فارسی کلام:
مرزا عبدالقادر بیدلؔ
اُردو ترجمہ:
احمدمنیبؔ
۱: اگر بهگلشن ز نازگردد قد بلند تو جلو ه فرما
ز پیکرسر وموج خجلتشود نمایان چو می ز مینا
اے میرے محبوب! اگر تیرا حُسن اپنی تمام تر رعنائیوں اور اداؤں کے ساتھ گلشن میں جلوہ افروز ہوجائے تو تیرے سرو سراپے کو دیکھ مینا بھی منہ چھپاتی پھرے گی ۔
۲: ز چشم مستت اگر بیابد قبولکیفیت نگاهی
تپدزمستیبه رویآیینهنقش جوهرچوموج صهبا
اے میرے محبوب! تیری مست نگاہی اگر مجھے قبول کر لے تو میں کسی موجِ شراب کی مانند آئینۂ فطرت میں جوہر کے نقش کی طرح بے قرار ہو کر رقص کرنے لگوں۔
۳: نخواند طفل جنون مزاجم خطی زپست وبلند هستی
شوم فلاطون ملک!دانش اگر شناسم سر ازکف پا
اے طفل مکتب! تو میرے مزاج کے ظاہر و باطن کے جذب و جنون کا شعشہ بھی نہیں جان پایا کیونکہ اگر مجھے پہچان لیا جائے تو یقیناً مجھے اپنے زمانے کا افلاطون تسلیم کر لیا جائے۔
۴: به هیچ صورت زدورگردون نصیب مانیست سربلندی
زبعد مردن مگر نسیمی غبار ما را برد به بالا
گردش و اِدبارِ زمانہ کی وجہ سے ابھی میرے مقدر میں شہرت و سر بلندی نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ مرنے کے بعد نسیم ِ صبا میری خاک کو بہت اُونچا اُڑا لے جائے گی اور میں شہرت کی آسمانوں پر سرفراز ہو جاؤں گا۔
۵: نه شام ما را سحرنویدی نه صبح ما راگل سفیدی
چو حاصل ماست ناامیدی غبار دنیا به فرق عقبا
میرے مقدر پر ابھی رات اور غبار و ظلمت چھائی ہوئی ہے ۔ سو نہ میری شام کے لئے نوید سحر ہے اور نہ صبح کے لئے گل سبوتی۔ پس ابھی میری زندگی کا ماحصل نااُمیدی ہے لیکن مرنے کے بعد بالضرور شہرت کی بلندیاں میرا مقدر ہوں گی۔
۶: رمیدی از دیده بیتأملگذشتی آخر به صد تغافل
اگر ندیدی تپیدن دل شنیدنی داشت نالهٔ ما
اے میرے محبوب! تو نے تو مجھے آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا جیسے میں التفات کے قابل بھی نہیں اور تجاہلِ عارفانہ کے ساتھ میرے قریب سے گزر گیا۔ مان لیا کہ تجھے میرے تڑپتے دل کی خبر نہ ہوئی ہو گی لیکن میری آہ و بُکا پر تو کان دھرتا۔
۷: ز صفحهٔ راز این دبستان ز نسخهٔ رنگ اینگلستان
نگشت نقش دگر نمایان مگر غباری به بال عنقا
اے میرے محبوب! دبستانِ حیات کے صفحات پر لکھے مخفی حروف بھی اُبھر آئے اور باغ زیست کی رنگین کتابوں کا ہر نقش واضح دکھائی دینے لگا لیکن وائے حسرت! کوئی بھی حربہ بال عنقا کو ظاہر کرنے میں کارگر نہ ہو سکا ۔
۸: بهاولین جلوهات ز دلها رمیده صبر وگداخت طاقت
کجاست آیینه تا بگیرد غبار حیرت درین تماشا
اے میرے محبوب! تجھ پر پہلی نظر پڑی تو دل کا صبر و قرار لُٹ گیا گویا جسم سے جان ہی نکل گئی۔میرے پاس آئینہ ہوتا تو میں بھی اپنی حیران کن صورت اور کیفیت کو دیکھ پاتا۔
۹: به دورپیمانهٔ نگاهت اگر زند لاف می فروشی
نفس به رنگکمند پیچد زموج می درگلوی مینا
اے میرے محبوب! اگر تو نشیلی آنکھوں سے شراب بانٹے تو مے کش کا سانس اس کے گلے میں پھانس بن کر ایسے اٹک جائے جیسے صراحی کی گردن کسی پھندے میں پھنس جاتی ہے ۔
۱۰: بهبوی ریحان مشکبارت بهخویش پیچیدهام چوسنبل
ز هررگ برگگل ندارم چو طایررنگ رشته برپا
اے میرے محبوب! میں نے گلِ ریحان کی خوشبو کی طرح تیری خوشبو میں خودکو مسحور و محصور کر رکھا ہے گویا سنبل کا درخت ہوں۔ میری ہر شاخ پر پرندوں کو لبھانے والے پھول نہیں کھلتے۔
۱۱: به هرکجا ناز سر برآرد نیاز هم پایکم ندارد
توو خرامی و صد تغافل، من و نگاهی و صد تمنا
اے میرے محبوب! خوب ناز و ادا دکھا تاکہ میرے اندر تیرے دیدار کی خواہش مزید بھڑکے کیونکہ جس قدر تو مجھ سے بے اعتنائی برتے گا تجھے دیکھنے کی تمنا اُسی قدر میرے اندر بڑھتی چلی جائے گی۔
۱۲: ز غنچهٔ او دمید بیدل بهار خط نظر فریبی
به معجز حسنگشت آخر رک زمرد ز لعل پیدا
بیدلؔ! یاد رہے کہ تیرے کلام کی یہ بہار اسی محبوب کے غنچے سے پھوٹی ہے اور یہ زَمَرُّد نما غزل اسی محبوب کی خوبیٔ حسن کے معجزے کا کمال ہے۔