بستی بسنا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں نے اس ذہنی کیفیت سے باہر آنے کی بہت کوشش کی جس کو آسانی کی خاطرمیں ضمیر کی خلش کہہ سکتا ہوں۔۔اس دلیل کا سہارا بھی لیا کہ یہ میرا شعبہ نہیں۔۔اور جب آپ کے گرد سمع خراش آوازوں کا شور محشر بپا ہو اور کویؑ کسی کی سننے والا نہ ہو تو بہتر ہے اپنی بین آپ کسی بھینس کے آگے بجالیں اور اس کے خاموشی سے سر ہلانے کو داد سمجھ کے پر سکون ہو جاییؑں۔۔مگر خود فریبی س ایک احساس پیدا کرتی تھی کہ میں دانستہ زنجیر سے گریز پا ہوں جب کہ میرا مسلک اور طریق تو ہر حلقہ زنجیر میں زباں رکھنا ہی ہے
اس اعتراف جرم کے بعد اگر میں سوال کروں کہ دنیا کے نظام کیا کسی فرمان شہنشاہی سے بنے ہیں؟ سیاسی۔۔ معاشرتی اخلاقی۔۔ شہری۔۔خاندانی۔۔اخلاقی۔۔تعلیمی۔۔؟ان کی نوعیت کا شماربھی مشکل ہے ۔۔ دنیا کو چھوڑیں صرف پاکستان میں اس وقت بھی ہر سمت میں پٹریوں پر درجنوں ٹرینیں۔۔ سڑکوں پرسینکڑوں بسیں اور ہزاروں گاڑیاں رواں دواں ہیں۔خیبر سے کراچی تک سڑکوں کا ایک جال ہے جو پھیلتاجا رہا ہے۔۔اس پرہر سہولت میں اپنی عمر کے حساب سے کچھ اضافہ آپ نے بھی دیکھا ہوگا۔۔تاہم گدھا گاڑی سے دیو ہیکل ٹرالر تک سب باییؑں طرف چلتے ہیں؟ یہ کب ہوا ؟ کس نے کیا اور کیوں کیا؟۔۔ جواب کویؑ کیا دے گا کیونکہ اب تو جانور بھی اس کے عادی ہیں۔۔میں نے جی ٹی روڈ پر نصف شب کے بعد بس کے سفر میں دیکھا کہ بھوسے سے لدی بیل گاڑی میں پایؑلٹ اوپر سورہا ہے اور بیل ہے کہ باییؑں ہاتھ پر رہتے ہوےؑ چلتا جارہا ہے۔۔لیکن آج فرض کریں ہمارے قابل فخر قوم جناب ڈاکٹرادیب رضوی جواب تک کڈنی سنٹر کو مثالی طور پر چلاتے آےؑ ہیں خدانخواستہ اچانک بولنے لگیں کہ باییؑں ہاتھ چلنا انگریزکی غلامی ہے۔ امریکہ فرانس،ایران۔۔سب میں ٹریفک داییؑں ہاتھ پر چلتی ہے۔۔ مسلمان کیلےؑ یوں بھی دایاں ہاتھ افضل ہے۔۔ یہ نظام کاریں بنانے والے ممالک نے رشوت کے بل پر مسلط کر دیا ہے لیکن میں یہ کرپش نہیں چلنے دوں گا۔ میں پاکستان کو دنیا کے عظیم ممالک میں شامل کرنے کیلےؑ ٹریفک کے نظام کو داییؑں ہاتھ پر چلا کے دکھاوں گا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ کیا سمجھیں گے اور کیا کہیں گے لوگ۔۔ ( ذی شعور لوگ۔۔ ورنہ کراےؑ پر واہ واہ کرنے والے تو شاعر بھی لے آتے ہیں۔)۔یہی کہ خدانخواستہ اس عمر میں ڈاکٹر صاحب کا دماغ چل گیا ہے۔۔اور کہیں گے بھی کہ محترم۔۔ آپ اپنا کڈنی سنٹر چلاییؑے جو آپ کا شعبہ ہے
دنیا کے عدالتی نظام کی تاریخ تو نہ جانے کب اور کہاں سے شروع ہویؑ لیکن اس کی جوصورت آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ مملاک میں نظر آتی ہے وہ صدیوں کے عمل ارتقا کا نتیجہ ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے کویؑ قطعی یا حتمی صورت اختیار کرلی ہے۔۔یہ مسلسل انسان کیلےؑ اپنی افادیت کوبہتر بنانے کیےؑ کوشاں ہے۔۔کویؑ نظام جو خوب سے خوب تر ہونے کی صلاحیت اور لچک نہ رکھتا ہواز خود معدوم ہوجاتا ہے۔قوانین کو بہتر بنانے کا عمل جاری ہے۔۔اس کی ضرورت کا احساس اکثردنیا بھرکے وہ عدالتی فیصلے بھی دلاتے ہیں جو تاریخ ساز سمجھے جاتے ہیں اور دنیا بھر میں بطور نظیرپیش کےؑ جاتے ہیں۔۔ کیا یہ عجیب نہیں کہ جسٹس ثاقب نثار نے چند روز قبل کہا کہ ان کے سامنے بھارت کی نظیر نہ پیش کی جاےؑ؟ اس سے قبل وہ فرما چکے تھے کہ ان کے سامنے ہندو کی مثال نہ دی جاےؑ جب کہ ان سے پہلے اسی عدالت عالیہ کے منصب اعلیٰ پر رانا بھگوان داس فایؑز رہ چکا ہے؟ اور تاریخ میں امر ہو چکا ہے؟
۔۔تاریخ کے پہیے کو الٹا یا اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کبھی کامیاب نہ ہو سکتی تھی نہ ہویؑ۔۔مثال کے طور پرہمارے ملک کے جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت یہ تسلیم کرنے کےمترادف ہے کہ ڈاکوکو اپنے معاشی حالت کی بہتری کیلےؑ کسی شہری کو لوٹنے کا حق ہے۔۔اس کے بر عکس دو غیر مسلم چیف جسٹس ہماری تاریخ میں امر ہوےؑ۔۔پہلا کارنیلییس جو لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے دو کمروں میں جیا اور مرگیا لیکن وہ کمرے قومی یادگار ہیں اس کا نام لاہور کی ایک شاہراہ پرلکھا نظر اتا ہے اور سنا ہے اس کی پرانی کارآج کی سپریم کورٹ میں انصاف کی علامت بنی ہویؑ ہے۔۔دوسرا رانا بھگوان داس جوجنرل مشرف کی ننگی جارحیت کیے زمانے میں تیرتھ یاترا کیلےؑ لاہور گیا تو اس نے انڈین گورنمنٹ سے ہر قسم کی مراعات لینے سے انکار کیا۔میں نے اس کی بیوی کی تصویر دیکھی جو80 گز یا 3 مرلے کےغریبانہ گھرمیں خود کپڑے دھوکر ڈوری پر پھیلا رہی تھی۔اس پر بہت دباو ڈالا گیا کہ واپس نہ آےؑ اور ریٹایؑرمنت پر چلا جاےؑ لیکن وہ لوٹ کر آیا اور ایر پورٹ پر اس نے میڈیا کے ہجوم میں صرف دو لفظ بولے" سب ٹھیک ہو جاےؑ گا" اور جب وہ چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھا تو اس نے افتخار چوہدری کو بحال کیا
اور تب ایک عالم نے دیکھا کہ وہ چییف جسٹس جس کے سڑک پربال کھینچےگےؑ تھے اور جو 5 ماہ نظر بند رہا تھا اس افتخار چوہدری کے سامنے ڈوگرجیسے سب جوآییؑن۔ قانون اور ضمیرکو نظر انداز کر کے اعلیٰ عدلیہ کے عہدوں پر بھی غاصبانہ قبضہ کر چکے تھے حاضر ہوےؑ ۔ انہوں نے غیر مشروط معافی نامہ کے ساتھ لکھا کہ ہم نے خود کو عدالت عالیہ کے رحم و کرم پرچھوڑا اور سزا ان کو یہ ہویؑ کہ ان کے نام کے ساتھ کبھی جج نہ لکھا جاےؑ۔۔ چنانچہ وہ عام آدمی سے زیادہ بے توقیر ہویےؑ۔۔بھگوان داس کا فیصلہ ایک نظیر بنا جو دنیا بھرمیں عدلیہ کی تاریخ میں لکھے جاتے ہیں
میں نے 70 سال پہلے کا پاکستان دیکھا ہے لیکن اب وہ جو میرے تصور میں ہے وہ تصویر میں بھی ہے۔پنڈی لاہور کراچی جیسے ہر شہر کےآرکاییؤؑز میں اس کے وقت کا سفر ایک دستاویزی عکس کی صورت میں محفوظ ہےجوآپ بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔پھر میں کیسے مان لوں کہ ان 70 برسوں میں صرف کرپش کا راج رہا اور پاکستان نے ترقی معکوس کی؟ میں مانتا ہوں کہ کرپشن ہے اور بہت زیادہ ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ انسانی تاریخ کے ہر دور میں تھا اور دنیا کے ہر خطے میں اج بھی ہے(۔ہم کرپشن کا لفظ غبن کے معنی میں استعمال کر تے ہیں۔۔) انسان کی غلامی کے حوالے یونانی تاریخ سے اسلامی۔۔ پھرنو آبادیاتی یا آج کی تاریخ تک آتے ہیں۔غریب کا غریب تر اور امیر کا امیرتر ہونا صرف پاکستان کا مسیؑلہ بنا کےاچھالنا سیاست کا ایک استحصالی حربہ یا نعرہ ہے۔ ایک عالمی تنظیم "آکس فیؐم" نے جو 18 عالمی این جی اوز پر مشتمل ہے 2007 میں یہ رپورٹ دی کہ 3 ارب 30 کروڑ افراد کے پاس اتنی ہی دولت ہے جتنی 378 خاندانوں کے پاس۔۔دس سال بعد جتنی دولت 3 ارب 60 کروڑ کے پاس تھی وہ 8 افراد کے ہاتھوں میں اگیؑ۔ان کے نام سب جانتے ہیں۔۔بل گیٹس،،وارن بوفے وغیرہ
ایک بار پھر لوٹ کے اس بے سر و پا بات کی طرف آتے ہیں کہ 70 سال میں حکمرانوں کے کرپشن نے ملک کو پیچھے دھکیل دیا۔۔ہا ہا ہا۔۔ آرکایؑوزمیں موجود تصاویر دیکھنے سے پہلے سوچےؑ کہ:ـ
1۔حکومت پاکستان کے دفاترنے ابتدا میں پیپر پن کی جگہ ببول کے کانٹے استعمال کےؑ۔۔30 لاکھ مہاجرین بے سرو ساماں آگےؑ ۔ بھارت نے ریزرو بنک سے تین چوتھایؑ رقم نہیں دی تو تنخواہیں دینے کے اخراجات ریاست بھاولپور کے خزانے سے قرض لے کر پورے کےؑ گیےؑ۔ یہ مفلس و بد حال ملک ایک ایٹمی قوت کیسے بنا؟ یہ کام فرشتوں نے نہیں کیا جیسے کہ 1965 کی جنگ میں بھارتی فضاییؑہ کے گراےؑ ہوےؑ بم سبز پوشوں نے ہوا میں کیچ نہیں کےؑ۔۔کچھ لوگ آج بھی ایسا مانتے ہیں
2۔پاکستان کی کویؑ ایر لایؑن نہیں تھی۔اورینٹ ایرویز کو 1948 میں پی آیؑ اے بنایا گیا تو اس کے پاس دو انجن اور پنکھوں والے ڈکوٹا جہاز تھے۔آج اس کے علاوہ 4 ایرلایؑنوں کے پاس ہیں جدید ترین بوییؑنگ اور ایر بس اے۔380
3۔پاکستان میں صرف 2 ریڈیو اسٹیشن تھے۔۔ لاہور اور پشاور۔۔آج کتنے ہیں؟ سٹلایؑٹ ٹی وی اسٹیشن کتنے ہیں؟ایف ایم اسٹیشن کتنے؟
4۔ میڈیکل کالج ایک لاہور میں تھا۔آج کہاں کہاں ہیں؟ہسپتال لاہور میں تھے میو۔۔گنگا رام۔۔گلاب سنگھ جمعیت دیوی یونییٹیڈ کرسچن۔۔ (اب شاید 100 سے اوپر ہی ہونگے جو بڑے ہیں)۔۔ پشاور میں لیڈی ریڈنگ تھا کراچی میں شاید ڈاو بھی نہیں تھا،، سول ہسپتال ممکن ہے ہو۔۔آج کس کس شہر قصبے میں کتنے ہسپتال ہو نگے۔۔میں اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔۔ہر جگہ کیسے کیسے اسپیشلسٹ بیٹھے ہیں۔ڈاکتر ادیب رضوی یا انڈس ہسپتال والے ڈاکٹر باری اور شوکت خانم جیسے لاتعداداسپیشلسٹ ڈاکٹر بہترین رفاہی خدمات بلا معاوضہ فراہم کر رہے ہیں۔۔ یہ سب کیسے ہوا۔۔کس نے کیا؟
5یونیورسٹی ایک لاہور میں تھی ایک پشاور میں۔۔آج ان کی اصل تعداد کون بتا سکتا ہے؟اس میں ٹیکنکل۔۔میڈیکل۔۔انجینییؑرنگ ۔۔زرعی ۔اسلامک ہر قسم کی یونیورسٹیاں کتنی ہیں۔۔
سوالات لا تعداد ہیں وہ دھواں دیتا کالا انجن میوزیم میں رکھا ہے۔تیز گام اور گرین لایؑن جیسی درجنوں ایر کنڈیشنڈ گاڑیاں آگیؑ ہیں۔۔ کوریا کی "دایؑوو" سے بھی شاندارایر کنڈیشنڈ بسیں تلہ گنگ جیسے دور افتادہ قصبوں کو جارہی ہیں۔۔ موٹرویز کا جال پھیل رہا ہے میٹروبس چل پڑی ہے۔گاوں دیہات میں اےٹی ایم اور ہر ہاتھ مین موبایل فون ہے
اگر 70 گزرے سالوں میں کام کسی نے نہیں کیا صرف کرپشن کیا تو جناب چیف جسٹس صاحب۔۔یہ سب کس نے کیا؟ یہ سب اس نظام کی وجہ سے ہوا جس میں ہر شخص نے اپنی جگہ اپنے دایؑرہ کار میں رہ کر صرف اپنا کام کیا۔۔۔کسی وزیر زراعت نے بجٹ پیش نہیں کیا اوروزیر خارجہ نے تعلیمی نظام نہیں بنایا۔جس نے دایؑرہ اختیار کی اس حد سے تجاوز کیا غاصب کہلایا۔خود عدالت عالیہ نے اس کو غاصب قرار دیا۔۔مجھے 70 سال کی تاریخ میں ایک مثال یاد نہیں جب کسی چیف جسٹس نے ۔ ریلوے کی زبوں حالی پر تنقید کی ہو۔۔اس وقت بھی جب ٹرین کاگھنٹوں لیٹ ہونا اور جنگل میں کھڑے رہنا معمول تھا اور آییؑ ایس آیؑ کے جنرل اسد اشرف قاضی ریلوے چلارہے تھے۔۔ یایہ کہا ہو کہ تعلیم کا بیڑا غرق ہو گیا اور وزیر تعلیم کو توہین عدالت کے خیال نے جواب دینے سے روک لیا ہو ورنہ وہ پوچھتا کہ جناب اس شعبے کی زبوں حالی بھی دیکھےؑ جس کے آپ زمے دار ہیں۔۔اس وقت سب سے زیادہ کرپشن تونظام انصاف میں ہے۔۔ؑ ماتحت اور اعلیٰ عدالتوں میں رشوت کا ریٹ کیا ہے؟ سماعت طلب مقدمات کی اور اپیلوں کی تعداد کتنے لاکھ ہے؟ کیا ایسا نہیں ہوا کہ ایک اپیل پرمجرم کی سزاےؑ موت ختم کی گیؑ تو اس کومرے ہوےؑ 12 سال گزر چکے تھے؟ایک دیوانہ ہو جانے والے کو تختہ دارپر کھڑا کرنے کا معاملہ کتنا عرصہ زیر سماعت رہا؟ کال کوٹھریوں میں کتنے ہزار زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں؟ کیا اس وقت ایک بھی صاحب ثروت قید بامشقت کاٹ رہا ہے؟ بھتو کے سواکسی پیر وڈیرے سیاستدان صنعتکار کو آج تک تختہ دار پر کھڑا کیا گیا؟ ۔۔بلا شبہہ آپ کی عدالت میں زیر سماعت ایک بھی مقدمہ نہ ہوتا تو آپ ہاتھ جھاڑ کے پہنچ جاتے جناح ہسپتال کی ڈاکٹر سیمی جمالی کے پاس جو ٹی وی کے زنانہ شو میں شوبز جیسی گلیمر کے ساتھ جلوہ نمایؑ بھی کرتی رہی ہے۔۔یا جا پہنچتے لاہور کے مینٹل ہسپتال۔۔"سو موٹو" نوٹس لینا آپ کا قانونی و آییؑنی حق ہے اور کسی کو آپ کے سامنے دم مارنے کی اجازت نہیں۔آپ نے ضرور اس ہسپتال کی بد نظمی کے بارے میں کچھ سنا یا پڑھا ہوگا لیکن کیا ابھی تک آپ نے بردہ فروشی کے ٹھیکے داروں اور ٹھکانوں۔ڈاکٹریٹ کی جعلی ڈگریوں کے دھندے اور جعلسازی کے کاروبار کے بارے میں کچھ نہیں سنا جس میں پیری فقیری سے مسیحایؑ اورجعلی ادویات سے ملاوٹ والی اشیاےؑ خوردو نوش اور دو نمبر زرعی اور صنعتی پیداوارتک بہت کچھ شامل ہے؟
یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کی ریٹایؑرمنٹ میں زیادہ دن نہیں تب تک آپ 70 سال کی خرابیاں کیسے ٹھیک کریں گے۔۔میرا مطالبہ ہے کہ آپ کو تا حیات ریٹایؑرمنٹ سے محفوظ رکھنے کیلؑے آییؑن میں فوری ترمیم کی جاےؑ
۔انصاف کا کیا ہےہوتا رہے گا۔ نہ ہوا تب بھی یوم حساب تو مقرر ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔