::: " تخلیقی تنقید" :::
تخلیق کے ساتھ اس کی انتقادات فکری آفاق میں مختلف النوّع اجزاء کے ساتھ بکھرے ہوئے ہیں٫ یہ آفاق تخلیقیت کا " کل" ہے اور تخلیقی تنقید اس کو توسیع ہوتی ہے۔ جو فردیاتی سطح پر ایک مفروضاتی اوربعض دفعہ اجتہادی خود کلامیہ مکالماتی اسلوب و ادا سے " کائنات اجتماعی" خلق کرتا ہے۔ ارسطو کاتنقیدی کارنامہ(Poetics)جس کے کئی تراجم اردومیں بوطیقا کے نام سے ہوئے ۔تھیٹر کی منظوم شاعری پر تنقید ہے اس میں ارسطو نے تنقید کے جملہ لوازمات کوملحوظ رکھا ۔اس پر ’’ تنقیداور تنقیدی شعور‘‘میں تبصرہ کرتے ہوئے ناظر کاکوروی لکھتے ہیں کہ:"’دنیا میں تخلیق کا عمل تنقید سے پہلے کا کام ہے یہی وجہ ہے کہ ارسطونے جب المیہ کے بارے میں اپنی مشہورعالم رائے دی تھی تواس نے اس دورکے اعلیٰ درجے کے ڈرامہ نویسوں کی تخلیقات کواپنے سامنے رکھا تھا " تنقید اور تخلیق کے باہمی رشتے کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح شاعر یا ادیب فن کی تخلیق سے پہلے کسی نہ کسی مفہوم میں ناقد ہوتا ہے۔ اسی طرح ناقد کو بھی تنقید سے پہلے فن پارے میں مضمر تاثرات و تجربات سے اسی طرح گزرنا ہوتا ہے جس طرح اس فن پارے کا خالق پہلے گزر چکا ہوتا ہے۔ یعنی فنکار اپنے تجربات و تاثرات کے انتخاب اور ترتیب میں ناقدانہ عمل کرتا ہے۔ علاوہ ازیں فن کی روایت اور تکنیک سے بھی اس کی واقفیت ضروری ہے، جس کے باعث وہ خود اپنے فن پر تنقیدی نظر ڈال سکتا ہے۔ جس طرح فن کی تخلیق سے پہلے فن کار اپنے مواد کے رد و قبول اور روایت فن کے بارے میں تنقیدی عمل سے گزرتا ہے اسی طرح فن کی تخلیق کے بعد بھی اسے ناقد بننا پڑتا ہے۔ وہ خود اپنے تخلیق کردہ فن پارے کو بہ حیثیت ناقد دیکھتا ہے۔ اس کے حسن و قبح پر نظر ڈالتا ہے، اس میں ترمیم و تنسیخ کرتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فن کی تخلیق سے پہلے اور فن کی تخلیق کے بعد تخلیقی فن کار ناقد کا رول ادا کرتا ہے۔ تخلیق کا عمل ہی تخلیقی تنقید کا جواز ہے اور یہی اس کو جنم دیتی ہے۔ تخلیق کے بغیر تنقید کی مباحث کو " مھملیت" تصور کی جاتی ہے اور اسے" مجذوب کی بڑ" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ تخلیقی ادبی تنقید تحسین و ستائش اور سکون، سکوت اور کبھی جمود کے مراحل سے بھی گذرتی ہے۔ اس عمل سے وہ گذر کر وہ خود ایک " تخلیقی تنقید" کا عمل علمی ہوجا تا ہے۔ اس تخلیق کی جمالیات کی ہیت اور ساخت کو زیرک اور باشعور قاری محسوس کرلیتا ہے۔ یوں تنقید کے اس " نقد عالم" کی من و تو کی دنیا میں ایک دانشور یا عالم بھی وجود میں آجاتا ہے۔ جو کسی نہ کسی طور پر کسی کرشمہ قدرت سے کم نہیں ہوتا ۔ یہی تخلیقی تنقید کا خمیر ہے۔ عمران شاہد بھنڈر نے لکھا ہے "ناقد اور تخلیق کار کی ثنویت کو حتمی سمجھ کر تخلیق کارکو ناقد پر اہمیت دینا عہد حاضر کے منطقی علوم اور متن میں موجود معنویت سے ناآشنائی کا نتیجہ ہے۔ حتمی تفریق پر مبنی ثنویت کا تمام فلسفہ ہی ناقابل مدافعت ہوچکا ہے۔ اس پس منظرمیںقضیہ یہ جنم لیتاہے کہ کیا تنقید اور تخلیق دو الگ الگ اصناف ہیں، جن کا آپس میں سرے سے ہی کوئی تعلق نہیں ہے؟ تنقید اور تخلیق کے درمیان ایک جدلیاتی تعلق موجود ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ تخلیق کے اندر تنقید پائی جاتی ہے اور تنقید کے بطن میں تخلیق موجود ہوتی ہے۔ ایک اعلیٰ فن پارہ اور ایک اعلیٰ تنقیدی طریقہ کار جو محض تخلیق کار کی منشا و مرضی کا پابند نہ ہو، جو تفہیم، تعبیر اور تخلیقی تشریح کے عمل سے گزرے، حقیقت میں ایک اعلیٰ تخلیق کا ہی نمونہ ہوتا ہے۔{تنقید اور تخلیق کی جدلیات ، ایکسپریس نیوز لاہور، 10جنوری 2015} تخلیق اور تنقید آپس میں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔کیونکہ ایک تخلیق کار بنیادی طور پر تنقید نگار بھی ہوتا ہے۔اسی لیے وہ تخلیقی عمل کے دوران تنقیدی شعور سے بھی کام لیتا ہے۔تخلیق اور تنقید اصل میں دو الگ الگ شعبے ہیں۔تخلیق ایک فن ہے اور تنقید کسی بھی فن پارے کا تجزیہ کرنا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تنقید دراصل کسی بھی فن پارے کو پڑھنے کی طرف ہمیں راغب کرتا ہے۔تخلیق کار تخیل سے کام لیتا ہے اور اسی کی روشنی میں کسی بھی تخلیقات کا تجزیہ کرتا ہے۔بعض نقاد نے تنقید کو ‘Recreation’ بھی کہا ہے۔تنقید نگار اسی طرح فن پارے کو سمجھتا ہے جس طرح فنکار نے تخلیق کرنے کی کوشش کی ہوتی ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اچھے تنقیدی شعور کے بغیر اچھا فن پارہ جنم نہیں لے سکتا۔
’’ تنقید علم بھی ہے اور فن بھی اگروہ کسی ادیب صنفِ ادب یاادبی اصول کے بابت محض معلومات کاذخیرہ ہے تو وہ علم ہی ہے اگروہ ان ہی چیزوں کے بابت کسی گہرے جذبے کواس طرح ادا کرتی ہے کہ ایک نیا عالم تخلیق ہوجائے تووہ فن ہے اوراس وقت وہ تخلیقی تنقید کہلائی جاسکتی ہے" {محمد احسن فاروقی، ڈاکٹر، ’’تخلیقی تنقید‘‘کراچی:اردواکیڈمی سندھ‘۱۹۶۸ئ‘صـ:۲۶}
ان مباحث میں تخلیق کا ملکہ ہونا ضروری ہے۔ ورنہ اس سے ایک نقلی اور جعلی ناقد نہیں بلکہ تبصرہ نگار سامنے آتا ہے۔ جسے " نقاد " سمجھ کر قاری اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ جو اس کی کم علمی اور عدم آگہی ہوتی ہے۔ اوریہ عمل غیر آگاہ قاری کو تشکیک اور ابہام کے زندان میں لا پھیکتی ہے۔ ہر موثر اور کامیاب تنقید میں خلاقانہ شعور اور فطانت موجود ہوتی ہے۔ جب نقاّد اپنی تحریروں میں اپنے کئی معروضات اور نکات سامنے رکھتا ہے تو اس میں تخلیقی نوعیت کے عناصر کہیں نہ کہیں چھپے ہوتے ہیں۔ جس کو تنقید کے لاشعور کا ادراک اور محرکات بھی کہا جاسکتا ہے۔ تخلیقی ادبی تنقید کو فلسفے یا فکر کا "فن" کہا جاتا ہے۔ مگر اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کی تحدیدات کا معین کرنا کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ جو بے حد دشوار ہوتا ہے اس پر بہت عرق ریزی کرنی پڑ تی ہے۔ اس سے نئی اور غیر متوقع پیچیدگیاں سر اٹھاتی ہیں۔ اصل متن اوریوں اہم تفاسیر کے مابین بیں المتنیت کا اذیّت ناک اور خطرناک قسم کا معرکہ شروع ہوجاتا ہے ۔ جو ایک قدامت پسند لکھنے والے کے لیے درد ناک ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ معاصر تصورات میں " دوہری" یا " حاشیائی" صورت حال سامنے آ کھڑی ہو جاتی ہے۔ جس سے آسانی سے بچا نہیں جاسکتا۔ ایک عام نقّاد کو اسے سمجھنا اور اس کی تشریح و تفھیم درد سر بن جاتی ہے۔ اس کے لیے تخلیقی نقّاد کو ساخت سازی کی مناجیاتی تکنیک سے آگاہی ضروری ہے اسی تنقیدی مہارت سے تخلیقی تنقید کے درست معنی اور مفاہیم اخذ ہوتے ہیں اسکو جدید تخلیقی ادبی تنقیدی نظرئیے میں "سائنس کا ماسٹر نظریہ" بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں پس ساختیات کے متنی مباحث کا غلبہ ہوتا ہے لیکن اس وقت ادبی تنقید مضحکہ خیز ہوجاتی ہے جب نقاد تجزیاتی اور تقابلی رسائیوں سے اغماّض برتا ہے۔ { یہی اردو ادبی تنقید کا المیہ ہے یہی قحط الّرجال ہر طرف پھیلا ہوا ہے}۔ یہی کوتاہ ذہنی اردو کی ادبی انتقادات کو دیمک کے طرح کھوکھلا کررھی ہے۔ شوکت حیات نے اپنے مضمون۔۔" تنقید اور تخلیق کار کارشتہ" " میں لکھا کے "تنقید کا پہلا اسٹیج تو تخلیق کے وقت ہی آ جاتا ہے – پھر ناقد ،فن کو پرکھنے کے لئے اپنے اوپر وہ کیفیات طاری کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کیفیات فن کی تخلیق کے وقت خالق پر طاری تھی – اس طرح ناقد اصلیت کو جاننا چاہتا ہے – گویا ناقد بھی تخلیق اور تنقید دونوں کے فرائض انجام دیتا ہے – ایسی صورت میں اس کا تخیل بھی اپنے طور پر کار فرما ہوتا ہے – لہذا یہی وہ منزل ہے جہاں تنقید اور تخلیق کا رشتہ مستحکم ہوتا ہے ۔ تخلیق اور تنقید دونوں ایک دوسرے کے لیے اس لئے ضروری ہیں کیونکہ ان کی حیثیت جسم وجان کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک تخلیق کار تنقیدی شعور کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔اس لئے تنقید کو ایک علم بھی کہا گیا ہے اور ایک فن بھی ہے ۔۔ اردو تنقید الطاف حسین حالی سے شروع ہوتی ہے مگر راقم السطور کی نظر میں اردو کے پہلے" تخلیقی نقّاد " میراجی ہیں ۔ نہ جانے کیوں اس حقیت کو اردو کی ادبی تنقیدی تاریخ نظر انداز کئے ہوئے ہے۔ لہذا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تخلیق اور تنقید کا آپس میں باہمی رشتہ ہے ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ ایک تخلیق کار ایک نقاد بھی ہوتا ہے۔لیکن ایک نقاد تخلیق کار بھی ہو یہ ضروری نہیں۔ تنقید نگار فلسفیانہ مباحث کے ذریعے تخلیق کی روح تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نقاد کا درجہ کسی طرح سے بھی ایک تخلیق کار سے کم ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے لئے ضروری ہے۔اسی لیے ٹی- ایس- ایلیٹ نے اسے جسم وجان سے تعبیر کیا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔