اللہ کے نام پر ایک نوکری کا سوال ہے بابا
————————————-
گردو پیش پر نظر کی جاےؑ تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ زندگی کے بارے میں فکر کا دایؑرہ کس درجہ حقیر حیوانی خواہشات تک محدود ہوتا جارہا ہے اور وہ عظیم تر مقاصد جو انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کر سکتے ہیں غیر شعوری طور پر ایک نسلی پسماندگی کے سفر میں ہماری نظر سے اوجھل ہو چکے ہیں۔۔ ہماری نصابی کتب تک محدودعلم سے جایؑزو ناجایز طریقے پر جان چھڑا کے "عملی زندگی" میں قدم رکھنے والے کے پاس نہvision ہوتی ہے نہ ambition کاغز کا ایک ٹکڑا لۓ وہ ہر دروازے پر دستک دیتا پھرتا ہے۔۔ اللہ کے نام پر زندگی گزارنے کیلۓ ایک نو کری کا سوال ہے بابا۔۔اوراسے اپنی کنویں کے مینڈک جیسی زندگی کی محدود خواہشات کے مطابق جہاں گزر اوقات کیلےؑ لگی بندھی آمدنی ملے وہان وہ "اپ کا تابعدار" بن کے خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔ باپ خوشی سے نہال ہوکرمٹھایؑ تقسیم کرتا ہے اور ماں اولی فرصت میں اسے ایک بیوی تھما دیتی ہے۔۔یہان ایک زندگی کا سفر تمام ہوتا ہے
پتھر کے زمانے سے انسانی زندگی کو آج کے"جدید" کہلانے والے دور تک لانے اور مستقبل کے خواب کو تعبیر دینے والے کبھی کسی کتابی علم کے محتاج نہ تھے نہ ہونگے ۔۔نہ وہ نوکری کا مفہوم و مقصد جانتے تھے۔وہ "علم" کے تین حروف سے بننے والے دوسرے لفظ "عمل" کے لوگ تھے کتاب ان کی شریک حیات ضرور رہی لیکن ان کے خواب ایسے تھے کہ پھر ان پر کتابیں لکھی گییںؑ یا انہوں نے وہ کتا بیں لکھیں جس میں وہ اپنے بعد انے والوں کو مستقبل کے خوابوں کی تعبیر کا راستہ دکھا گےؑ۔یہ عمل ہمیشہ سے جاری تھا اور رہے گا
ہیملٹن وہ بچہ تھا جو ہیملٹن کے ایک غیر معروف اور دور افتادہ گاوں میں پیدا ہوا اس کے ماں باپ کا گذارا بھیڑ بکریون کی نحدود امدنی پر تھا وہ یہی کام کرتا رہا پھٹے پرانے کپڑے اور سردی میں بکری کے کھال کا لباس پہن کر اور اسی کے جوتے پہن کر گزارا کرتا۔اچانک باپ بیمار پر گیا تو وہ گاوں چھوڑ کے شہر آگیا اور مزدوری کرنے لگا۔کیپ ٹاون یونیورسٹئ زیر تعمیر تھی ۔ہر روط کی اجرت وہ باپ کے علاج کیلےؑ بھیج دیتا اور خود چنے کھا کے کھلے میدان میں یا زیر تعمیر عمارت کے کسی حصی میں سو جاتا
یونیورسٹی مکمل ہویؑ تو اسنے تجربہ نہ ہونے کے باوجود وہیں مالی کا کاکام شروع کیا اور اپنی محنت کے ساتھ عقل استعمال کرکے تین سال میں ایک خوبصورت باغ لگا دیا ۔ایک دن اچانک اس کی زندگی کا رخ بدلا۔یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ جونز یہ طبی تحقیق کر رہے تھے کہ زرافہ جب اہنچی لمبی گردن پانی پینے کیلےؑ جھکاتا ہے تو دوران خون نیچے آنے کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔ انہون نے زرافے کو آپریشن ٹیبل پر لٹایا اور اس کے جسم کو انجکشن سے سن کر دیا لیکن وہ گردن کا اپریشن کرنے لگتے تو زرافہ بے چینی سے گردن ھلا دیتا، انہوں نے کھڑکی سے باہر جھانک کرمالی کو بلایا اور کہا کہ زرافے کی گردن کو ایسے مضبوطی سے پکڑو کہ ہلانے نہ پاےؑ ہیم؛ٹن نے تعمیل کی۔یہ آتھ گھنٹے کا آپریشن تھا جس میں سب نے وقفہ لیا اور کافی پی لیکن ہملٹن اسی طرح زرافے کی گردن پکڑے کحڑا رہا۔اس کے بعد وہ اپنے باغ میں جا کر گھاس کاٹنے لگا۔دوسرے دن بھی یہی ہوا اور پھر ایک معمول سا بن گیا،یونیورسٹی کی طبی تحقیق جانوروں پر جاری رہی اور ہملٹن لیبارٹری میں بھی کام کرتا رہا اور باغ میں بھی،،اسے کویؑ اضافی معاوضہ بھی مہیں دیا گیا۔نہ اس نے مانگا۔پروفیسر رابڑت جانز کی سفارش پر وہ مالی سے لیب اسسٹبٹ بنا دیا گیا۔اب وہ اپریشن تھیٹر میں سرجری کرنے والون کا معاون بن گیا،یہ کام اس نے کےؑسال لیا۔
م1958 میں اس کی زندگی ایک اور انقلاب سے دوچار ہویؑ جب ڈاکٹر کرسچن برنارڈ اس یونیورسٹی میں پہینچے۔انہون نے وہان انسانی تبدیلی قلب کا پہلا آپریشن کیا اس وقت تک ذاتی مشاہدے اور دلچسپی کے باعث ہیملٹن نت ٹانکے لگانا سیکھ لیا تھا اور سرجن یہ کام اس کے سپرد کر دیتے تھے کرسچین برنارڈ نے اسے اپنا معاون مقر کیا اور اسسٹنٹ سرجن بنا دیا ٹانکے لگانے کا کام وہ انتہایؑ صفایؑ اور تیزی سے کرتا تھا اور اس نے ایک دن میں 50 افراد کے زخم بھی سیےؑ لیکن ساتھ ہی وہ اس سارے عمل کو انتہایؑ دلچسپی اور غور سے دیکھتا بھی رہا،ایک وقت ایسا ایا کہ اس نے خود آپریشن کیا اور ڈاکٹروں کو حیران کردیا،اس کو سرجن بنادیا گیا اوروہ نےؑ ڈاکٹرون کی راہنمایؑ کرنے لگا حالانکہ وہ بالکل ان پڑھ تھا
1970 میں اس کیزندگی میں ایک اہم موڑ ایا اسنے جگر کی تبدیلی کے دوران ایک ایسی رگ کی نشاندہی کی جوناکامی میں اہم کردار ادا کر رہی تھی اس کے ساتھ موجود بڑے بڑے نامی گرامی سرجن دم بخود رہ گےؑ۔اس کی وجہ سے جگر کی تبدیلی کا خواب پورا ہو سکا۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کی ہیملٹن کو ان سب کی حیات نوکا ثواب تا قیامت حاسل ہوتا رہے گا ۔اس نے یہ مقام 50 سال کی محنت اور لگن سے حاصل کیا وہ اس تمام عرصے میں 14 کلومیٹر کا فاصلہ 4 گھنٹے میں پیدل طے کر کے صبح ٹھیک 7 بجے آپریشن تھیٹر پہنچتا تھا اور مشہور ہے کہ لوگ اس کیآمد سے اپنی گھڑیان ملاتے تھے اس نےکبھی اضافی معاوضہ نہیں مانگا،صرف اپنا کام کیا۔لیکن اس کا معاوضہ اور تنخواہ اسی یونیورسٹی کے وایس چانسلر سے زیادہ ہوگییںؑ،اسے وہ اعزاز ملا جو دنیا میں کسی سرجن کو حاصل نہیں ہوا ۔وہ دنیا کا پہلا سرجن تھا جس کے پاس کویؑ ڈگری نہیں تھی لیکن اس نے 30 ہزار ڈاکٹرس کو سرجری سکھای اس کا انتقال 2005 میں ہوا تو اسے کیمپس میں دفن کیا گیا اور اب یہ لازمی ہےکہ پاس آوٹ ہونے والے اس کی قبر پر جا کے تصویر بنواییں جو ایک اعزاز ہے
یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ ہیملٹن کے عزم سے زیادہ اقرار سے کہ آدمی ہر کام کر سکتا ہے وہ گلہ بان سے مزدور ۔مالی اورسرجن تک بن سکتا ہے۔کام ادمی کیلۓ ہوتا ہے آدمی ایک کام کے لےؑ نہیں۔ انگریزکی بات انگریزی میں ہے کہ جوکام ایک ادمی کر سکتا ہے دوسرا بھی کر سکتا ہے۔۔ابھی ابھی فیس بک کے مالک نے کہا ہے کہ میرے پاس 30 ہزار افراد کام کرتے ہیں جو مہارت اور صلاخیت میں کم نہیں۔۔جو کچھ وہ میرے لےؑ کرتے ہیں اپنے لۓؑ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔لیکن۔۔۔ان میں اعتماد نہیں ہے۔۔دوسری بات میں کہتا ہوں۔۔ ان سے جو زندگی کی جدو جہد کا آغاز کرنا چاہتے ہیں یا کر چکے ہیں خدا نے انسان کو صرف ایک صلاحیت دے کر دنیا میں نہیں بھیجا لیکن وہ ایک پر انحصارکرکے بیٹھ جاتا ہے۔
اپنی ہر صلاحیت کو جانےؑ۔۔نوکری نہیں کام کیجےؑ
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔