داستان امیر خسرو
آج دوستو میں آپ کو تیرھویں اور چودھویں صدی کی رنگا رنگ ،شاندار اور امر شخصیت سے ملاقات کراتا ہوں جس نے عشق و محبت کے سنگیت سے دنیا کو خوبصورت بنادیا ۔بربادی ،آبادی ،تباہی ،تعمیر ،جنگ اور امن کے درمیان اس جینئیس انسان نے زندگی کے 72 سال گزارے ۔آیئے 1253سے 1325 کے درمیان انسانیت میں عشق و سنگیت کی خوشبو پھیلانے والے اس انسان کی زندگی کے کچھ گوشوں کے مناظر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔امیر خسرو دہلی کے وہ پہلے مفکر تھے جو اردو ہندی کی جنم داتا ہندوی کے بھی پہلے شاعر تھے ۔جنہوں نے چار لاکھ سے زائد شعر فارسی میں لکھے ،آج دنیا کی تمام بڑی بڑی لائبریریوں میں ان کا کلام ہے ،دنیا انہیں امیر خسرو دہلوی سے پکارتی ہے ۔امیر خسرو کے والد ترک ہندوستانی تھے اور ماں ایک خالص ہندوستانی تھی ۔امیر خسرو سات سو سال پہلے کے ایک زبردست اور بے مثال ہندوستانی شاعر تھے ۔کہا جاتا ہے کہ شاعروں میں ان سے بڑا مورخ کوئی نہیں گزرا ،تاریخ لکھنے والوں میں ان سے بڑا کوئی شاعر نہیں تھا ،انہوں نے صرف شاعری نہیں کی بلکہ اپنے زمانے کی تاریخ بھی لکھی ۔اس عظیم ہستی نے ایشیاٗ کے سنگیتوں اور سازوں کو ایک ساتھ ملایا اور فن سے مالا مال کردیا ۔امیر خسرو کو سنگیت کا آقا کہا جاتا ہے ،امیر خسرو کی شاعری اور سنگیت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔،خسرو کی شاعری بنیادی طور پر سنگیت ہے ،یہ دنیا کے وہ واحد صوفی اور فقیر شاعر تھے جنکی شاعری اور سنگیت کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ۔بڑے بڑے استادوں اور گانے والوں نے خسرو کا کلام گایا ،کلام خسرو کو ان استادوں نے فارسی ،کھڑی بولی میں دنیا بھر میں پھیلایا ۔خسرو جب زندہ تھے تو اس وقت ہی انہیں یہ خطاب دیا گیا تھا کہ وہ طوطی ہند اور شیریں بیاں ہیں ۔اردو اور فارسی کے عظیم شاعر مرزا غالب جو ہندوستان میں کسی فارسی شاعر کو نہیں مانتے تھے انہوں نے بھی کہا تھا کہ ، غالبؔ مرے کلام میں کیوں کر مزہ نہ ہو ، پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پاؤں ،امیر خسرو نے فارسی میں چار لاکھ سے زائد شعر لکھے تھے ۔یہ شعر آج بھی دنیا کے تمام ملکوں کی لائبریری میں محفوظ ہیں ،دنیا کی ہر زبان میں خسرو کی شاعری کے ترجمعے ہو چکے ہیں اور نغمے گانے والے دنیا بھر میں ان کے نغموں کی الہامی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔درویشوں اور فقیروں نے بھی ان کے کلام کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے ۔اس زہین ترین اور درویش انسان نے ہندوستان کی منفرد اور مختلف تہذیبوں اور زبانوں کی سیر کی ،جہاں جہاں زندگی کے شب و روز گزارے ،وہاں وہاں اپنے نقوش چھوڑے ،ہر کلچر کے رسم و رواج اور زبان سے عشق کیا اور پھر اس عشق کو سنگیت کے زریعے انسانیت میں عام کیا ۔ساڑھے چار سال تک ملتان رہے ،ایران و عراق اور عرب سے آنے والے فنکاروں کے آلاپ کو پنجاب و سندھ کے لوک گیتوں سے جوڑا ،غالب کی طرح ایران نے بھی ہندوستان کے کسی فارسی شاعر کو تسلیم نہیں کیا تھا ۔مگر امیر خسرو کا فارسی کلام ایران میں الہام کی شکل اختیار کر گیا ہے ،ایرانی امیر خسرو کے کلام کو مقدس سمجھ کر گھروں میں رکھتے ہیں ،یہ کلام پڑھتے ہیں ،اور زندگی کا لطف لیتے ہیں ۔کبھی موقع ملے تو ایران کی ایک باکمال خاتون ہماپرتوی کی وہ غزلیں سنے جو امیر خسرو کی تحریر کردہ ہیں ،اس خاتون نے کلام امیر خسرو اس درد بھری آواز میں گایا ہے کہ سنگیت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کردیا ہے ۔قازقستان میں خسرو کو گانے والے فنکاروں کو ولی جسی عزت سے نوازا جاتا ہے ۔قازقستان کے شہروں اور قصبوں میں لاکھوں حلقے بنے ہوئے ہیں جہاں خسرو خانی کی جاتی ہے ،امیر خسرو کے گیت اور سنگیت سنٹرل ایشیاٗ اور ترکی میں ہر روز گائے جاتے ہیں ۔ہندوستان میں استاد امیر خان مرحوم نے امیر خسرو کو بھرپور انداز میں گایا ،آج ان کے شاگرد جو ہزاروں کی تعداد میں ہیں امیر خسرو کے گیت و سنگیت سے ہندوستان میں امیر خسرو کے رنگ بکھیر رہے ہیں ۔خواجہ نظام الدین اولیا سے امیر خسرو کو عشق تھا ،وہ ہمیشہ خواجہ نظام الدین اولیا کے ہمدہم اور ہمراز رہے ،امیر خسرو کا فارسی کا ایک شعر ہے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ ائے پیر و مرشد ںظام الدین تم حسن و عشق کے بادشاہ ہو ،اور خسرو تمہارے در کا فقیر ہے ۔ایک راجکما تھا ،جس کا نام ہر بید تھا ،وہ ہندوستان کے علاقے مراٹھوار سے سچائی کی تلاش میں نکلا ،دہلی پہنچ گیا ،ایک عرصے تک امیر خسرو کی صحبت میں رہا اور پھر خواجہ نظام الدین کا مرید ہو گیا ،وہ اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین اپنے مریدوں اور صوفیوں کو لیکر شہر سے باہر زیارت کے علاقے کے سفر پر نکلے ،دن ڈھل چکا تھا ،قافلہ کھیتوں میں چل رہا تھا ،دور سے ایک کسان نغمہ گا رہا تھا ،شاید کھیت کو پانی دیتے وقت وہ گیت گا رہا تھا ،خواجہ نظام الدین کو وہ نغمہ پسند آیا ،نظام الدین اولیا نے کہا یہ کسان کیسے کائنات کے خدا کی تعریف کررہا ہے ،خسرو تم بھی کچھ سناو،خسرو نے اس موقع پر ایسا کلام سنایا کہ پھر سب صوفیوں نے ملکر وہ کلام گایا ،یہ کلام اس طرح گایا گیا کہ کائنات تھم گئی ،سماں بندھ گیا ،ایسے لگا جیسے تمام صوفی پرندے بنکر آسمان میں رنگ بکھیر رہے ہیں اور خدا خوش ہورہا ہو۔یہ تھے امیرخسرو ۔امیر خسرو وہ ہستی ہیں جو فارسی ،عربی اور ترکی میں شاعری کرتے تھے ، لیکن جگہ جگہ کے لوک گیتوں کو عوامی بولوں میں بدل دیتے تھے ۔سب گیت اور سنگیت اپنے اندر سمیٹ لیتے تھے اور پھر ان سنگیتوں کو الہامی رنگ دیکر کائنات میں اس کے سر بکھیرتے تھے ۔خسرو وہ تھا جو زبان کو سنگیت دے کر پرندوں کی طرح آزاد فضاٗ میں چھوڑ دیتا تھا ۔پھر امیر خسرو کے گیت و سنگیت ہوا میں لہراتے نظر آتے تھے ۔ہندوستان اور پاکستان کے قوال اور استاد آج بھی خسرو کا نام لیکر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور پھر سنگیت چھیڑتے ہیں ۔امیر خسرو کے زمانے میں فارسی کا رنگ ملکوں ملکوں اس طرح پھیلا ہوا تھا جس طرح آج دنیا بھر میں انگریزی زبان کی بادشاہت ہے ۔وہ امیر خسرو جس نے فارسی کلام کو ہندوستان سے ترکی اور یورپ تک پھیلایا ،ترکی میں مختلف زبانوں میں اور خاندانوں میں کلام خسرو گایا جاتا ہے ،اور اسے ایک اعلی مذہبی درجہ حاصل ہے ،وہ ایسا انسان تھا جس نے کاغذ اور قلم تک کے دام نہ پائے ،وہ آخری دم تک اپنے وجود کی تنہائی کا شکوہ کرتا رہا اور کائنات میں رنگ بکھیرتا چلا گیا ۔افغانستان کے علمی و فکری حلقوں میں امیر خسرو چھایا ہوا ہے ،وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ افغانیوں کی روز مرہ زندگی میں امیر خسرو رچ بس گیا ہے۔خسرو ایک مسافر اور فقیر آدمی تھا جو شہر شہر جاتا تھا ،جس کی صرف ایک خواہش ہوتی تھی کہ سب اس پر نظر کرم کردیں ،اس سے پیار کریں ۔پھر 1325 عیسوی کا ایک دن آگیا ،وہ دردناک دن تھا ،وہ دن وہ تھا جب امیر خسرو کے پیر و مرشد اور دہلی کے بادشاہ و فقیر خواجہ نظام الدین اولیا انتقال کر گئے ۔پھر کیا تھا امیر خسرو کا زخمی دل دنیا کے میلوں ٹھیلوں سے اٹھ گیا ۔وہ روتا ہوا بنگال سے دہلی پہنچا ،دہلی میں ہندو و مسلم سوگوار تھے ۔دکھ اور سوگ میں چھ ماہ بعد امیر خسرو بھی اس جہان فانی کو چھوڑ کر چلے گئے ۔آج بھی حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر ہر وقت امیر خسرو کا کلام اپنی خوشبو بکھیر رہا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔