بالآخر شرجیل عثمانی بھی گرفتار کرلئے گئے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایے ایم یو میں سی اے اے مخالف مظاہروں کا انعقاد کیا تھا۔ ایک اورتعلیم یافتہ نوجوان کی زندگی برباد ہوگئی ۔ گھر والوںکی تکلیف الگ ۔ بلریاگنج کا واقعہ ہوئے توابھی زیادہ دن نہیں گزرے جہاں چند جوشیلے نوجوانوں کی غلطی کا خمیازہ وہاں کے لوگ بھگت رہے ہیں۔ تین چار مہینے بعد بڑی مشکل سے ہائی کورٹ سے ضمانت ہوسکی۔ بہتوں کا کاروبار ٹھپ ہوگیا، نوکری چھوٹ گئی ۔ کیس مقدمہ میں لاکھوں ڈوب گئے پریشانی اور بدنامی الگ سے ہوئی۔ اور اس پر بھی نہ سی اے اے واپس ہوا اور نہ ہی این آرسی اور این پی آر کے حوالے سے حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی۔ ۔۔۔۔یہ اور اس جیسے نہ جانے کتنے سوال اور تجزیے ہماری روزمرہ کی بحث و سوچ کا حصہ ہیں۔ گرچہ اس طرح کے سوالات کی شرح ماضی کے مقابلے میں کافی کمی دیکھنے کو ملی ہے لیکن پھر بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بہت کچھ بدلنا باقی ہے۔
دہلی فسادمیں مسلمانوں کا قتل عام، جامعہ میں پولیس ایکشن اور شاہین باغ سمیت دوسرے مقامات پر مظاہرین کی گرفتاری کے نقوش ابھی تازہ تھے کہ لاک ڈاون نے مستقبل کو اور موہوم بنادیا ۔ حکومتی جبر نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور تذبذب کا شکار ہے کہ امن و تحفظ اور نجات کی ضامن راہ کون سی ہے لیکن کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔ بلریا گنج ہی نہیں بلکہ ملک میں ہونے والے مظاہروں میں کئی کے بارے میں اس طرح کی باتیں سامنے آئی اور آبھی رہی ہیں کہ اس سے کیا فائدہ ہوا اور کتنا نقصان ہوا۔ اس کو بغیر سوچے سمجھے اور بنامنصوبہ بندی کے کیوں کیا گیا۔ اگر اس کو اس طرح کیا گیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔
اس ضمن میں صرف اتنی سی بات عرض کرنی ہے کہ ملت کو سی اے اے اور این آر سی کے حوالے سے جو خطرات درپیش ہیں ان سے پوری ملت کا وجود داؤ پر ہے نہ کہ اس کا نشانہ کوئی مخصوص گروپ یا فرد ہے۔ بہتر ہوتا کہ جن لوگوں کو بڑے بڑے پروگرام اور کانفرنسیں کرنے کا تجربہ تھا ، قیادت کے اصولوں سے واقفیت تھی ، اجتماعیت کو بنانے ، سنوارنے اور اس کو لے کر چلنے کی قابلیت تھی ، ایسے لوگ اس کارخیر کو آگے بڑھ کر سنبھالتے اور ملت اسلامیہ سمیت دیگر محروم طبقات میں بھی ایک انقلابی روح پھونک دیتے۔ اپنے علم اور لیاقت سے جہاں ایک طرف فرقہ پرست طاقتوں کو لاجواب کردیتے وہیں اپنے اتحاد اور تنظیمیت سے ان طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ توصرف اس پررونے اور کوسنے پر وقت ضائع کرنےسے بہتر تو یہی تھا کہ جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے۔ ویسے اگر باقاعدہ تجربہ کار لوگ بھی لائے جاتے تو بھی صرف اس بات کی امید ہی کی جاسکتی تھی کہ نتائج بہتر ہوں گے ، کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی تھی۔
ماضی کا تجزیہ کرنا ، اس سے نتائج اخذ کرنا، اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا محاکمہ کرنااور اس تجربہ سے مستقبل میں بہتر منصوبہ بندی کی افادیت سے انکار نہیں لیکن اگر یہ عمل حوصلہ شکنی، پژمردگی اور اپنی کمیاں نکالنے تک ہی محدود ہوجائے تو اس کا لا محالہ نتیجہ تن آسانی اور بزدلی ہی ہوگا۔ دراصل اس طرح کے تجربات میدان عمل ہی میں پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو مزید بڑی جدوجہد کے لئے تیار کرتے ہیں۔اس طور پرعدم پختگی پر مبنی یہ ٹوٹے پھوٹے تجربات ہی مستقبل میں بہتر ،با حوصلہ اور دیرپا قیادت کے ضامن بنیں گے شرط یہ ہے کہ اخلاص نیت اور خود احستابی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔
اعظم گڑھ سمیت ملک میں جہاں جہاں لوگوں نے قربانیا ں دیں وہ اس قوم کی امانت ہے اور یہ بہت قیمتی امانت ہے۔ ان قربانیوں سے مزید حوصلہ لینے کی ضرورت ہے۔تاریخ کا ادنی ساطالب علم یہ بات جانتا ہے کہ ہر بڑی تبدیلی کے لئے کم ازکم اتنی ہی بڑی قربانی درکار ہوتی ہے۔ ملک کے کروڑوں مسلمانوں، دلتوں، آدی واسیوں اور محروم طبقات کے تحفظ اور بقا کی لڑائی میں یہ قربانی تو بہت تھوڑی ہے۔ لیکن قربان جائیے ان لوگوں پر جن کا شمار صف اول میں ہوا ہے۔ چاہے وہ دہلی کے خالد سیفی، عشرت جہاں اور شرجیل امام ہوں، جامعہ کے میران حیدر، صفورا زرگر اور شفیع الرحمن ہوں ، الہ آباد کے عمر خالد، اعظم گڑھ کے مولانا طاہر مدنی ان کی پوری ٹیم اور اب شرجیل عثمانی یا پھر وہ درجنوں معصوم افراد جنہیں دسمبر میں اترپردیش کے مختلف شہروں میں جرم بے گناہی کی پاداش میں شہید اور زخمی کیا گیا۔ جو ابھی بھی جیل میں ہیں یا ضمانت ملنے کے باوجود بھی سرکاری عتاب کا شکار ہیں۔ یہ سارے لوگ اس تاریخ کا حصہ ہیں جنہوں نے حق کو حق کہنے کی جرات کی اور یہی جرات مستقبل کی راہوں کو روشن کرے گی۔ ان مشکلات اور آزمائشوں سے ملنے والا سبق ان بھائیوں اور بہنوں کی صلاحیتوں کو مزید نکھارے گا اور خوف کی ہر جڑ کاٹ دے گا۔یہ پریشانیاں انشاء اللہ انہیں کندن بنادیں گی۔
قربان جائیے شرجیل کی ماں پر۔ ہمارا تو یہ خیال تھا کہ ان کو تسلی دینے اور ڈھارس بندھانے کی ضرورت ہوگی لیکن شرجیل کے بھائی نے ان کا جو بیان نقل کیا ہے اس میں انہوں نے کہا ہے کہ ان کے بیٹے نے کوئی چوری یا قتل نہیں کیاہے بلکہ وہ قوم کے لئے لڑ رہا تھا اور انہیں اس پر فخر ہے۔ یہ ایک ماں کے دل سے نکلنے والی وہ انقلابی صدا ہے جس کے جواں سال بیٹے کو جرم بے گناہی کی پاداش میں کرونا کی وبا کے دوران گھر سے سینکڑوں میل دورجیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔یہ وہ صدا ہےجس نے تاریخ کے ہر موڑ پر طاقت کا دھارا موڑا ہے ۔اس یہ ثابت ہوتا ہے کہ شاہین باغ کی ماؤوں اور بہنوں کا عزم وحوصلہ ملت اسلامیہ ہند کی ماؤوں اور بہنوں میں سرایت کرچکاہے۔
شرجیل کے بھائی اریب عثمانی نے اپنے تاثرات کا بھی اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ"ان کا بھائی جیل سے معافی نامہ نہیں لکھے گا۔"ویسے تو یہ ایک عام ساجملہ ہے لیکن دیکھنے والی نگاہیں جانتی ہیں کہ اس میں ایک تاریخ ہے اور کامیابی اورتمکنت کے کئی باب پوشیدہ ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ باطل کے لئے دیر تک محسوس ہونے والی ایک ٹیس بھی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...