::: " اردو کا فحش ناول نگار" : وہی وہانوی :::
اردو میں جب بھی فحش، شہوانی اد ب کی بات ھوتی ہے تو اس حوالے سے سب سے زیادہ ذکر وہی وہانوی کی فحش ناولوں کا ہوتا ہے۔ چالیس سے ستر کی دہائی تک اردو اس قدر کھلم کھلا شہوت انگیز اور فحش اور ڈرامائی جنسی حیوانیت پر لکھی ہوئی وہی وہانوی کی ناولز کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اوران ناولز پر ہندوستان اور پاکستان اس پر کوئی قانونی قدغن بھی نہیں لگائی گئی۔ { یہ کیسا ظلم ہے کہ منٹو کے افسانوں پر فحاشی کا مقدمہ چلا، پریم چند کے افسانوں اور " انگارے" کو نذر آتش کیا گیا} اور اردو کا قاری کوان فحش ناولز کا چسکہ بڑھتا گیا۔ وہی وہانونی کی اکثر ناولوں کا پس منظر ۱۹۴۷ کی بر صغیر کی تقسیم اور بالخصوص پنجاب کے فسادات اور خوریزی کے پس منظر میں جارہانہ اور حیوانی جبری جنسی عمل کی منظر کشی کی ھے۔ ان ناولز میں انسانی جسم کےاعضا کا ذکر گندی زبان میں بیاں کیا جاتا تھا۔ جسکو عام طور پر شریف اور مہذّب لوگ عام بول چال میں استعمال نہیں کرتے۔ وہی وہانوی کی ان ناولز میں قاری کے لیے جنسی اذیت میں ایک سحر انگیر جمال اور انبساط کا سامان بھی ہوتا تھا۔ یہ ناولین کھلے طور پر فروخت اور تقسیم نہِیں ھوتی تھیں ۔ ان ناولوں کو " زیر زمین"ھی فروخت کیا جاتا رہا۔ کہا جاتا ھے سعادت حسن منٹو وہی وہانوی کی ناولیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ منٹو نے وہی وہانوی کی فحش اور شہوانی ناولز سے متاثر ہو کر اپنی فحش اور شہوانی اسلوب کو کریہہ اور گندے لہجے کو دھو دھلاکر مہذّب لہجے میں پیش کیا۔کچھ لوگوں کا خیال ھے کہ وہی وہانوی کے خالق سعادت حسن منٹو تھے جب ان کو شرفاء ، قدامت پسند جننیوں نے گندہ فحش اور غلیظ ادیب قرار دینے کر بعد راندہ درگاہ کیا پھر انھوں نے ادب کے بازار میں پس پردہ رہتے ہوئے وہی وہانوی تخلیق کیا۔ ان کی وفات کے بعد اس نام کے پیچھے بہت سے چہرے بدلتے رہے لیکن منٹو جیسی بات کہاں تھی۔ ان کی جلد ھوا نکل گئی ان کا نام اب کسی کویاد بھی نہیں ھے۔ ادھر وہی وہانوی سے متاثر ھوکر ماہر القادری نے کتاب " انگڑائی"{جنسی تصویر: اور دوسرے افسانے، ۱۹۴۳، لاہور} لکھی۔ اسی زمانے میں وہی وہانوی کا نام نسیم انہونوی سےبھی جوڑا گیا اور کہا گیا کہ یہی وہی وہانوی کا دوسرا نام ہے اور یہ انکشاف بھی ہوا کی وہی وہانوی کے نام سے یہ فحش اور اوباش ناولیں شوکت تھانوی لکھا کرتے تھے۔ جب اردو میں اس گندے اور فحش ادب کو شہرت ہوئی اور مقبول ھوا تو علی عباس حسینی نے سنجیدگی سے اس کا نوٹس لیا اور ان فحش ناولز کے توڈ کے طور پر ابن صفی کو جاسوسی ناولیں لکھنے پر اکسایا۔ حسینی صاحب ایک چھاپے خانے کے مالک بھی تھے۔ انھوں نے ابن صفی کے ساتھ ملکر الہ آباد میں " نگہت پبلی کیشنز" کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا۔ مجھے یاد پڑتا ھے۔ کی ستر /۷۰ کی دہائی میں کراچی سے شائع ہونے والے "عالمی ڈائجسٹ" میں زاہدہ حنا کا وہی وہانوی سے لیا گیا ہوا مصاحبہ/ انٹرویو چھپا تھا۔ اس انٹرویو میں وہی وہانوی کی تصویر بھی تھی مگر اس میں ان کا چہرہ نہیں دکھایا گیا تھا۔ جو پیچھے سے کحینچی گئی تھی۔ وہی وہانوی کی ناولوں کو اردو کا " کوک شاستر" بھی کہا گیا۔
ایک زمانے مِیں وہی وہانوی کی ان ناولوں کو ایسی مقبولت اور تجارتی کامیابی نصیب ہوئی جو اردو کی کسی کتاب یا رسالے کو کم ہی ملی۔ اس زمانے میں رہائشی محلوں میں تجارتی بنیادوں پر لائبریاں قاَئم تھیں۔ جیاں ایک کتاب ایک "آنہ" ادا کرکے ایک دن کے لیے مل جایا کرتی تھی اور وہی وہانوی کی ناول کا ایک دن کا کرایہ ایک روپئے ہوا کرتا تھا۔ یوں بھی ھوتا تھا کہ اس ناول کو حاصل کرکے بھائی لوگ اسے چار چار آنے پر مزید آگے دو دو گھنٹے پر کرائے پر دے دیا کرتے تھے۔ انٹرنیٹ کے آنے کے بعد ان ناولوں کی طلب نے دم توڈدیا۔ کیونکہ اب کمپوٹر پر وہی وہانوی کی ناولوں جیسی فحش کہانیاں پڑھنے کی باآسانی مل جاتی ہیں۔ مگر اب نئی نسل کو وہی وہانوی کا نام نہیں معلوم، اب وہ اردو میں قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔
وہی وہانوی کی ناولوں کی فہرست یہ ہے:
ننگا شکاری، اوئی اوئی، جنسی محبت، جوانی کا انتقام، مستانی جاسوسہ، اور آگ بجھ گی، جولی، روزی، شیلا، کنواے جذبات، رنگیلا داکٹر، عیاش ڈاکٹر، رات کے شہزادے، کئی حرامزادے، رنگیلی ماں رنگیلا بیٹا، اٹھتی جوانی، تڑپتی جوانی، بہکی جوانی، زیبی، توبہ توبہ جوانی، مجبور جوانی، عیاش نازنین، آورہ پھول، کچے پھول، ننگی عورت، چالو لڑکی، لاجو، تاجو، مستانی، مستانی، کیفے گرل، عصمت فروش، مجبور جوانی، جب جوانی آئی، جب لٹ گئی جوانی، جوانی کا طوفان، جوانی کے مزے، میرا نام ہے جوانی، بے چین لڑکی، جنم جنم کی پیاسی، بھیگی شلوار، ننگا بدن، گرم جوانیاں، جنسی جوانیان بے قرار جوانیاں، الھڑ جوانیاں، کوک شاستری لڑکیاں، حسن کا چور، رات کے شہزادے۔ ننگا بدن، بھیگی شلوار ۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اسپیجسے لیا گیا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...