پاکستان کا تعلیمی نظام کیسا ہو ؟ ۔۔۔۔
اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے ایک بات واضح کر دوں ، کہ نہ ہی میں کوئی ماہر تعلیم ہوں، اور نہ ہی سوشیالوجسٹ۔۔۔۔اس کے باوجود تعلیمی نظام اور معاشرے کے بنیادی پہلوؤں پر بات کرنا بطور انسان میری اولین زمہ داری ہے ۔کسی بھی ایشو پر بات کرنا میرا بنیادی انسانی حق ہے۔۔ اور سوال اٹھانا میری زندگی کا ہمیشہ بنیادی مقصد رہا ہے۔۔اس لئے آج کی کہانی میں کچھ تلخ حقائق بتانے کی کوشش کروں گا ۔میرا نقطہ نطر یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ تعلیمی نظام سچائی ،انسانیت ،محبت ،انفرادیت اور بغاوت کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔یہ تعلیمی نظام نہیں ،جہالت ہے ۔اس نام نہاد تعلیمی نظام کا ڈھانچہ ،اس کے اصول اور نظریات انسانیت اور محبت کے دشمن ہیں ۔بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ موجودہ نام نہاد تعلیمی نظام کی غیر صحت مندانہ رویوں کی وجہ سے پامال ہے ،اس لئے ہم اس دنیا کے اچھے شہری اور انسان نہیں بن سکے۔۔ ۔پاکستانی معاشرے اور استاد کے درمیان جو تعلق بنادیا گیا ہے ،وہ انتہائی خطرناک ہے۔پہلے اس تعلق پر بات کرلیتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں استاد کی اہمیت ایک غلام کی سی ہے اور معاشرہ اس استاد کا آقا اور مالک ہے ۔معاشرہ جو چاہا رہا ہے ،وہی کچھ استاد محترم کررہا ہے ۔معاشرے نے کہا کہ استاد شاگردوں میں پرانی زہر آلود روایات اور قدیمی تعصبات کو بڑھاوا دے ،اور استاد وہی کچھ کررہا ہے۔استاد شاگردوں میں دشمنی کے فلسفے کو انڈیل رہا ہے،انہیں مکار ،عیار ،جھوٹا اور متعصب بنا رہا ہے اور یہی اس ملک کا تعلیمی نظام ہے ۔استاد پرانی نسل کی بیماریاں نئی نسل میں منتقل کرتا جارہا ہے اور یہی اس کی اور معاشرے کی ضرورت ہے ۔اس تعلیمی نظام میں اندھے عقائد اور نظریات کوٹ کوٹ کر بھر دیئے گئے ہیں ،معاشرہ ،ریاست اور اسٹیبلشمنٹ ان عقائد اور روائیتی نظریات کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے کیونکہ یہ مر گئے، تو اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ ،ریاست اورا سٹیبلشمنٹ کی بھی موت واقع ہو جائے گی۔ایک وہابی باپ اپنے بیٹے کو وہابی دیکھنا چاہتا ہے ،ایک بریلوی باپ اپنے بیٹے کو بریلوی دیکھنا چاہتا ہے ،ایک سیکولر ،لبرل یا کمیونسٹ باپ اپنے بیٹے کو بھی لبرل،سیکولر یا کمیونسٹ دیکھنے کا خواہشمند ہے اور یہی اس تعلیمی نظام کی سب سے بڑی ٹریجیڈی ہے۔والدین یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ویسے ہی پرورش پائیں، جیسے وہ چاہتے ہیں ،جیسے معاشرہ چاہتا ہے اور جیسے ان کے مذہبی رہنما چاہتے ہیں ۔اور یہ سب کام استاد محترم کے زریعے کرایا جارہا ہے ۔پرانی نسل کی متعصبانہ روایات نئی نسل میں منتقل کرنے کا نام پاکستان کا نظام تعلیم ہے ۔اس کا نتیجہ کیا نکلا ہے ؟اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ، ہم وہابی بن گئے ہیں ،سنی بن گئے ہیں ،بریلوی بن گئے ہیں ،شیعہ بن گئے ہیں ،انتہا پسند بن گئے ہیں ،دہشت گرد بن گئے ہیں ،اور دنیا کے لئے خطرناک بن گئے ہیں ،اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مادی دولت تو بڑھ رہی ہے لیکن دماغی شعبہ نشوونما نہیں پارہا ،دماغی اور روحانی حوالے سے ہم زہنی مریض ہیں اور جہاں چاہتے ہیں ،خودکش حملے کردیتے ہیں ۔جب تک بچے کے نازک اور حساس دماغ پر روائیتی نظریات و خیالات کا بوجھ رہے گا ،اس کا دماغ روحانی اور دماغی نشوونما سے محروم رہے گا ۔یہ کیسا تعلیم نطام ہے جہاں معصوم سے انسانی دماغ پر سینکڑوں سالہ قدیمی تہذیب و کلچر کا بوجھ ہے؟بچے کو اس تعلیمی نظام نے انسان سے کچھ اور بنادیا ہے ۔بچے کے انفرادی شعور اور بصیرت کو کچلنے والے اس تعلیمی نطام کا خاتمہ اب ضروری ہے ۔اس تعلیمی نظام میں بچوں پر یہ شرائط لاگو کردی گئی ہیں کہ وہ اس طرح بنیں اور اس طرح نہ بنیں ۔پاکستان میں دماغی غربت کے پیچھے اس تعلیمی نظام کا ہاتھ ہے ۔ایسے تعلیمی نظام کے بارے میں کیا کہنا چاہیئے،جہاں سلمان تاثیر قتل ہوجائے تو اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔جہاں انتہا پسند عناصر ہیرو ہوں اور جہاں اقلیتی انسانوں کے قتل عام پر فخر کیا جاتا ہو ۔پاکستان میں انتہا پسندی ،دہشت گردی اور تشدد کا اصل زمہ دار یہی تعلیمی نظام ہے ۔اس تعلیمی نظام کی وجہ سے ہی انتہا پسند عناصر پاکستانی معاشرے کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ۔ہمارا تعلیمی نظام ماضی کا قصہ ہے ،یہ حال و مستقبل کی بنیادوں پر تعمیر نہیں کیا گیا ۔تخلیقی سرگرمیاں وہاں جنم لیتی ہیں جہاں تعلیم نظام کی بنیاد حال و مستقبل پر رکھی گئی ہو ۔ماضی مرگیا ،دفن ہو گیا ،لیکن ہم اس ماضی کی لاش کو بچوں کے دماغوں میں زندہ رکھے ہوئے ہیں ،پاکستان میں ان بچوں کو آئیڈیل کہا جاتا ہے، جو متعصبانہ خیالات کے غلام اور پیرو کار بنے ہوئے ہیں اور وہ جو سوال کرتے ہیں اور اپنا سچ اور حقیقت خود تلاش کرتے ہیں ،ان کو سرکش اور گناہ گار باغی کہا جاتا ہے ۔قندیل بلوچ،سبین محمود ،خرم زکی جیسے انسانوں کے قتل عام کا زمہ دار پاکستان کا تعلیمی نظام ہے ۔اس تعلیمی نظام کی بنیاد پر معاشرہ ،انتہا پسسند عناصر اور ریاست اپنے مفادات کی خاطر معصوم بچوں کا استحصال کررہے ہیں ۔اس وقت پاکستان میں استاد ،ریاست،سیاستدانوں ،انتہا پسند عناصر اور اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ ہے ۔،استاد علم ،محبت اور انسانیت کا دشمن بن چکا ہے ،استحصالی قوتیں یہ سب کچھ استاد کے زریعے کراورہی ہیں ۔سیاستدان استادوں کے زریعے تعلیم کے نام پر بچوں کا استحصال کررہے ہین ۔یہ بہت بڑا اور گھناؤنا جرم ہے جو تعلیم کے نام پر کرایا جارہا ہے۔استاد یا ٹیچر بننے کا اہل وہ ہے جس میں بغاوت کے شعلے بھڑک رہے ہوں ،جب استاد ہی باغی نہیں ہوگا ،تو پھر وہ کسی کا ایجنٹ ہو گا ،وہ کسی کی پالیسی کے مفادات کا تحفظ کرے گا ۔استاد میں بغاوت جلتی آگ کی مانند ہونی چاہیئے ۔اس کی سوچ میں مکمل آزادی اور انسانیت ہونی چاہیئے ،کیا ہمارے معاشرے میں ایسا ہے؟استاد کا مطلب ہے وہ اپنے شاگردوں میں سوالات اٹھانے کی صلاحیت پیدا کرے ،ان میں محبت اور انسانیت کا پرچار کرے ،لیکن اس تعلیمی نظام کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ محبت اور انسانیت کے خلاف پروپگنڈہ کیا جائے ،نفرت کو ہوا دی جائے ،جنگ و جدل کو انسانی زندگی کا مقصد بنایا جائے ۔جہاں جنگ و جدل اور نفرت کا درس دینا تعلیمی نظام کا مقصد ہوگا ،وہاں محبت اور انسانیت کیسے ممکن ہے؟ہمارے بچوں کو حسد کرنا سکھایا جاتا ہے ،نفرت پڑھائی جاتی ہے ،دشمنی سکھائی جاتی ہے ۔اور اسی بنیاد پر ان بچوں کو انعام و کرام اور گولڈ میڈلز سے نوازا جاتا ہے ،جو ایسا کرتے ہیں ،انہیں کامیاب قرار دیا جاتا ہے جو ایسا نہیں کرتے انہیں ناکام اور ناکارہ قراردیا جاتا ہے ۔اگر نفرت،دشمنی ،تعصب اور مقابلہ بازی ہی تعلیمی نظام ہے تو ایسے تعلیمی نظام سے بہتر ہے کہ بچہ غیر تعلیمی یافتہ رہے ۔پاکستان میں اسکول ،کالجز اور یونیورسٹیاں تشدد اور انتہا پسندی کے اڈے ہیں ۔جہالت کی فیکٹریاں ہیں ۔اور بدقسمتی سے یہ جہالت کی فیکٹریاں بڑھتی جارہی ہیں اور اسی وجہ سے انتہا پسندی بھی بڑھتی جارہی ہے ۔ہمارے تعلیمی نطام کی بنیاد لالچ اور خوف ہے ۔اگر ہمیں انسانیت کے ساتھ محبت ہے اور ہم ایک نئی دنیا پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر نئے کلچر اور نئے انسان کو پیدا کرنا ہوگا اور وہ نیا انسان تب ہی پیدا ہوگا جب نظام تعلیم کی بنیاد جدید انسانی شعورپر رکھی جائے گی۔ہمیں ماضی کی روایات کو ترک کرنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ کیوں انتہاپسند مائینڈ سٹ تیزی کے ساتھ پرورش پارہا ہے؟پاکستان کو سیاسی انقلاب کی نہیں جدید تعلیمی انقلاب کی ضرورت ہے ،ایسا تعلیمی نظام جہاں بچے سوالات کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں ۔ان کو یہ آزادی ہو کہ وہ اپنا اپنا سچ خود تلاش کریں ۔وہ یہ سوالات اٹھائیں کہ کیوں وہ دنیا میں آئے؟کیوں ان کے معاشرے میں جنگ و جدل ہے؟کیوں وہ تشدد کا شکار ہیں؟ َکیوں ان کے سماج میں غصہ ،نفرت اور تعصب ہے؟ایسا تعلیم نظام ہو کہ جب بچوں کو کہا جائے کہ وہ بھارت کے انسانوں سے نفرت کریں اور ان سے جنگ کریں تو بچے کہیں کیوں وہ ایسا کیوں کریں ؟وہ سوالات اٹھائیں کہ کیوں وہ اپنے پڑوسیوں سے نفرت کریں ۔پاکستان کے انسانوں کے خلاف دنیا بھر میں اگر نفرت ہے تو اس کی وجہ یہ تعلیمی نظام ہے ۔اس بارے میں خود بھی سوچیئے ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔