شام کی خانہ جنگی
پچھلے دو ماہ سے شام کے دارالحکومت دمشق کے نزدیکی علاقے غوطہ کی انسانی آبادی پر مسلسل بمباری کی جارہی ہے۔۔۔شامی صدر اسد کی فوج اور شامی حکومت کے اتحادی غوطہ پر بمباری کررہے ہیں ۔۔۔شام کی حکومت کا کہنا ہے کہ شامی فوج اور ان کا 95 ویں فیصد حصہ خالی کرالیا ہے ۔۔۔پانچ فیصد رقبے پر اب بھی باغیوں کا کنٹرول ہے ۔۔۔دو روز پہلے شام کے بدقسمت علاقے مشرقی غوطہ پر کیمائی حملے کی خبر آئی ،عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کیمیائی حملے میں پانچ سو مرد ،عورتیں اور بچے متاثر ہوئے ،جن میں سے ستر افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ۔۔۔کہا گیا کہ جب کیمائی حملہ کیا گیا تو اس کے بعد سینکڑوں افراد کی کھال پیلی ہو گئی ،ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی ،متعدد افراد سانس بند ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے ۔۔۔رواں برس فروری کے وسط سے مشرقی غوطہ کے خلاف حکومتی کارروائی کے آغاز سے اب تک 1600 افراد مارے جا چکے ہیں۔ غوطہ دارالحکومت دمشق کے قریب باغیوں کا مضبوط گڑھ ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقے پر کیمیائی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غوطہ کے علاقے دوما پر کیمائی حملے کے خلاف آج تک حتمی فیصلہ کر لیا جائے گا۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ فوجی کمانڈروں سے صلح و مشورہ کر رہے ہیں اور اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس حملے کے پیچھے کون ہے، بشار الاسد، روس یا پھر ایران۔اسی دوران روس کی طرف سے سامنے والے بیان میں کہا گیا ہے دوما میں کسی قسم کے کیمیائی حملے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ماہرین اور امدادی کارکنوں نے باغیوں کے علاقے سے نکل جانے کے بعد وہاں کا دورہ کیا ہے اور انھیں کیمیائی حملے کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔امریکہ اور فرانس نے اس حملے پر بھرپور جوابی کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی۔امریکہ نے پیر کو سلامتی کونسل کے پندرہ رکن ملکوں میں ایک نظر ثانی شدہ قرار داد کا مسودہ تقسیم کیا۔ یکم مارچ کو بھی امریکہ نے ایک مسودہ پیش کیا تھا۔ ہفتے کو دوما پر ہونے والے حملے کے بعد امریکی صدر نے ایک بیان میں شام میں کیمیائی حملے کو ایک گھنونا جرم قرار دیتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اس کے ذمہ داراں کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔نئی قرار داد کے مسودے کے بارے میں سفارت کاروں کا خیال ہے کہ اگر اسے ووٹ کے لیے پیش کیا گیا تو شام کا اتحادی روس اس کو ویٹو کر دے گا۔ سلامتی کونسل میں کسی قرار داد کی منظوری کے لیے کم از کم نو ووٹ درکار ہوتے ہیں اور یہ اسی صورت منظور ہوتی ہے اگر کونسل کے مستقل رکن ملکوں روس، چین، فرانس، برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے اسے ویٹو نہ کیا جائے۔اقوم متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ نے سلامتی کونسل کے رکن ملکوں پر شام میں ہونے کیمیائی حملے کی کمزور سے الفاظ میں مذمت کرنے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس پر زیادہ سخت رد عمل ظاہر کرنے میں ناکامی کے آنے والی دہائیوں میں تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔دوسری طرف برطانوی وزارتِ خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے امریکہ اور برطانیہ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ حالیہ کیمیائی حملے اور ماضی میں شام میں ہونے والے حملوں میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔حقیقت یہی ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام کے علاقے غوطہ میں کئے گئے کیمائی حملے کا فوجی ردعمل نہیں آسکتا ۔۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر امریکہ کی جانب سے کسی قسم کا حملہ کیا گیا ،روسی اور ایرانی افراد ہلاک ہوئے تو اس سے حالات مزید بدترین ہوں گے اور امریکہ کبھی بھی روس سے براہ راست مزاحمت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔۔شام میں سول وار کا تو خاتمہ ہو گیا ہے ،لیکن اب شام میں شام کی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔۔۔ادھر روس کے ذرائع ابلاغ کے مطابق روسی فوج نے اسرائیل پر لبنان کی فضائی حدود سے شامی فوجی فضائی اڈے کو میزائل حملے سے نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے دو ایف 15 طیاروں نے لبنانی علاقے سے شامی سرحد میں داخل ہوئے بغیر ریموٹ کنٹرول کی مدد سے آٹھ میزائلوں سے حملہ کیا۔ ان میں سے پانچ میزائلوں کو شامی دفاعی نظام نے تباہ کر دیا لیکن بقیہ تین فضائی اڈے کے مغربی حصوں میں گرے۔غیر سرکاری تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ٹی فور فضائی اڈے پر اس حملے میں ایرانیوں سمیت کم از کم 14 جنگجو ہلاک ہوئے۔زخمی اور ہلاک ہونے والوں میں روسی افراد بھی شامل ہیں ۔۔ماضی میں بھی اسرائیل شامی فوج کو نشانہ بنا چکی ہے تاہم اسرائیل کی فوج کی ترجمان نے حالیہ واقعے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ شام میں خانہ جنگی کا دور ختم ہو گیا ہے اور اب شام میں جنگ چھڑ گئی ہے ۔۔اس جنگ میں ایک طرف شام کے صدر بشارالاسد ،ایران اور روس ہیں تو دوسری طرف امریکہ اور ان کے اتحادی ۔۔نجانے اب شام میں ہونے والی اس جنگ میں کتنے شامی مریں گے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔