وہ عزت کیا ہے جو اللہ دیتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1960 کی بات ہےچاےؑ پینے پاک ٹی ہاوس میں گیا تو ایک کونے کی میز خالی نظر آیؑ۔کچھ دیر بعد سامنے والی کرسی پر بھی ایک شخص آبیٹھا۔۔گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو پتا چلا وہ محمد طفیل مدیر نقوش ہیں۔کہنے لگے"حلقہ ارباب ذوق کا میرا جی ڈے ہے ۔۔چلوگے"۔میں ساتھ ہولیا چند قدم دورموڑ پر مال روڈ تھی کونے پر اسلحہ فروش آج بھی ہین۔اوپر وایؑ ایم سی اے ریسٹورنٹ میں تقریب تھی ۔گنتی کے چند شرکا۔۔ فیض صاحب 1949 کے پنڈی سازش کیس میں 4 سال کی جیل کاٹ کے مزید محترم ہو گےؑ تھے۔وہ آےؑ تو ان کے ساتھ سبط حسن بھی تھے اور ان کے ساتھ ساےؑ کی طرح رہنے والے سی آیؑ ڈی کے دو کارکن۔ انہیں اس کی ذرا پروا نہ تھی۔لباس کے معاملے میں فیض صاحب ہمیشہ کی طرح ۔ ایک بشرٹ اور پتلون میں اور سبط حسن بہترین سوٹ اور فیلٹ ہیٹ میں پایؑپ پیتے ہوےؑ،، اس مثلث کا تیسرا ضلع خواجہ خورشید انور بعد میں اےؑ۔اب میں نےانجمن ترقی پسند مصنفین میں بتا کہ سبط حسن سے مل چکا ہوں تو خود بے حد محترم ہوگیا
فیض ساحب آخری بار چین کے قومی دن پر سفارت خانے میں نظر اےؑ تو ایک صوفے پر تنہا بیٹھے تھے۔ ایک ہاتھ میں جام دوسرے میں سلگتا سگرٹ۔۔ارد گرد دس بارہ افراد نیم دایؑرے میں کھڑے ان کو عجیب عقیدت اور محبت سے بس دیکھے جارہے ہیں ۔کسی میں ہمت نہیں کہ وہ اتنے بڑے ادمی کے ساتھ جا بیٹھے حالانکہ ان کی انکساری اور خوش مزاجی وہ صفت تھی جس کا اعتراف ان کے دشمنوں نے بھی کیا ۔وہ ساتھ بیٹھنے والے کی عزت وتکریم کرتے لیکن پرستش کرنے والوں کے نزدیک وہ دیوتا سمان تھے۔ان کے ساتھ کیسے بیٹھا جا سکتا تھا۔۔
بہت بعد میں یہی منظر میں نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے ساتھ بھی دیکھا۔ ڈاکٹر منظور احند کی بیٹی کی شادی تھی اور وہ تنہا صوفے پر تھے۔۔تین وایؑس چانسلر جمیل جالبی۔۔احسان رشید اور ڈاکٹر منظور ان کے سامنے دست بستہ کھانے کی پلیٹ لےؑ کھڑے تھے کہ وہ کسی ایک سے لے لیں۔۔وہ تینوں شاگرد تھے اور استاد محترم کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے تھے۔شادی کے کچھ شرکا آےؑ جھک کر ڈاکٹر سلیم الزماں سے ہاتھملایا اور چلے گےؑ ان میں راقم بھی تھا
عزت کیا ہوتی ہے جواز خود دل سےملتی ہے۔۔کسی تبلیغ اور لابی یا میڈیا کی سپورٹ کے بغیر۔۔اس کی ایک جھلک میں نے فلم فییؑر ایوارڈ کی کسی تقریب میں دیکھی جب مفلوج اور بوڑھے استاد بسم اللہ خان ۔سفید پاجامہ کرتا اور ٹوپی میں وہیل چیرؑ پر لاےؑ گےؑ۔ (ان کو پنڈت نہرو نے 15اگست 47 کو جھنڈا چڑھاتے وقت شہنایؑ بجانے کیلےؑ ساتھ رکھا تھا )۔۔۔ اس وقت ایک دم خوش پوش خوشحال اور خوش رو۔۔شو بز کے گلیمر سے چمکتا دمکتا تالیاں بجاتا مجمع کھڑا ہوگیا۔استاد بسماللہ خان جھک جھک کے تسلیمات بجا لاتے آگے بڑھتے گےؑ لیکن نوجوانوں کا وہ مجمع اس وقت تک عقیدت سے کھڑا تالیاں بجاتا رہا جب تک وہ اسٹیج پر نہیں پہنچ گےؑ۔اسٹیج پر کیمرے نے فوکس کیا تو ان کی بوڑھی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔سونے یا چاندی کا ایک تمغہ اس عزت کے آگے کیا چیز ہے۔۔ سرکاری طمطراق اور بینڈ باجے یا اکیس توپوں گھن گرج کے ساتھ ملنے ولی عزت مصنوعی عزت کی کیا اوقات ہے
عزت جو مرنے کے بعد بھی ملی ان میں چار افراد کا شمار کیا جاسکتا ہے۔۔ شرکا کی تعداد کے ریکارڈ کے حوالے سے چرچل کا جنازہ ۔۔یوگو سلاویہ کے مارشل ٹیٹو کا جنازہ۔۔مصر کے صدر ناصر کا جنازہ اور لیڈی ڈایانا کا جنازہ۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔