عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 207
بعنوان : سہلِ ممتنع:
رپورٹ: احمدمنیبؔ
نثر لکھنا نظم سے ان معانی میں امرِ مشکل ہے کہ غزل میں قافیہ ردیف کے سہارے خوش آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے اور ہر شعر اپنا الگ معنی رکھتا ہے یا پھر کھینچ تان کر اس میں سے معانی نکالے جا سکتے ہیں جبکہ نثر اپنا منطقی جواز اور وضاحت طلب کرتی ہے۔ ایک شعر سے ایک سے زاید مطالب نکالے جا سکتے ہیں لیکن نثر کا ہر جملہ عموماً ایک معین مطلب کا حامل ہوتا ہے۔ گو ذومعنویت زبان کا ایسا حسن ہے جو قاری و لکھاری کی خوش ذوقی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور فقرہ بازی بھی اثرانگیز ہو تو سونے پر سہاگہ والا کام ہو جاتا ہے لیکن دل دکھانے اور دکھ دینے والی نہ ہو۔ پس ایسا حسنِ بیان قادرالکلامی کا غماز ہوتا ہے۔ مثلاً : آم تو گدھے بھی نہیں کھاتے کے جواب میں غالبؔ کا یہ کہنا کہ ہاں گدھے آم نہیں کھاتے۔ یہ عالمِ فصاحت و بلاغت ہے۔ اسی طرح بلاشبہ بعض اشعار اپنے اندر فصاحت بلاغت کے سمندر سموئے ہوئے ہوتے ہیں مثلاً:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اور ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے
کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے
جو شعر نثر کے اس قدر قریب ہو کہ اس کی مزید نثر نہ کی جاسکتی ہو سہل ممتنع کہلاتا ہے اور یہی اس کا حسن ہوتا ہے۔
اسی طرح اچھی نثر لکھنا ایسا کمال ہے کہ ہر لکھنے والے کے نصیب میں نہیں ہوتا۔
شاعر کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اگلا شعر کیا لکھے گا جب شعر ہو جاتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ شعر سے یہ کچھ مترشح ہو رہا ہے جبکہ نثر نگار اپنے فکر کو الفاظ کا جامہ و پہناوا پہناتا اور اپنی سوچ کو ملبوس کرتا ہے۔
حسن ملفوف کیا حرف ملبوس کیا
تجھ کو منظوم کیا ہم نے جب شعر کہا
احمدمنیب
گویا نثر کا موضوع و منشا کے مطابق ہونا ہی پہلی اور اصل خوبی ہے۔
نثر کی دوسری بڑی خوبی تکلف اور تصنع سے پاک ہونا ہے۔
تیسری بڑی خوبی یہ کہ تحریر ثقہ ہو۔
چوتھی بڑی خوبی یہ ہے کہ بات دو ٹوک اور واضح ہو گنجلک اور مبہم نہ ہو۔
پانچویں بڑی خوبی یہ ہے کہ تعقید سے پاک ہو جبکہ تعقید شاعرانہ مجبوری کا نام ہے۔ چنانچہ کوئی بھی شاعر بحر کے تقاضے نبھانے کے لیے الفاظ کی تقدیم و تاخیر پر مجبور ہوتا ہے۔
نثر میں اس کی مثال دیکھئے کہ ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی میں مرزا فرحت اللہ بیگ لکھتے ہیں کہ:
محاوروں کے استعمال کا شوق مولوی صاحب کو حد سے زیادہ تھا۔
یہ بیانیہ انداز ہے جس میں تعقید لفظی ہے۔ یعنی یہ جملہ اس طرح ہوتا تو تعقید لفظی ختم ہو کر سلیس ہو جاتا کہ:
مولوی صاحب کو محاورہ جات کے استعمال کا حد سے زیادہ شوق تھا۔
چھٹی بڑی خوبی یہ ہے کہ جملے چھوٹے اور مکمل ہوں کیونکہ مرکب جملے نثر کے حسن کو متاثر کرتے ہیں۔ جیسے میاں ابولحسن علی ندوی کے ہاں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ اسلوب عربی سے در آیا ہے۔ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔
میاں ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
بیسویں صدی کے نصف اول میں ہی جب کہ مختصر افسانے کے نین و نقش اُبھر رہے تھے اور مختصر افسانہ رومانیوی حکایات اور خواب آگیں فضا کے سائے میں اپنی صنفی پہچان قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ترقی پسند تحریک نے اسے حقیقت پسندی اور سماجی صداقت نگاری کے اثر انگیز لطف سے آشنا کرایا۔
(سہ ماہی آمد صفحہ نمبر 501 ۔ اقتباس از مضمون وصیہ عرفانہ)
پیرا نما اس جملہ میں جب کہ، اور نیز کہ کے الفاظ اگر ہٹا دیئے جائیں اور ایک جملہ کے تین جملہ بنا دیئے جائیں تو ثقالت تحریر ختم ہو کر قاری کے لیے آسانی اور روانی پیدا ہو جائے۔
اس جملہ میں دوسرا عیب نین و نقش کے مابین واوِ عاطفہ ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موصوف عربی سے بہت متاثر تھے۔ ہندی الفاظ کے مابین واوِ عاطفہ چہ معنی دارد؟
گویا اچھی نثر بھی اگر سہل ممتنع ہو اور چھوٹے چھوٹے جملوں پر مشتمل ہو تو سلطنتِ ابہام سے نکل کر اظہر من الشمس ہو جاتی اور مزا دیتی ہے۔
نثری اور نظمی سہل ممتنع میں خطِ تمیز:
نثر علم سے معمور ہوتی ہے۔ جہاں علمیت اپنی انتہا کو پہنچتی ہے وہاں غنائیت سے معمور شعریت کا آغاز ہوتا ہے۔غنائیت سے بھرپور شعریت سے نئے نئے مفاہیم فرض کیے جاتے ہیں۔ نثر میں جب تک ہر بات مدلل نہ ہو تاثیر پیدانہیں ہوتی اور شعر میں جب تک دعوی و دلیل کی ہم آہنگی نہ ہو اچھا شعر وجود میں نہیں آسکتا۔
نثر بالعموم پڑھی جاتی ہے اس لیے پڑھنے والا زبان وبیان اور اسلوب و موضوع سب پر یکساں نظر رکھتا ہے لیکن شاعری کا سماعی پہلو اول طورپر سماعت کو متاثر کرکے بعد میں دل پر اثرپذیر ہوتا ہے۔ قاری خود بھی اگر شاعری کو بآوازِ بلند پڑھے تو اس کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے جبکہ نثر میں ایسی کیفیت بعض اوقات سمع خراشی کا باعث ہوتی ہے۔ چنانچہ تفکر و تدبر کے جملہ تقاضے پورے کرنے والی تحریر ہی لکھاری اور قاری کے نزدیک معتبر ٹھہرتی ہے۔
ردیف کی مجبوری کے باعث بعض اوقات شاعر ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو حشو و زوائد کہلاتے ہیں مثلاً مکان میں ہے، جہان میں ہے قافیہ ردیف کے ساتھ درمیان میں ہے کہہ جاناجبکہ درمیان کے ساتھ میں نثر لکھتے ہوئے نہیں آئے گا جبکہ شاعر کی مجبوری بن جاتی ہے۔
ابن صفی بھی اس قسم کی زبان لکھتے ہیں کیونکہ ان کے اکثر ناولوں میں دوران کے ساتھ میں لفظ استعمال ہوا ہے۔ ” اس دوران میں پولیس آگئی“ حالانکہ اس میں میں زائد ہے۔ اس دوران پولیس آگئی مطلب براری کے لیے کافی تھا۔
اہل علم کے بعض جملے ضرب المثل بن جاتے ہیں۔ ایک بار پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ایک شاعر کے بارے لکھا کہ:
” ان کے شعر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی خرابی نہیں اور خرابی یہ ہے کہ کوئی خوبی نہیں۔“
ایک بار جگر مراد آبادی نے کسی شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
”اللہ کسی شاعر کو سزا دینا چاہتا ہے تو اس پر بُرے اشعار نازل کرتا ہے اور ار کسی اچھے شعر کو سزا دینا چاہتا ہے تو اسے کسی معمولی شاعر پر نازل کرتا ہے۔“
طنز و مزاح کے متعلق مشہور ہے کہ:
طنز و مزاح دو دھاری تلوار ہے جو کسی اناڑی کے ہاتھ میں آجائے اسی کو زخمی کر دیتی ہے۔“
No بولنا بھی ایک فن ہے اسے بھی سیکھنا چاہئے۔جان نثار اختر لکھتے ہیں کہ:
ہر بات مان لینے کی عادت خراب ہے
ناقابلِ قبول کو رد بھی کیا کرو
نظم و نثر کی خوبیاں:
لکھنے والوں کی اکثریت جانتی ہے کہ کیا لکھنا ہے لیکن یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ کیا نہیں لکھنا۔ یعنی جو بات بین السطور ہوتی ہے وہی کہنے والی بات ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ لکھنے کا کوئی جواز ہونا چاہئے۔
تیسری بات کسی بھی تحریر کی زبان ہے جو عامیانہ نہیں بلکہ علمی ہونا ضروری ہے۔
چوتھی بات یہ کہ انداز دو ٹوک اختیار کیا جائے ۔
پانچویں خوبی تکرار سے گریز ہے۔
چٹھی خوبی موضوع پر رہنا ۔
ساتویں خوبی لکھنے کے بعد بار بار دیکھنا ہے جس کا مطلب جملہ سازی اور مصرع سازی کو پیش کرنے سے پہلےاس کی نوک پلک سنوارنا ہے تاکہ تخلیق کیا جانے والا ادب غلطیوں سے حتی الامکان مبرا ہو جائے۔
آٹھویں خوبی یہ ہے کہ بہتر سے بہتر مصرع لکھنے کی کوشش کرتے رہنا حتی کہ بہترین لکھا جائے۔
طنزو مزاح اور طربیہ سہل ممتنع:
یوں تو شعر و ادب الفاظ کا کھیل ہےلیکن طنزومزاح کا تخلیقی استعمال بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ رعایتِ لفظی سے فائدہ اٹھانے کے لیے زبان و بیان پر دسترس لازمی امر ہے۔ بلاشبہ بنا موضوع کے الفاظ سے کھیلنے کی کوئی صورت نہیں ہے اس لیے قاری کا ادب کے منظر و پس منظر سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ مشتاق احمد یوسفی اور مشفق خواجہ کی تحریروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔
سہل ممتنع
چھوٹی بحر میں بڑی بات کہہ جانا یا ایسی بات کہنا جو بظاہر سادہ سی بات ہو لیکن غور کرنے پر وسعت نظر آئے۔
میر تقی میر کو سہلِ ممتنع کا بے تاج بادشاہ قرار دیا جاتا ہے۔ اردو میں دیگر کئی شعرا کے ہاں بھی سہل ممتنع پایا جاتا ہے۔ مختصر الفاظ میں گہری اور بھرپور بات کہنا بہت مشکل کام ہے جو ماہرین فن سے ہی ممکن ہے۔
میر کے ہاں سادگی اور سلاست کا عنصر زیادہ نمایاں ہے۔سہل ممتنع ان کا خاص فن ہے۔ سادہ اور چھوٹے سے شعر میں بڑی بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔
میر کی سہل ممتنع کے بارے اثر لکھنوی کہتے ہیں کہ ” زندگی کا شائد ہی کوئی پہلو ہو جس کی مصوری میر نے بہترین الفاظ اور موثر ترین پیرائے میں نہ کی ہو ان کے اشعار سہل ممتنع ہیں۔“
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
سہل ممتنع اور چھوٹی بحروں میں کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے-
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا وفا کیا ہے
آگے آتی تھی حال دل پر ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
غالب
بس یہی کام سب کو کرنا ہے
یعنی جینا ہے اور مرنا ہے
سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
یہ نہ سمجھیں کہ آہ کرتا ہوں
اکبر
آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر
عارض کہ شراب تھر تھرائے
شہر میں شور، گھر میں تنہائی
دل کی باتیں کہاں کرے کوئی
ناصر کاظمی
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے مؤرخہ 15 جون 2019 بروز ہفتہ پاکستانی وقت شام ۔ 07:00 بجےاور ہندوستانی وقت شام ۔07:30بجے مندرجہ دو طرحی مصرعوں پر پروگرام منعقد کرنے کی نوید سنائی۔
مصرع طرح نمبر 1
جگر مرادآبادی
جدھر دیکھتا ہوں پریشانیاں ہیں
اس میں قافیہ: پریشانیاں.. آسانیاں..حیرانیاں اور افاعیل فعولن فعولن فعولن فعولن اور
مصرع طرح نمبر 2
فراق گورکھپوری
فراقؔ خواب یہ دیکھا ہے قید خانے میں
جس کے لیے قافیہ: قیدخانے..زمانے..فسانے وغیرہ اور افاعیل مفاعلات فعولن مفاعلن فعلن تھے۔
بانی و چیئرمین جناب توصیف ترنل ہانگ کانگ کے زیر نگرانی اس پروگرام کا آغاز اپنے وقت پر ہوا۔
اس اہم مشاعرہ کی مسند صدارت پر راجوری کشمیر بھارت کی مشہور و معروف اور جدید لب و لہجہ کی شاعرہ محترمہ روبینہ میر صاحبہ متمکن ہوئیں۔ جنہوں نے جگر مراد آبادی کے مصرع پر کلام عطا فرمایا:
حقیقت میں وہ بے ارادہ تھیں ساری
ہوئی مجھ سے جتنی بھی نادانیاں ہیں
پہلے مہمانِ خصوصی محترم عتیق دانش نے لاہور پاکستان سے جگر کے مصرع پر اپنا کلام پیش فرمایا:
کہا یہ جگر نے جگر خون کر کے
جدھر دیکھتا ہوں پریشانیاں ہیں
دوسرے مہمان خصوصی جناب عامر حسنی ملائشیا سے یوں گویا ہوئے کہ
خدا کی رضا پر جو راضی رہیں دل
یہی تو حقیقت میں قربانیاں ہیں
مہمان اعزازی محترمہ سیما گوہر نے بھارت سے اپنا کلام عطا فرمایا کہ:
ہر اک شخص الجھا ہوا سا لگے ہے
تا حدِ نظر بس پریشانیاں ہیں
نظامت کی کرسی آج بھی منجھ ہوئی ناظمِ مشاعرہ اور خوب صورت لب و لہجہ کی شاعرہ محترمہ صبیحہ صدف بھوپال بھارت نے سنبھالی اور اپنے ہی کلام سے اس طرحی مشاعرہ کا آغاز کیا:
یہ طنز و تیر یہ طعنے یہ دل جلی باتیں
مزہ ہے اتنا کیوں تم کو مجھے ستانے میں
قارئین محترم!
خاکسار احمدمنیب لاہور پاکستان سے اس مشاعرہ کی رپورٹ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت پا رہا ہے۔
یاد رہے کہ ہمارے ادارے کا ہر ایک پروگرام نقد و نظر کا پیمانہ لیے ہوتاہے اس بار ناقدین کی فہرست میں ایک بہت ہی پیارے شاعر اور ناقد کا اضافہ دیکھنے میں آیا میری مراد محترم المقام جناب ذوالفقار نقوی صاحب سے ہے جنہوں نے گاہے گاہے اور پھر بعد میں بھی شعرا کے کلام پر گفتگو فرمائی۔ ان کے علاوہ محترم مسعود حساس کویت، محترم شفاعت فہیم بھارت، محترم شہزادنیر پاکستان اور محترم غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان ناقدین میں شامل تھے۔ محترم غلام مصطفےٰ دائم صاحب نھے ساتھ کے ساتھ کئی ایک شعرا کے کلام پر نقدو نظر پیش کیا جو ساتھ کے ساتھ حاضرین کی خدمت میں پیش کی جاتی رہی۔
قارئین محترم!
ناظمِ مشاعرہ نے پروگرام کا بہت ہی خوب صورت اور مسحور کن آغاز فرمایا۔آج کے پروگرام کا آغاز نعت رسول مقبولﷺسے ہوا جو محترم نفیس احمد نفیس ناندوری انڈیا نے پیش کرنے کی سعادت پائی۔
اُمت کے آقا مالک و مختار آپﷺ ہیں
خیرالانام نبیوں کے سردار آپ ﷺ ہیں
پھر ناظم مشاعرہ نے اپنا کلام سنایا اور اپنے بعد محترم اشرف علی اشرف کو دعوت کلام دی جو سندھ پاکستان سے تشریف فرما تھے وہ گویا ہوئے:
جگر کے قوافی ہی برتے ہیں لیکن
کہاں وہ جگر کی فراوانیاں ہیں
ان کے بعد محترمہ ساجدہ انورنے کراچی پاکستان سے بہت ہی خوب غزل سنائی جیسا کہ :
ہزار لطف ہو غیروں کے عیش خانے میں
مگر قرار تو ہے اپنے آشیانے میں
انہوں نے جگر کے طرح مصرع پر بھی طبع آزمائی کی اور فرمایا:
ادھر آسماں سے لہو رِس رہا ہے
تو پھولوں پہ مسکان مستانیاں ہیں
خاکسار راقم الحروف احمد منیب نے لاہور پاکستان سے فراق کے مصرع پر غزل کہی کہ:
ہمیں دکھائیے اپنے ہنر کی یکتائی
سنا ہے آپ تو ماہر ہیں دل دکھانے میں
اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے آواز دی محترمہ ماورا سید صاحبہ کو جو کراچی پاکستان سے تشریف رکھتی تھیں وہ گویا ہوئیں کہ:
نئی تہذیب کے مقابر میں
بین کرتی ہوئی جوانیاں ہیں
ان کے بعد جناب جعفر بڑھانوی نے انڈیا سے کلام پیش کیا اور کیا خوب کیاکہ:
کہیں پر غریبی نے مارا کسی کو
کہیں پر خوشی کی یہ شہنائیاں ہیں
ان کے بعد محترم تہذیب ابرار صاحب نے بجنور انڈیا سے کلام پیش فرمایا کہ
کسی نے مجھ کو لٹایا ہے دونوں ہاتھوں سے
کسی نے عمر گنوا دی مجھے کمانے میں
ان کے بعد ناظمِ مشاعرہ کی دعوت پرمحمد زبیر گجرات پاکستان سے اپنا کلام پیش فرمایا کہ:
لگیں گے سال ہزاروں یہاں تک آنے میں
میں جی رہا تھا کسی اور ہی زمانے میں
محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی مرادآباد بھارت نے اپنی باری پر بہت ہی خوب صورت کلام پیش فرمایاکہ:
پگھل رہی ہے مسلسل جو برف آنکھوں سے
عجیب دھوپ ہے پلکوں کے شامیانے میں
محترم رضاالحسن رضا امروہہ یو پی بھارت سے اپنا کلام لے کر حاضر ہوئے کہ:
تم آ کے جاتے ہو کیوں اتنی دیر تو ٹھہرو
لگے گا وقت ابھی حالِ غم سنانے میں
جناب اصغر شمیم کولکاتا انڈیا سے کلام لے کر حاضر ہوئے کہ:
نہیں اب ضرورت ہے توبہ کی ان کو
کہاں کچھ بھی ان کو پشیمانیاں ہیں
اپنے مخصوص اور خوب صورت لب و لہجہ کے سینئر شاعر جناب علی شیدا کشمیر نے کلام عنایت فرمایا:
انہیں تلاش بقا تھی نکل گئے سارے
زوال زاد ہوں تنہا ابھی فسانے میں
برادرم محترم نفیس احمد نفیس ناندوری انڈیا سے کلام سنانے حاضر ہوئے کہ:
تجھے تراش کے ہیرا بنایا تھا جس نے
اُسی کا ذکر نہ آیا ترے فسانے میں
محترم ڈاکر بلند اقبال نیازی نے اپنا کلام پیش فرمایاکہ
اگرچہ شکستہ ہوں اقبالؔ پھر بھی
وہی جوش و جذبہ ہے جولانیاں ہیں
بہت ہی منجھے ہوئے شاعر ایک مؤقر نقاد جناب ضیا شادانی صاحب نے کلام عطا فرمایا کہ:
محبت کی قیمت ادا کر رہا ہوں
مرے ساتھ جب تک یہ رسوائیاں ہیں
قارئین محترم!
دو گھنٹے سے بھی زیادہ جاری رہنے والا یہ مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچنے والا تھا کہ ناظم مشاعرہ نے صدرِمجلس محترمہ روبینہ میر صاحبہ کودعوت کلام دی اور عرض کیاکہ خطبۂ صدارت بھی پیش فرمائیں۔ چنانچہ انہوں نے کلام بھی پیش فرمایا اور خطبۂ صدارت بھی ارشاد فرمایا۔
خطبہ ٔ صدارت
ادارہ عالمی بیسٹ اُردو پوئٹری گروپ کے بانی و سرپرست محترم توصیف ترنل صاحب،صدرِ ادارہ محترم مسعود حسّاس صاحب، معزز انتظامیہ، ناظم ِ مشاعرہ،معزز شعراءِ کرام ،حاظرین و ناظرین شُرکا حضرات!
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
ستارے ڈوبنا،شبنم کا رونا، شمع کا بُجھنا
ہزاروں مرحلے ہیں صُبح کے ہنگامے سے پہلے
(ن م )
احبابِ ذی وقار!
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں۔کہ انسان کی روز مرہ زندگی میں ادب کی کیا اہمیت اور افادیت ہے ۔ادب زندگی کے مقاصد کو پورا کرنے میں کس قدر مدد گارو معاون ثابت ہوا ہے۔شاید اسی چیز کو مدِ نظر رکھتے ہوے کئی ادبی تنظیمیں وجود میں آکر اُردو ادب کے فروغ کی آبیاری کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔چاہے زمینی سطح پر کوئی تنظیم ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہو یا پھر برقی دُنیا میں۔
ہم میں سے کون نہیں جانتا؟ کےکوئی بھی تنظیم یا ادارہ چلانے کے دوران کس قدر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔چاہے وہ وٹسپ گروپ ہو یا پھر فیس بُک گروپ۔ ادارے کا سربراہ ، پروگرام آرگنائزر دس تیس پروگرام منعقد کرنے کے بعد ہار مان لیتے ہیں۔کیونکہ ایسے پروگرام منعقد کرنے کے لیےبہت سی دِقتیں پیش آتی ہیں۔ایسے میں ہمیں سمجھنا ہو گا۔کہ 207 پروگرام تک پہنچنے کے لیےجناب توصیف ترنل صاحب کو کن کن مُشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔اس کامیابی کے پیچھے کتنی جدوجہد رہی ہوگی۔
مانا کہ بہت سی تنظیمیں اُردو ادب کے فروغ کے لیےکام کر رہی ہیں۔لیکن اس میں شک نہیں۔کہ ادارہ عالمی بیسٹ اُردو پوئٹری ایک ایسا ادارہ ہے جو اُردو ادب کے فروغ کے لیےہمیشہ سے مُنفرد اور انوکھے پروگرام کرتا آرہا ہے۔اس ادارے کے کام اپنی مثال آپ ہیں۔جس میں یہ بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔کہ ادارے کے سبھی ارکان رضاکارانہ طور پر جوق در جوق کام کرتے پائےجاتے ہیں۔چاہے وہ انتظامیہ ہو یا پھر قلمکار۔یہاں ہر قلمکار نے نثرو نظم کے میدان میں نہایت جانفشانی اور عرق ریزی سے فن پارے تخلیق کر کے عالمی سطح پر اپنی تحریر کا لوہا منوایا ہے۔یہ بات بھی قابلِ ستایش ہے۔کہ اس ادارے میں عالمی سطح کے ایسے قلمکار شامل ہیں۔جو تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور بذاتِ خود اپنا کلام تنقید کے لیے پیش کرتے ہیں۔ ادارے کی یہ خصوصیت بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہاں ہر پروگرام کسی خاص موضوع پر منعقد کیا جاتا ہے ۔ پروگرام منعقد کرنے کے بعد پروگراموں کی تفصیلی رپورٹس پرنٹ میڈیا ، فیس بُک لائیو اور دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعے دُنیا کے سامنے لائی جاتی ہیں۔اس ادارے کو ایسے گوہرِ نایاب رِپورٹرس میّسر ہیں کہ جس شخص کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ یوں تو سبھی رِپورٹرز ادارے کی کارکردگی اور پروگرام کے حوالے سے بہترین رِپورٹس پیش کرتے ہیں لیکن احمد منیب صاحب کی رپورٹ، رپورٹ سے زیادہ ایک معلوماتی مضمون ہوتا ہے۔جس میں قارئین کے لیےزیادہ سے زیادہ پروگرام کےعُنوان کے متعلق منظر اور پس منظر کی جانکاری فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہوتی ہے۔جس میں کئی کتابوں کے حوالہ جات شامل ہوتے ہیں ۔ میں کبھی بھی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتی لیکن جو حقیقت ہے اُسے بیان کرنے سے باز نہیں رہ سکتی ۔ یہاں اگر میں ادارے کے صدر جناب مسعود حسّاس صاحب، جناب شفاعت فہیم صاحب، جناب شہزاد نیر صاحب،اور غلام مصطفےٰ دائم اعوان صاحب کا ذکر نہ کروں تو نا انصافی ہو گی۔
جس طرح ادارے کے دیگر اراکین زندگی کی گوناگوں مصروفیت میں قید ہونے کے باوجود اپنی تمام تر مصروفیت کو بالائے طاق رکھ کر ادارے کےلیے وقت نکالتے ہیں۔اسی طرح یہ ناقد حضرات بھی ماہرِ فن ہونے کے ناطے سب قلمکاروں کی تخلیقات کو نقدو نظر سے نوازتے ہیں۔اگر چہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سبھی ناقدین کی تنقیدی نظر اور حِس بہت تیز ہے۔لیکن اللہ پاک نےمحترم مسعود حسّاس صاحب کو لفظی کائنات کا وافر حصہ عطا کیا ہے۔ جسے وہ تنقیدی نکات کے ذریعے اُردو ادب کے فروغ میں صرف کر رہے ہیں۔مسعود حسّاس صاحب ماہرِ عروض و فن ہونے کی بدولت ( صوتی پیغام کے ذریعے) عروض کے نکتوں پر تفصیلاً روشنی ڈال کر دلیل سے عروض کے متعلق باریک نُکتوں کی جانکاری فراہم کرتے ہیں ۔حسّاس صاحب کا زبان پر قدرت ہونے کے ساتھ ساتھ اندازِ بیان حد درجہ دلکش پُر لُطف اور رواں ہوتا ہے۔جو قابلِ تعریف ہے ۔ مجھے اس بات کا یقین ہے۔کہ پروگرام کی یہ انفرادیت اُردو ادب کے خزانے میں ایک قابلِ قدر اضافہ ثابت ہو گا۔
سچائی یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی شخص ہے جس کے سر اس کامیابی کا سہرہ جاتا ہے۔یعنی اس ادارے نے دو یا تین سال کی کڑی محنت کے بعد یہ سنگِ میل طے کیا ہے۔جس کےلیےمیں بقول شاعر اتنا ہی کہنا چاہوں گی۔
دُنیا میں وہی شخص ہے تعظیم کے قابل
جس شخص نے حالات کا رُخ موڑ دیا ہے
( ن م )
میں ذاتی طور پراس ادارے کی بے حد مشکور و ممنون ہوں جس کی بدولت مجھے عالمی سطح کی علمی اور ادبی شخصیات سے مُستفید ہونے کا موقع ملا۔اس ادارے نے مجھے ادب دوست شخصیات سے متعارف کروایا۔اس لیے اس ادارے کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
میں ادارے کے تمام منتظمین کی بالعموم محترم احمر جان صاحب کی بالخصوص ممنون ہوں جنہوں نے مُجھ ناچیز کو اس عُہدے کےلیے چُن کر شُکریہ کا موقع فراہم کیا۔ جو میرے لیےباعثِ اعزاز و اِفتخار ہے۔ میں سبھی معزز شعرا حضرات کو فرداً فرداً مُبارکباد پیش کرتی ہوں۔جن کی آج کے پروگرام کی ترسیلات بھی خوب سے خوب تر رہیں۔
میں ایک بار پھر محترم توصیف ترنل صاحب ناظمِ مشاعرہ محترمہ صبیحہ صدف صاحبہ و دیگر اراکین بزم اور ادارے کے انتظامیہ کو دلی مُبارکباد پیش کرتی ہوں۔جن کی انتھک محنت اور کوشش کی بدولت ہمیشہ کی طرح ایک اور شاندار اور کامیاب پروگرام منعقد ہوا۔
اس ادارے کے منفرد پروگراموں کا منظم طریقے سے انعقاد اس ادارے کے بانی و سرپرست اور انتظامیہ کو اپنی منفرد شناخت دلوانے میں کامیاب ثابت ہو گا۔ ان شاء اللہ
اس دُعا کے ساتھ آپ سے اجازت چاہتی ہوں۔
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری اُمیدوں کا
جِگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
( اقبال)
خلوص کیش
روبینہ میر ۔ جموں کشمیر ۔ بھارت۔
15جون 2019
یوں یہ پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔
خاکسار
احمد منیبؔ