افسانوی صحافت اور رضا رومی ۔۔۔۔۔۔
پریس کلب لاہور کی دلکش پہاڑی کی چوٹی پر نصب بنچ پر براجمان رضا رومی سے جب میں نے سوال کیا کہ صحافت اور صحافیوں کو کیسا ہونا چاہیئے ؟میرے اس سوال پر رضا رومی نے کہا،نیوز جیسی بھی ہو ،بے شک اہمیت کی حامل ہوتی ہے ،لیکن پھر بھی صحافت میں اس کی اہمیت ثانوی ہونی چاہیئے۔نیوز چینلز اور اخبارات میں سب سے زیادہ زور آزمائی صرف نیوز پر نہیں ہونی چاہیئے۔نیوز چینلز اور اخبارات میں سب سے زیادہ اہمیت عوام کی خوشیوں ،ان کے دکھوں اور ان کے مسائل پر دی جانی چاہیئے۔عوام کے نفسیاتی مسائل پر بات کرنا انتہائی اہم ہے ۔اس کے بعد شاعروں ،موسیقاروں ،آرٹسٹوں اور رائیٹرز کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا جانا چاہیئے۔یہ خوبصورت دلکش اور حساس انسان ہوتے ہیں ،اس لئے یہ کسی بھی نیوز چینل، اخبار یا ٹی وی شو میں زیادہ سے زیادہ وقت لینے کے حقدار ہیں ۔سیاست اور اس سے متعلقہ ایشوز کو میڈیا میں سب سے آخر میں رکھنا چاہیئے ۔سیاستدانوں ،جرنیلوں اور مولویوں کو غیر ضروری اہمیت دینے سے اجتناب کرنا چاہیئے۔اچھی صحافت میں سیاست اور منفی پہلووں کو بھی اجاگر کیا جانا چاہیئے ،لیکن سارا فوکس انہی سیاستدانوں اور جرائم پیشہ افراد پر نہیں رکھنا چاہیئے ۔منفی خبروں سے زیادہ مثبت خبروں کی اہمیت ہوتی ہے ۔اس لئے سب سے پہلا فوکس مثبت خبریں اس کے بعد منفی خبروں کا نمبر آنا چاہیئے۔مثبت خبروں کو خوبصورتی سے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ہر حوالے سے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیا جائے ۔مثبت خبروں کی پروجیکشن ایسی نہ ہو کہ وہ حقیقت سے زیادہ افسانوی محسوس ہوں ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ منفی خبریں نیوز چینلز کا منشور نہیں ہونی چاہیئے ۔موت زندگی کا اہم ھصہ ضرور ہے لیکن زندگی کی خوبصورتی زیادہ اہم ہے۔جس پر زیادہ سے زیادہ فوکس کیا جانا چاہیئے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں برائی کی سلطنت طاقتور ہے ،اس لئے منفی خیالات ہر وقت میڈیا کی زینت رہتے ہیں ۔لیکن صحافیوں کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ منفی خیالات اور نظریات کو سپورٹ نہ کریں ۔رضا نے کہا ،پاکستانی صحافت کا ایشو یہ ہے کہ یہاں کے صحافیوں کو اچھی خبروں کے ساتھ کسی قسم کی دلچسپی نہیں رہی ۔میڈیا ھاؤسز کے مالکان کے دباؤ کی وجہ سے صحافی سنسنی خیزی پیدا کرتے ہیں ۔اور یہی سنسنی خیزی شعور اور آگہی کی موت ہے ۔لیکن صحافی کی مجبوری ہے ورنہ اسے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے ۔صحافی کی نوکری بدقسمتی سے ریٹنگ کے ساتھ نتھی کردی گئی ہے ۔اس لئے جاہل اور کم علم صحافیوں کا راج ہے جو ہر وقت ریٹنگ کی خاطر سنسنی خیزی پھیلاتے رہتے ہیں ۔میڈیا ھاؤسز کے مالکان کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان کا صحافی ہر وقت سنسنی خیزی کے چکر میں انسانی نفسیات میں زہر ،غصہ ،تعصب اور نفرت انڈیلتا رہتا ہے ۔ہر وقت جب نیوز چینلز پر منفی خبروں اور منفی خیالات کا پرچار کیا جائے گا تو انسانی نفسیات پاگل پن کا شکار ہو گی ۔سنسنی خیزی کی وجہ سے اچھائی کی اہمیت انسانی دماغ سے مٹتی جارہی ہے اور گندگی اور بے ایمانی کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے ۔رضا نے کہا ،یہ کیا بکواس ہے کہ یہاں کے صحافی کی نظر میں اچھی خبر کوئی خبر نہیں ہوتی ۔اس نظریئے کو بدلنا ہوگا ۔نظریہ یہ ہونا چاہیئے کہ گندی اور گھٹیا خبر کوئی خبر نہیں ہوتی ،بلکہ اچھی خبر ہی اصلی اور حقیقی خبر ہوتی ہے۔۔اس لئے نیوز چینلز میں زیادہ سے زیادہ اہمیت اچھی اور خوشگوار تخلیقی خبروں اور تخلیقی شخصیات کو دی جانی چاہیئے۔اس لئے نیوز چینلز میں زیادہ سے زیادہ اہمیت تخلیقی انسانوں اوران کی خبروں اور ان کے خیالات و نظریات کو دی جائے ۔لیکن پاکستانی میڈیا میں سب سے زیادہ اہمیت سیاستدانوں اور جرائم پیشہ افراد کو دی جارہی ہے۔میں نے پوچھا رضا بھائی صحافی کو کیسا ہونا چاہیئے ؟انہوں نے کہا صحافی کو نڈر اور بہادر ہونا چاہیئے جو کسی سے خوف زدہ نہ ہو ۔صحافی ایسا ہو جو سچائی کے لئے کسی بھی قربانی کے لئے ہمیشہ تیار رہے ،پریس اور الیکٹرانک میڈیا کو مکمل طور پر آزاد ہونا چاہیئے ۔ایسا میڈیا جو مالکان کے کنٹرول میں بھی نہ ہو، مالکان کے ساتھ ساتھ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول سے بھی میڈیا آزاد ہو ۔یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ میڈیا سیاستدانوں ،جرنیلوں اور چینلز مالکان سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔،لیکن میڈیا کی اہمیت اس وقت ہوگی جب وہ پابندیوں اور دباؤ سے آزاد ہوگا ۔جب ایسا ہوگا پھر ہی میڈیا معاشرے کے تخلیقی لیکن کمزور افراد کے حقوق کے لئے جنگ کر سکے گا ۔ایسے افراد جن کے پاس طاقت نہیں لیکن وہ انسانیت کے لئے عظیم خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔نیوز میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔۔۔بشرطیکہ وہ حکومت،پیمرا،اسٹیبلشمنٹ سے آزاد ہو جائے ۔ایسا ہوگا تب ہی اچھائی کی بہتر انداز میں پروجیکشن ہوگی ۔رضا نے کہا اس وقت نیوز میڈیا اس صدی کی سب سےبڑی اور طاقتور روح کی حیثیت رکھتا ہے ۔لیکن طاقتور حلقوں اور سنسنی خیزی کی وجہ سے اس کی اہمیت تباہ کن ہوتی جارہی ہے۔یہ کیا بات ہوئی کہ جی عوام سنسنی خیزی چاہتے ہیں ،یہی ان عوام کا مطالبہ ہے ۔بھائی عوام جو مطالبہ کریں گے وہی دیکھاتے جاؤ گے۔خود عوام سے مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟ان کے فکر کو بلند کیوں نہیں کرتے ؟لوگ جو چاہتے ہیں وہی دیکھاتے جاؤ گے تو اس طرح ان لوگوں کا استحصال ہوگا ۔صحافی کی زمہ داری ہے کہ وہ جو بھی رپورٹ کرے وہ فطری ہو نہ کہ غیر فطری ۔یہ بھی صحافی کو معلوم ہو کہ عوام کے شعور کے لئے کیا فطری ہے اور کیا غیر فطری ہے؟فطری خیالات کو صحافی کو سپورٹ کرنا چاہیئے۔ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ یہاں کی انسانیت قید سے آزاد ہو ۔میں نے کہا رضا بھائی یاد رکھیں صحافت بزنس بھی ہے؟اس پر انہوں نے فرمایا ،صحافت بزنس بھی ہے لیکن یہ کاروباری فوائد سے زیادہ اہم ہے ۔صحافت کو کاروباری فوائد کی خاطر بدعنوان کرنا عظیم جرم ہے اور یہ جرم پاکستانی میڈیا ھاوسز کھلم کھلا کر کررہے ہیں ۔صحافت کو کاروباری نقصان کی خاطر بھی تیار رہنا چاہیئے ۔صحافی ایک جنگجو کی مانند ہے جو معاشرے کو بہتر ،آزاد خیال اور لبرل بناتا ہے ۔اچھے اور عظیم مقاصد کی خاطر جنگ کرتا ہے ۔اس لئے صحافت ایک انقلاب ہے ،صرف اور صرف کوئی پروفیشن نہیں ۔صحافی باغی ہوتا ہے جو انسانوں کو بتاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ۔پاکستان میں اب صحاف اور صحافی کو سیاسی اور فوجی غلامی کے خلاف بھی بات کرنا پڑے گی۔اس دھرتی کا انسان ہزاروں سالوں سے سیاسی اور فوجی غلامی کا شکار ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کے انسان نفسیاتی غلامی کا شکار ہو چکے ہیں ۔۔سیاسی طور پر شاید ہم آزاد ہیں ،لیکن نفسیاتی طور پر ہم ابھی تک غلام ہیں ۔۔۔رضا بھائی کی افسانوی صحافت کی کہانی جاری تھی ۔اسی دوران میں نے انہیں کہا کہ جس طرح کی صحافت کی باتیں آپ کررہے ہیں ،حقیقت میں ایسا ممکن نہیں ۔اس پر رضا بھائی مسکرا پڑے ۔ میں اور رضارومی پہاڑی سے اترے اور بی بی پاکدامن مزار کی طرف چل دیئے۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔