کارل مارکس کے کمیونزم کی کہانی
ایک سال قبل 14 اکتوبر کی رات دس بجے پاکستان کے ایک بڑے دانشور نے مجھ سے یہ سوال کیا تھا کہ اجمل شبیر تم کمیونزم کے حق میں ہو یا اس کے خلاف ؟اس عظیم دانشور کو میں نے یہ جواب دیا تھا کہ میں کمیونزم کے حق میں بھی ہوں اور اس کے خلاف بھی ۔اس پر وہ مسکرائے تھے۔آج میرادل کررہا ہے کہ اس دانشور کی مسکراہٹ کا تفصیلی جواب دوں ۔پہلے میں یہ بتانا چاہوں گا کہ کیوں میں کمیونزم کے خلاف ہوں؟کچھ دہائیاں پہلے روس اور چین کے علاوہ جن ملکوں میں کمیونزم نے یلغار کی تھی ،میں اس کمیونزم کے خلاف ہوں ۔ کارل مارکس کے علاوہ لینن،اسٹالن اور ماؤ وغیرہ نے اس کمیونزم کو جنم دیا تھا ۔کارل مارکس والا کمیونزم کبھی بھی کمیونزم نہیں تھا ۔اس کمیونزم نے آمریت کو جنم دیا ،غیر انسانی رویوں میں شدت پیدا کی ،غلام معاشرے پیدا کئے اور غیر جمہوری روایات کو عام کیا ۔اس کمیونزم میں افراد کے لئے کوئی عزت و احترام نہ تھا ،وہ کمیونزم فرد کی شناخت کا دشمن تھا اور انسانیت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہ تھا ۔وہ کمیونزم جو کارل مارکس کے دماغ سے نمودار ہوا وہ حقیقی طور پر غیر انسانی تھا ۔مارکس کا یہ کہنا کہ انسان مادے (matter) کے سوا کچھ نہیں۔اس کی سادہ سی تشریح یہ ہے کہ انسان زندہ رہے یا مرجائے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔یہی وجہ تھی کہ سٹالن جیسے آمر نے روس میں مارکس کے کمیونزم کی خاطر لاکھوں انسانوں کا قتل عام کرایا ۔کیونکہ اس کی نظر میں وہ انسان نہیں تھے ،ان میں کسی قسم کی کوئی روحانی بات نہیں تھی ۔وہ تو matter تھے مر گئے تو کیا ہوا؟سٹالن کے نزدیک یہی میکنزم تھا ۔اس لئے میں اس طرح کی آئیڈیالوجی کو سپورٹ نہیں کرسکتا ۔مارکس کا کمیونزم ہر اس نظریئے کو تباہ و برباد کردیتا ہے جو فرد کو طاقتور بنائے۔کمیونزم فرد کی انفرادیت کے لئے زہر قاتل ہے جبکہ وہ فرد کو اجتماع یا ہجوم کا زبردستی حصہ بنانا چاہتا ہے ۔مارکس کا کمیونزم انسانی شعور کی نشوونما کے خلاف ہے اور وہ ایک فرد کی روحانی اور مادی ترقی کے تمام دروازوں کو بند کردیتا ہے۔ایک اور بات اہم ہے وہ یہ کہ کمیونزم میں سچ کی تلاش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔انسان کبھی بھی کمیونسٹ ہوتے ہوئے اپنے آپ کو دریافت نہیں کرسکتا ۔مارکس کا کمیونزم انسان کی اندر کی روحانی دنیا کو نہیں مانتا ۔مارکس کا ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے وہ یہ کہ مارکس ایک عظیم دانشور تھا اور مرتے دم تک وہ دانشور ہی رہا ۔اس نے بے تحاشا اسٹڈی کی،لیکن وہ ہمیشہ روحانی دنیا سے ناواقف رہا ،شاید یہی اس کے کمیونزم کی بھی سب سے بڑی خامی رہی ۔مجھے کمیونسٹ انسانوں سے ہمیشہ ایک شکوہ رہا ہے کہ انہوں نے کارل مارکس کو نبی بنا دیا اور اس کی عظیم کتاب داس کیپیٹل کو بائبل سمجھ کر گھروں میں رکھ دیا ۔کمیونسٹوں کے لئے داس کپیٹل ایک الہامی کتاب کا درجہ رکھتی ہے اور الہامی کتابیں ہمیشہ گھروں میں ثواب کی خاطر لپیٹ کر کسی اندھیری جگہ پر رکھ دی جاتی ہیں اور ایسا ہی کمیونسٹوں نے داس کپیٹل کے ساتھ کیا ۔مارکس کا کمیونزم کہتا ہے کہ امیروں کو تباہ و برباد کردو اور دولت کو بہت سارے انسانوں میں تقسیم کردو ۔اس طرح غریبوں کو ان کا حق مل سکتا ہے ۔ایسا روس اور چین میں ہوا ۔لیکن روس اور چین میں اب بھی کڑوروں انسان غریب ہیں بلکہ کمیونزم کے آنے کے بعد ان غریبوں کی زندگی میں مزید بدحالی آچکی ہے ۔امیروں کو تو تباہ کیا گیا اور غریبوں کو تقسیم کیا گیا ،لیکن دولت اور امارت پیدا نہیں کی گئی جس کی وجہ سے کمیونزم انسانوں کے لئے تباہ کن ثابت ہوا ۔امیروں کی دولت غریبوں میں تقسیم کر دی جائے اور مزید دولت پیدا نہ کی جائے تو کیسے غربت ختم ہو گی ؟یہی وجہ ہے کہ میں کارل مارکس کے کمیونزم کے خلاف ہوں۔اب میں آخر میں یہ کہانی بھی سناتا ہوں کہ میرا کمیونزم کے حوالے سے ایک مختلف نظریہ ہے ۔وہ نظریہ کیا ہے ،زرا یہ بھی سن لیں ۔میرے نقطہ نظر کے مطابق کمیونزم کیپیٹالزم کے اعلی ترین درجے کا نام ہے ۔حقیقی کمیونزم کیپیٹلزم کے خلاف نہیں ہے ۔کیپیٹالزم کی خوبی یہ ہے کہ یہ سرمایہ پیدا کرتا ہے ۔دولت پیدا کرتا ہے۔کیپیٹلزم سے پہلے اس دنیا میں جاگیردارانہ یعنی فیوڈلزم کا دور دورہ تھا ۔جاگیردارانہ سسٹم دولت پیدا نہیں کرتا تھا بلکہ یہ نظام لوگوں کے مال و دولت کو لوٹتا تھا ۔انسانوں کا استحصال کرتا تھا ۔بادشاہ لوٹی ہوئی دولت پر راج کرتے تھے ۔بادشاہ غریبوں کو لوٹ کر ان پر حکومت کرتے تھے ۔وہ دولت پیدا نہیں کرتے تھے ۔جاگیردارانہ نظام کے ظلم و جبر اور استحصال کے خلاف کیپیٹلزم نمودار ہوا ۔اس نظام کی وجہ سے بے تحاشا دولت پیدا ہوئی ۔غریب امیر ہونے لگے ۔ایک سوال بڑا اہم ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔جب دنیا میں بہت زیادہ دولت ہو گی وہ کبھی بھی ایک جگہ پر نہیں رہ سکتی ۔وہ ہر صورت تقسیم ہو گی ۔،یہی سے حقیقی کمیونزم جنم لینا شروع ہوجاتا ہے ۔یہ بات اہم ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک ایسا سسٹم وجود میں آیا جس نے بے تحاشا دولت پیدا کی ۔اسی وجہ سے سائنس اور ٹیکنالوجہ نے ترقی کی ۔اب سوال یہ ہے کہ غربت اور دولت کو تقسیم کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔کیونکہ کیپیٹالزم میں ایک ایسا نقطہ بھی ہمیشہ آتا ہے جب آٹو میٹیکلی دولت گردش کرنے لگتی ہے ۔یہ دولت جو سب غریبوں تک پہنچنا شروع ہو جاتی ہے ۔اسی کا نام حقیقی کمیونزم ہے ۔غریبوں کی آمریت کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟غریبوں کی آمریت آبھی گئی جس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو کیا ہوگا ،امیر قتل کئے جائیں گے اور دولت پیدا ہونا بند ہو جائے گی اور پھر یہی غریب آپس میں جنگ و جدل کریں گے اور آخر میں وہی ہوگا غربت بڑھ جائے گی اور ہر طرف بے روزگاری اور بدحالی کا رقص ہوگا اور یہی روس اور چین میں ہوا اور اسی وجہ سے کمیونزم ناکام ہو گیا اور آج وہی چین اور روس کیپیٹالزم کے سامنے بھیک مانگتے نظر آرہے ہیں ۔کیپیٹالزم کی خوبی یہ ہے کہ یہ جمہوریت کے لائف اسٹائل کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔فرد کی آزادی کا احترام کرتا ہے ۔اظہار رائے کو تباہ نہیں کرتا ۔کیپیٹالزم کی منفرد خوبی یہ ہے کہ یہ بھکاریوں کی طرح دولت تقسیم نہیں کرتا بلکہ دولت کو پیدا کرتا ہے اور یہی وہ تخلیقی قوت ہے جو صرف کیپیٹلزم کا خاصا ہے ۔کمیونزم دولت پیدا نہیں کرسکتا ،اس کی ایک ہی خواہش ہے کہ امیروں کی دولت چھین کر غریب میں تقسیم کردی جائے ۔اسی لئے مارکس کا کمیونزم اور جاگیردارانہ نظام ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔پہلے جاگیردارانہ نظام میں بادشاہ امیروں اور غریبوں کو لوٹ کر حکومت کرتے تھے ۔کمیونزم میں امیروں کو لوٹ کر نام نہاد غریبوں کی آمریت کی بات کی گئی ہے اور ایسا حقیقت میں ہوا۔مجھے ان انسانوں پر رحم آتا ہے یا یوں کہہ لیں ہنسی آتی ہے جو اس جدید دور میں کمیونزم کے نفاز کی بات کرتے ہیں ۔بلکہ ایسے ہی جیسے پاکستان میں مذہبی علماء وغیرہ آج کے جدید دور میں چودہ سوسالہ پرانی شرعیت کے نفاز کی بات کرتے ہیں ۔دونوں احمق ہیں ۔دونوں احمقوں کی جنت کے باشندے لگتے ہیں ۔اور ایک بات جو انتہا ئی اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ کارل مارکس روس اور چین میں کمیونزم کے نفاز کے حامی نہیں تھے ۔روس اور چین تو غریب ملک تھے اور شاید اب بھی ہیں ۔کارل مارکس امریکہ اور یورپ وغیرہ میں کمیونزم کا نفاز چاہتا تھا ۔لیکن روس اور چین میں کمیونزم آگیا اور یہ بھی مارکس کے کمیونزم کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی ہو گئی ۔کمیونزم میں غلط امید دلوائی گئی تھی کہ غریبو تم جلد امیر ہو جاؤ گے ۔لیکن کیا ہوا،جہاں جہاں تھوڑا بہت کمیونزم ہے وہاں وہاں سب سے زیادہ غربت ہے۔کمیونزم مر گیا ،انقلابی مر گئے ،امید دم توڑ گئی ،غریب اب بھی غریب ہے ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکہ کا غریب ترین انسان بھی روس میں بھاری بھرکم تنخواہ لینے والے انسان سے زیادہ خوشحال ہے ۔یہ ہے کمیونزم اور کیپیٹالزم کا بنیادی فرق ۔امریکہ کیپیٹالست ملک ہے ،خوشحالی اور ترقی وہاں ٹھاٹھیں مار رہی ہے ۔سائنس اور ٹیکنالوجی وہی سے جنم لیتی ہے ۔لیکن کیا ہوا روس کے ساتھ اور وہاں وہاں جہاں جہاں کمیونزم گیا؟کمیونزم کی وجہ سے کڑوروں انسان آزادی سے محروم ہوئے ،ان کی انفرادیت مر گئی ،،کمیونزم میں انصاف نہیں تھا ،صرف بدمعاشی تھی ۔اور بدمعاش کا انجام ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کمیونزم کا ہو ا۔اس لئے میں مارکس کے کمیونزم کے خلاف ہوں ۔یہ نطام انسان کے لئے تباہ کن ثابت ہوا ہے ۔میری نصیحت کمیونسٹوں کو یہی ہے کہ وہ اب مارکس کے سحر سے باہر نکلیں اور دولت پیدا کریں ۔امارت کو بڑھائیں ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے زریعوں کو استعمال کریں ۔۔اب اس بے وقوفی سے باہر نکلیں کہ دولت غریبوں میں تقسیم ہونی چاہیئے۔اتنی دولت پیدا کرو کہ دنیا میں بے تحاشا دولت کا ریل پیل ہو ۔ایسا ہوگا تو یہ دولت دنیا کے ہر غریب تک خود بخود گردش کرے گی اور یہی سے وہ کمیونزم نمودار ہوگا جو کیپیٹالزم کا اعلی ترین درجہ ہوگا ۔اور مجھے یقین ہے ایسا کمیونزم جلد آئے گا ۔