگالیا
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں ۔۔۔ ۔ پشاور کینٹ سے ہر اتوار کی صبح ایک ٹرین خراماں خراماں نو بجے لنڈی کوتل کیلۓ نکلتی تھی تو جوانی کی مستعدی رکھنے والے اس کوکہیں سے بھی دوڑ کے پکڑ لیتے تھے میں باڑہ لاین کے جس کوارٹر میں رہتا تھا اس کے پیچھے سے ٹرین کی پٹری گزرتی تھی اور میں دوسال گرمی سردی اس پر "چل چل رے نوجوان" کی دھن پر مارچ کرتا ایڈورڈز کالج آتا جاتا رھا جہاں سے مجھے بی اے کی سند ملی۔بر سبیل تذکرہ بتادوں کہ میرا نام "دیگر ادبی سرگرمیوں" کے باؑعث تین بار خارج ہوا پھر بھی اللہ کی شان۔۔یہ حقیر فقیرکالج میں ٹاپ کرگیا۔مجھے مارچ 1959 میں پہلے مارشل لا کے صدر ایوب خان کی صدارت میں منعقد ھونے والے کنووکیشن میں گورنر اختر حسین نے ہاتھ ملا کے ڈگری عطا کی تھی تو میری ہی نھیں دہشت سے حاظرین باتمکین کی بھی پتلونیں گیلی اگر نہیں تو ڈھیلی ضرورہو رہی تھیں
تو میں جب ٹرین کی اطلاعی چیخ جیسی سیٹی سنتا تھا تو گھر سے نکلتا تھا ور دوڑ کے ٹرین پکڑ لیتا تھا۔عموما" کویؑ میرا ہاتھ تھام کے اوپرکھینچ لیتا تھا۔مسافر اس پر چھت کے علاوہ کالے انجن پر بھی پیر لٹکا کے بیٹھے نظر آتے تھے اور جذبات کسی میلے کے شرکا جیسے ہوتے تھے۔راہ میں ایک مقام ایسا آتا تھا کہ ٹرین تو آگے ایک پہاڑی کے گرد گھوم کے آتی تھی۔جیالے پھلے ھی چھلانگ مار کے اترتے تھے اور نشیب کی جانب دوڑتے تھے تھے اور ھمیشہ ٹرین کی رونمایؑ سے قبل پھرسوار ہونے کیلۓ مستعد نظر آتے تھے۔ کامیابی کا تناسب سو فی صد کیونکہ میں نے کبھی کسی کو ٹرین کے پیچھے یوں ناکام دوڑتا نہیں دیکھا جیسے قیس صحرا میں ناقہؑ لیلےٰ کے پیچھے آبلہ پا چلتا تھا
منزل پر شام چار بجے تک کی مہلت تھی۔عیش کرو۔۔کھاو پیوپکڑایؑ نہ دو توواپس چلیں گے۔ایک بار میں کہ علاوہ مہ رخان عہد کے دیوانہ ریڈیو کا بھی تھا۔۔ جرمنی کے بنے سفید رنگ کے "ٹیلی فنکن" ریڈیو پر سو جان سے فریفتہ ہوگیا۔کسی ریڈیو ڈرامے کے کچھ ردی بیچ کے اور کچھ ابا سے دروغ گویؑ سے حاصل کردہ مال جیب میں تھا۔اللہ کا نام لے کر منجانب آسمان دیکھا اور ایک ڈاکو ٹایپ پٹھان کو 400 روپے اور پنڈی میں اپنے ٹھکانے کا پتا دے دیا۔خریداری صرف ایسے ھی ممکن تھی۔خود لے جاتا توریڈیو کسی تھانیدار کے گھر اور میں بڑے گھر پہنچتا۔کیونکہ اسمگل شدہ مال لانا سخت جرم تھا۔اگلا ہفتہ اندیشہ ہاۓ دوردراز میں گذرا۔پھر اچانک ایک شام کسی نے دروازے پر دستک دی اور میں نے سلطانہ ڈاکو جیسے خوں خوار پٹھان کی مسکراہٹ یوں دیکھی جیسے بادلوں میں بجلی چمکے اور اس نے ریڈیو مذکور مجھے پکڑا کے کہا کہ چاند سی بنو اب تیرے حوالے۔۔اورپہ ما خا دے خا کہہ کے یہ جا وہ جا۔۔
اب چلن ایسا بھی تھا کہ سمجھدار تاجراپنے پیچھے پولیس کو بھی لاتے تھے ادھر وہ رخصت ہوا ادھر آپ کی تحویل سے بغیر رسید والا اسمگل شدہ مال برآمد ھوا۔اب یہ چیز"دینی ھے کہ تھانے جانا ھے"۔طاہر ھے جسے عزت پیاری ھو وہ عزت بچاتا تھا اور پولیس برآمد شدہ مال کہیں قریب ھی موجود اصل مالک کو نصف قیمت پر واپس کر دیتی تھی،دونو خوش اور خوشحال ہوکے گھر جاتے تھے،،باغباں بھی خوش رہے راضی رھے صیاد بھی۔ ایک چیزطوایف کی طرح نہ کتنے خریداروں کو ملتی تھی پلان کے مطابق میں دوڑا ریڈیو کے ساتھ چھت کی طرف۔عین عاشقانہ اسٹایل میں درمیاں کی دیوار پھاند کے جس کی کافی پریکٹس تھی پڑوسی کی چھت پر اترا اور عقبی گلی سے ریڈیو کو محبوبہ کی طرح نکال لے گیا۔اسے ایک دوست کے گھر میں پندرہ دن چھوڑا اور جب خطرہ کویٰ نہ رھا تو رخصت کراکے اپنی خوابگاہ میں لے آیا
اس تصویر کو دیکھا تو بھت کچھ یاد آیا جو زبان خاموشی میں فریاد کناں تھی کہ ؎ دیکھو مجھے جو دیدہؑ عبرت نگاہ ھو
خبر کے مطابق ایک چاۓ والا سات سالہ آپریشن کے بعد اب بھی اس شہر خموشاں میں "خانبازہوٹل" سجاۓ بیٹھا ھے۔۔چلیں گے کبھی چاۓ پینے ،،،،،
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1004696482945703