میں کون ہوں اے ہم نفسو۔قسط 10-
———————————-
اچانک دست قدرت نے دوستی کے اس مربع کو تکون میں میں بدل دیا۔ ماجد ایر فورس میں تھا اور رسالپورمیں اپنی تربیت کی تکمیل کر چکا تھا۔ دستور کےمطابق اس کی نسبت ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی خاندان کی ایک لڑکی سے طے ہو چکی تھی لیکن ماجد اس سے بہت محبت کرتا تھا اور ہم سب اسے خوش قسمت قرار دیتے تھے کیونکہ اس کی منگیتر نہ صرف یہ کہ بہت خوبسورت تھی ( ہم سب اس کی تصویرماجد جے والٹ میں بارہا دیکھ چکے تھے) بلکہ ہر طرح سے اس کی ضرورت اور معیارپر پوری اترتی تھی۔دیر شادی میں ماجد کی طرف سے نہیں اس کی منگیتر کی طرف سے تھی جس کو میڈیکل کی تعلیم پوری کرنے کیلےؑ مزید دو سال درکار تھے۔ باہمی اتفاق راےؑ سے انہون نے طے کیا تھا کہ لڑکی بھی شارٹ سروس کمیشن لے کرایر فورس جوایؑن کر لے گی۔ اس طرح ان کی پوسٹنگ ایک ہے اسٹیشن پررہتی لیکن ؎تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ۔ ایک بار ماجد نےشیڈول کے مطابق سیبر جیٹ کے ساتھ پرواز کی۔ اس کی منگیتر کہیں واربرٹن روڈ پر رہتی تھی اور غالبا" اس کے والد یا بھایؑ بھی ایر فورس میں سکویڈرن لیڈر تھے ۔ ماجد کی فلایتٹ کے وقت اس کی منگیتر چھت پر آ گیؑ تھی۔ماضن نے رومانٹک ہو کے اس کو سلام محبت پیش کرنے کے لےؑ غوطہ مارا جو ایرفورس میں سلیوٹ کا انداز تھا۔ عین وقت پر فرشتہؑ اجل نے جہاز کو اٹھنے سے روک دیا۔ جہاز سیدھا اسی چھت پر گرا۔ ماجد اوراس کی محبوبہ منگیتر کا ساتھ تا قیامت عالم ارواح میں امر ہوگیا
اس المناک ھادثے کا اثرہم پر بہت عرصہ رہا جو ایک فطری بات تھی لیکن جہاں جہاں ہم چہار درویش ساتھ نظر آتے تھے وہاں اس المیہ نے سب کو سوگوار کیا۔ اج یہ سب لکھتے ہوےؑ میری نظر میں ماجد اور اس کی منگیتر کے مسکراتے چہرے ہی ہیں۔ میں نے ان کے سوختہ تن والے تابوت بھی نہیں دیکھے تھے اور تدفین کے وقت موجود ضرور تھا لیکن بھت پیچھے رہ کر مغفرت کی دعا کرتا رہا تھا
میرا دوسرا اچانک گم ہو جانے والا دوست ارشاد تھا۔۔ پشاور چھوڑنے کے بعد میں وقفے وقفے سے پشاور گیا تو ارشاد اسی شگفتہ پر خلوص مسکراہٹ کے ساتھ ملا اور مجھے اپنی کار میں لےؑ پھرا۔ ہم ہر پرانی جگہ گےؑ اور پرانے لوگوں نے ہمم دو کو بھی خوش آمدید کہا۔ ارشاد کی درسی کتابوں اور اسٹیشنری کی دکان جو صدر بازار کی ایک گلی میں تھی اب مین روڈپر لینسڈاون سینیما کے نیچے آگیؑ تھی۔" دارالادب " اب سرحد میں ٹیکسٹ بکس کے سب سے بڑے پبلشرز تھے۔ان کا پریس کارخانو بازار میں کہیں تھا اور خود ارشاد نے رہایش کیلےؑ قیوم اسٹیڈیم کے قریب بہت بڑا قلعہ نماگھربنوالیا تھا۔ گاڑی سیدھی جاتی تھی اور کھلےگیٹ سے اندر غایبؑ ہو جاتی تھی۔ایک بار میں نے کہیں بینر دیکھا"دس ہزارکا ہدیہ رکھنے والا منفرد " قرآن پاک۔۔ ملنے کا پتہ دارالادب کا تھا۔ شوروم پر مجھے اچانک یاد آیا تو میں نے اس کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ارشاد نے ایک ملازم سے نسخے منگوایا۔بلا شبہہ وہ قابل تحسین باطنی خوبصورتی کا شاہکار بھی تھا۔ میں بہت دیر اس کی دید میں عقیدت وستایش کے جزبات کے ساتھ محو رہا۔ جب میں نے اسے واپس کیا تو ارشاد نے ملازم سے کہا کہ اسے میرے لےؑ پیک کردے۔اسے روکنا اور یقین دلانا کہ میرا یہ مقصد نہیں تھا بھت مشکل ثابت ہوا۔بالاخر میں نے کہا کہ اچھا سے رکھو۔ میں دس ہزار کا ہدیہ دوںگا اوقر لے جاوں گا لیکن اس کے بغیر ہرگز نہیں۔۔ اس نے ناگواری سے مانا لیکن مجھے اس کی نیت پر اس وقت شک ہوا جب اس نے کراچی میں میرا پوسٹل ایڈریس پوچھا۔ وہ میں نے نہیں دیا ورنہ اس کا تحفہ مجھے ڈاک سے وصول کرنا پڑتا
2005 میں جہاں گردی کے بعد میں پنڈی لوٹ آیا۔ ایک صبح میں اپنی کار میں پشاور پہنچا تودارالادب پبلشرز کا شو روم بند پڑا تھا۔ادھر ادھر کے لوگ کچھ بتا نہ سکے تو میں اس کی پرانی چھوٹی سی دکان پرگیا جو اسی گلی میں موجود تھی لیکن وہ بھی بند پایؑ۔ میں نے ساتھ والی دکان کے مالک سے پوچھا تو اس نے سپاٹ لہجے میں کہا" ارشاد تو فوت ہو گیا"
میں کچھ دیر ا س خبر کے صدمے کو برداشت کرتا رہا۔پھر بہ مشکل پوچھا"کب"
دکاندار نے کہا " کافی دن ہوگےؑ۔۔ سال تو نہیں ہوا۔۔۔"
میں نے کہا " کیا ہوا تھا؟"
"کچھ نہیں۔۔ ہارٹ فیل۔۔ ادمی کا کیا پتا ہوتا ہے۔۔۔تب سے دکان بند ہے۔۔"
' اور وہ دارالادب پبلشرز۔۔ ان کا کارخانو بازار والا پریس۔۔۔ ؟" میں نے پوچھا
دکاندار نے نفی میں سر ہلایا" پتا نہیں" اور کسی گاہک کی طرف متوجہ ہوگیا۔ مین کاموشی سے باہر نکل آیا۔
مجھے بھی پتا کرکے کیا کرنا تھا۔۔ مگر مجھے ارشاد سے اخری ملاقات یاد آتی رہی۔ میرے ساتھ ایک دوست پندی سے گیا تھا اور ہم نمک منڈی میں وہی چربی میں تلے کباب کھارہے تھے۔ ارشاد نے سبز چاےؑ منگوایؑ تو میں نے کہا " میں پیپسی پیوں گا۔۔ "
اس نے کہا' پاگل ہوگیا ہے تو؟ پشاور میں دیکھا کسی کو کباب کھا کے پیپسی پیتے؟"
میں اپنی بات پر قایم رہا"اج پشاور والے مجھے دیکھیں گے"
"مرجاےؑ گا بالے۔۔بیوہ مجھے کوسے گی"
میں نے کہا" تو کسی کے کوسنے سے نہین مرتا۔۔مجھے مرنے دے"
اس نے رونی صورت بنا کے میرے دوست سے کہا" تم جاواس کی بیوی کو بتا دینا کیونکہ شام تک یہتو مرجاےؑ گا'
اگاہ اپنی موت سے کویؑ بشر نہیں۔۔ کتنا گھسا پتا شعر کیسے سچ ہو گیا تھا۔ میں زندہ تھا اوروہ مرگیا تھا
وقت نے یہ زخم بھی مندمل کردیا۔ دہ سال بعد میرا پھر پشاور جانا ہوا۔ اپنے ستھ میں بیوی کو بھی لے گیا تھا۔ میں اسے تمام پرانی جگہیں دکھانا چاہتا تھا۔ میرا قیام حیات اباد میں ایک دوست عطاالرحمنٰ کی کوٹھی میں ہوا جو واپڈا میں نیلم جھلم پروجیکٹ کا چیف انجینییؑر تھا لیکن دوستی نبھانے اور آداب میزبانی میں وہ اس کی بیوی اور دو ڈاکٹر بیٹیاں خلوص اور محبت مین ہمیشہ سب سے آ گے رہے کہ بس چلتا تو ہمارے قدموں میں اپنی جان بھی بچھا دیتے، ہم ان کی کار میں نکلے تو ہر یادگار جگہ کو دیکھا اور سب بچھڑ جانے والوں کو یاد کیا۔ رات کو میرا موڈ پنیر کے پکوڑے کھانے سے زیادہ بیوی کو کھلانے کا بنا کیونکہ یہ چیز اور کسی شہر میں دستیاب نہ تھی۔گاڑی سڑک پر دارالادب کی اور لینسڈاون سینیما کی ویران عمارتوں کے سامنے سڑک کی دوسری طرف رکی جہاں ہماری پرانی مخصوص دکان موجود تھی تو ارشاد کو یاد کرکے بے اختیار دل سے اہ نکلی
پھر دکان والا آگیا" پکوڑے تو نہیں ہیں۔۔ پنیر ختم ہوگیا"
"اچھا۔۔ ؟ یار میں تو بیوی کو پہلی بار لایا تھا۔۔ خود تو بہت کھاےؑ ےھے ہم نے"
اس نے مجھے غور سے دیکھا" اپ چار لوگ اتے تھے نا"
میں نے حیرانی سے کہا: "تم نے کیا مجھے پہچان لیا۔۔ 40 سال بعد۔۔"
اس نے کہا" ایک تو وہ سامنے والے ارشاد صاحب فوت پوگےؑ۔۔۔ ایک بھت پہلے جہاز کے حادثے میں مارا گیا تھا"
میں دم بخود رہ گیا" ہاں۔۔ ماجد۔۔ مگر میرا چھوتا بھایؑ ہے کراچی میں۔۔تم یہیں ہو؟"
" جی۔۔ لیکن اس وقت میں ویٹر تھا۔۔ اب مالک ہوں۔۔جگہ خرید لی تھیمیں نے۔۔آپ ایک منٹ ٹھرو۔۔میں لاتا ہوں پنیر۔۔"
پنیر آنے تک ہم اس شخص کی یادداشت پر اش اش کرتے رہے۔لیکن اس وقت میں فرط جذبات سے گنگ ہوگیا جب اس نے پی۔سے لینے سے انکار کر دیا
'آپ کمال کرتے ہو جی۔۔بھابی پہلی بار آیؑ ہے اور اپ اسے کراچی سے لاےؑ ہو۔ گھر ہوتا تو کچھ دیتا۔۔یہان دکان پر لوں؟ اللہ معاف کرے مجھے۔۔اتنا کمینہ نہیں ہون میں بھابی جی" وہ روہانسا ہوگیا۔میری بیوی نے نیچے اتر کے اس کا شکریہ اداکیا اور اس کا پتا بھی لیا لیکن ہم اس کے گھر نہیں گےؑ۔اس کی وہ صورت آج بھی میری نظر میں پھرتی ہے۔ اگلی صبح میں اور بیوی میزبانوں کے گھر کے بہت خوبصورت باغ میں بیٹھے تھے تو میں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ باغ کی آرایؑش میں مجھے مالی سے زیادہ خاتون خانہ کا ہاتھ لگتا ہے
بیوی نے حیرانی سے کہا" وہ کیسے؟"
میں نے کہا " سبزہ و گل سےایسی مینا کاری کویؑ عورت ہی سوچ سکتی ہے۔۔ مالی اتنی محنت کب کرتے ہیں"
اتنی دیر میں خاتون خانہ نکل آیؑ تو بیوی نے اس سے کہا
وہ ہنسنے لگی اور خوش ہویؑ کہ کسی نے اس کی محنت کو سراہا تھا"بالکل ٹھیک کہا بھایؑ نے۔۔ میں مالی کے سر پر سوار رہ کے کام کراتی ہوں ورنہ وہ تو بیگار ٹالتے ہیں" ہم نے وہیں ناشتہ کیا پھر میزبان ہمیں کارخانو بازار عرف باڑے لے گےؑ۔ وہاں سے دو اسمگل شدہ کپڑے کے دو قیمتی سوٹ میری بیوی کودےؑ اور ایک میرے لےؑ خریدا کچھ دیگر گفٹ اییؑٹم لےؑ ۔پٹھانوں کی روایتی مہمان نوازی کے ساتھ یہ ان کا خلوص تھا اور محبت تھی جس نے ہمیں ان کا گرویدہ کردیا۔ چند مہینوں میں ہمارے تعلقات ایسے ہوگےؑ کہ اکثر برسوں میں نہیں ہو پاتے۔۔۔ لیکن پھر کیا ہوا؟
ایک صبح ہم کراچی میں تھے کہ عطاالرحمان کا فون آیا " میری بیوی کا ہارٹ فیل ہوگیا ہے۔ ایک بجے جنازہ ہوگا"۔۔ شاک سے میں گنگ ہوا تو اسے یہ بھی نہ بتا سکا کہ میں تو کراچی میں ہوں۔ چند ماہ بعد ہی عطالرحٰمن بھی مفلوج ہوکے دنیا سے گیا
ان یادوں کو دہراتے ہوےؑ احساس ہوتاہے کہ پشاور نے ہی مجھے مفارقت کے سب سے گہرے زخم دےؑ.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔