فلسفے کو پڑھنا تعلیم یافتہ انسان کے لئے بہت ضروری ہے۔وہ انسان جو فلاسفی کو فولوسافی سمجھتے ہیں ،انہیں بھی چاہیئے کہ وہ فلسفے کی تاریخ کا ضرور مطالعہ کریں۔فلاسفی یا فلسفہ دو الفاظ سے ملکر پیدا ہوا ہے ۔ایک لفظ کا نام ہے philo جس کا مطلب ہے پیار محبت ،یہ یونانی لفظ ہے ۔دوسرے لفظ کا نام ہے sophia یہ بھی یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ہے علم۔اس طرح philosophia کا مطلب ہے علم سے پیار یا علم سے محبت ۔دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت ہی فلسفہ یا فلاسفی ہے ۔وہ سماج ،وہ معاشرہ یا وہ تہذیب جن کو علم سے محبت ہوتی ہے ،وہی ترقی کرتے ہیں۔یورپ ،امریکہ اور دنیا کی باقی ترقی یافتہ تہذیبیں اس وجہ سے ترقی یافتہ ہیں کہ یہ لوگ علم سے محبت کرتے ہیں ۔جو سماج علم سے محبت نہیں کرتا ،ان کی حالت بلکل ایسی ہوتی ہے جیسے آج مسلم دنیا کی ہے ۔
فلسفے کو تمام علوم کی ماں کہا جاتا ہے ۔فلاسفرز یا فلسفی اپنے زمانے کے عظیم اور زہین انسان تھے ۔جب کوئی تعلیم یافتہ انسان ان عظیم فلسفیوں کے نقطہ نظر کو سمجھ جاتا ہے تو وہ ان کی بصیرت سے بھی بہت آگے دیکھ سکتا ہے ۔ان فلسفیوں کو پڑھ کر آج کا نوجوان اپنے سماج کو تبدیل کرسکتا ہے ۔زمانہ قدیم کے فلسفیوں میں کچھ انقلابی تھے ۔بہت سے فلسفیوں کا تعلق غلام طبقے سے تھا ،بہت سارے فلاسفرز ایسے بھی گزرے ہیں جو بادشاہ تھے یا اشرافیہ کلاس سے تعلق رکھتے تھے ۔سیاستدان ،ڈاکٹرز ،وکیل اور استاد بھی فلسفی گزرے ہیں ۔فلسفیوں کا تعلق ہر کلاس اور پیشے سے رہا ہے ۔لیکن زیادہ تر فلاسفرز مرد تھے اور ان کا تعلق اپرکلاس سے تھا۔انسانی تاریخ میں بہت کم ایسی خواتین رہی ہیں جو فلسفی تھی ۔غریب طبقے سے بھی بہت کم فلاسفرز پیدا ہوئے ہیں ۔
انسان کی تہذیب کی تاریخ بنیادی طور پر انسان کے علم کی ترقی کی تاریخ ہے ۔علم کی ترقی وہاں ہوئی جہاں فلاسفرز نے جنم لیا ۔جہاں فلاسفی کی اہمیت کو سمجھا اور پرکھا گیا ۔فلسفے کے سوالات انتہائی اہم ہیں کہ قدرت کیا ہے ؟انسان کیا ہے ؟زندگی کیا ہے ؟ہم یہاں کیوں ہیں اور کیا ہیں ؟زندگی کا مقصد کیا ہے ؟تاریخ اور سوچ کے ارتقا کے سفر کو سمجھنے کے لئے فلسفہ پڑھنا بہت ضروری اور اہم ہے۔انسانی تاریخ کو حقیقت میں وہی سمجھ سکتے ہیں جو فلاسفی کی تاریخ سے واقف ہیں ۔
فلسفے کو پڑھ کر ہی آج کے سماج کے ڈھانچے کو بہتر کیا جاسکتا ہے ۔یہ جو کہتے ہیں کہ فلسفی اور فلاسفی کو پڑھنا وقت کی بربادی ہے ،کبھی ایسے لوگوں کی سوچ کا حصہ مت بنیں ۔فلسفہ انسانی تاریخ میں اس وقت شروع ہوا جب کچھ ایسے عالم فاضل انسان پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے آپ کو اپنے زمانے کے مذاہب سے علیحدہ کرکے قدرت کے بارے میں سوالات اٹھائے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...