جیو نیوزپر جعلی خبر ۔۔۔۔ایک کہانی
سوشل میڈیا پر تو پہلے ہی سے جھوٹ ،پروپگنڈے اور جعلی خبروں کا بازار گرم ہے ۔ایک دو نیوز چینل ایسے ہیں جن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ ان کی خبروں کی کریڈیبیلیٹی ہے اور کسی حد تک وہاں تحقیقی یا تحقیقاتی رپورٹنگ ہورہی ہے ۔جیو نیوز ان دو ایک چینلز میں شمار ہوتا ہے ۔لیکن اب تو جنو نیوز بھی پروپگنڈہ اور جعلی خبریں آن ائیر کرنے میں نمبر ون نظر آرہا ہے ۔جیو نیوز پر پر ایک نیوز پیکج چلا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے ،تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان دور جوانی اور کرکٹ کھیلنے کے دور میں ہر آنکھ کا تارا تھے ،وہ سپر اسٹار تو تھے ہی،جاذب نظر بھی تھے ،خواتین میں ان کی مقبولیت اپنی مثال آپ تھی ۔آسٹریلوی ماڈل گرل کے ٹوئیٹ نے ان کے پلے بوائے ہونے کی یاد تازہ کردی ۔سوشل میڈیا پر آنے والے یہ مبینہ ٹوئیٹ بظاہر جعلی ہے ،لیکن لوگ اس ٹوئیٹ کو ہزاروں کی تعداد میں ری ٹوئیٹ کررہے ہیں ۔آسٹریلوی ماڈل لارا بنگل نے اپنی جعلی ٹوئیٹ میں عمران خان پر جنسی حراساں کرنے کے الزامات دھڑ دیئے ہیں ۔لارا بنگل نے عمران خان کے حوالے سے ہاروی وین سٹائن کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے جعلی ٹوئیٹ میں لکھا ہے کہ ہاروی وین سٹائن تو عمران خان کے قریب ہی نہیں ،لارا بنگل نے کہا ہے کہ 2013 میں عمران خان نے لندن میں انہیں جنسی طور پر حراساں کرنے کی کوشش کی تھی ۔یہ دیکھ کر وہ سکتے ہیں آگئی تھی ۔۔۔یہ جیونیوز کے نیوز پیکج کے الفاظ تھے ۔اچھا خود ہی خبر میں کہا جارہا ہے کہ یہ جعلی ہے ،لیکن عمران خان ایسے تو ہیں ،خبر کے ساتھ کسی شخصیت کو بدنام کرنے کے لئے اپنا متعصبانہ تبصرہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے ۔خود ہی کہنا یہ جھوٹی خبر ہے ،لیکن کیونکہ وہ ایک زمانے میں پلے بوائے بھی تو تھا ۔اب اس لارا بنگل کے بارے میں حقیقی اور اصلی تفصیلات میں بتائے دیتا ہوں ۔لارا بنگل ایک آسٹریلوی ماڈل اور ٹی وی اسٹار ہیں ۔ایک بزنس وومن ہیں ،جن کا ایک حقیقی ٹوئیٹر اکاونٹ بھی ہے ۔جس ٹوئیٹر اکاونٹ سے خبر لی گئی ہے ،وہ جعلی ہے ،مس لارا بنگل کے اصلی ٹوئیٹر اکاونٹ کا نام لارا ورتھنگٹن کے نام سے ہے ۔حقیقی ٹوئیٹر اکاونٹ 2010 میں بنایا گیا تھا ۔جبکہ جس جعلی ٹوئیٹر اکاونٹ سے جعلی خبر دی گئی ہے وہ 2017 میں بنایا گیا ہے ۔اچھا جعلی ٹوئیٹر اکاونٹ میں عمران اور لارا کی جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ بھی اصلی ہے جو لارا ورتھنگٹن کے بلاگ سے لی گئی ہے جس کا نام ہے lara worthington on line .اگر اس حقیقی بلاگ پر جائیں تو لارا نے لکھا ہے کہ وہ عمران خان سے لندن میں فنڈ ریزنگ کی ایک تقریب میں ملی تھی ،یہ اس وقت کی تصویر ہے ۔انہیں عمران خان جیسی شخصیت سے ملکر خوشی ہوئی ،یہ بھی لارا نے بلاگ میں لکھا ہوا ہے ۔لارا ایک زمانے میں آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے کپتان مائیکل کلارک کی گرل فرینڈ رہی ہیں ،اس لئے کرکٹ سے بھی ان کا تعلق رہا ہے ۔لارا بنگل کا شادی کے بعد نام لارا ورتھنگٹن ہوگیا ہے اس لئے ان کے ٹوئیٹر اکاونٹ کا نام بھی @Lara Worthington ہے۔کیا اسے صحافت کہتے ہیں کہ دشمنی میں آپ پاگل ہو جائیں ،پروپگنڈہ کریں اور کسی کی کردار کشی کریں ۔اس جھوٹی اور جعلی خبر کو جیو نیوز جیسے چینل پر باوقار انداز میں چلایا گیا ۔ہاروی وین سٹائن کا حوالہ دیا گیا ،جو ایک پروڈیوسر ہیں ،جن کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ وہ ہالی وڈ اداکاروں کا ریپ کرتے رہے ہیں ،جیو نیوز پر عمران خان کو ہاروی سے ملاکر کیا کہنے کی کوشش کی گئی ؟ٹائمنگ بہترین تھی ،عمران سے نفرت کا اظہار پھر جیو نیوز نے اس خوفناک انداز میں دیکھایا ۔اسے کہتے ہیں گھٹیاترین صحافت ۔دنیا نیوز کا بلاگ بھی اس جعلی خبر پر شائع ہوا،جس کے الفاظ تھے ،عمران خان پر عائشہ گلہ لئی کے الزامات کے بعد آسٹریلوی ماڈل کا عمران خان پر جنسی طور پر حراساں کرنے کا الزام ۔خدا کا خوف کرو یار ،کیا یہ جرنلزم ہے ،کیا اسے صحافت کہتے ہیں ،میڈیا میں اخلاقیات کا تو پہلے ہی جنازہ نکل چکا ہے ،اب میڈیا دشمنی اور نفرت میں بھی سب پر بازی لے گیا ہے ۔اچھا ایک تو جعلی خبر چلائی ،جس کے بارے میں خود تسلیم کیا کہ جعلی ہے،پھر اس خبر کی اینگلنگ اس طرح کی گئی کہ خدا کی پناہ ۔اس طرح کے خونی پروپگنڈے کے بعد شرم کرنی چاہیئے تھی ،غلطی تسلیم کرنی چاہیئے تھی ،لیکن جیو نیوز پر دو دن تک یہ خبر آن ائیر ہوتی رہی ۔یہ ہے جیو نیوز کی پالیسی جس کے بارے میں میری خوشفہمی تھی کہ کسی حد تک یہ چینل بہتر جارہا ہے ۔جیو نیوز والو کچھ تو شرم کرو ،اپنی کریڈیبیلیٹی کو دشمنی اور نفرت کی بناٗ پر کیوں تباہ کرتے ہو؟چینل خود کہہ رہا ہے بظاہر خبر جعلی ہے لیکن پاکستان کے جاہل لوگو یہ خبر انجوائے کرو ،لعنت ہے ایسے میڈیا پر
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔