ایسے افراد کائمرزم رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسی کنڈیشن ہے جس میں پریگنینسی کے بالکل شروع کے دور میں ایک نطفے کے خلیے یا ڈی این اے دوسرے نطفے میں جذب ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں وہ فرد یا جانور بیک وقت دو انڈیویجوئلز کے ڈی این ہے رکھتا ہے۔ جڑواں یا اس سے زیادہ حمل ہونے کی صورت میں دونوں بچے ایک دوسرے کے کچھ سیلز جذب کرلیتے ہیں۔ کبھی کبھی اگر ایک نطفہ حمل کے اوائلی دور میں مر جائے تو اس کی باقیات دوسرے نطفے میں جذب ہو جاتی ہیں ایسے میں تاریخ میں ایسے افراد کے رپورٹڈ کیسز کم ہیں لیکن سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ان کی تعداد رپورٹڈ کیسز سے زیادہ ہوسکتی ہے کیوں کہ اس کا پتا تب ہی چل سکتا ہے جب ڈی این اے ٹیسٹ ہو۔
ایسے افراد کے جسم کے مختلف اعضاء کا ڈی این اے مختلف ہوسکتا ہے۔ اس سے بھی عجیب صورت حال یہ ہوتی ہے جب کائمرزم رکھنے والی ماں کے بچے اس کا بلڈ ڈی این اے انہیرٹ نہیں کرتے بلکہ اووریز والا ڈی این اے رکھتے ہیں ایسے میں بلڈ ٹیسٹ کے نتائج کی بنیاد پہ وہ خاتون اپنے ہی بچوں کی بائیولوجیکل مدر ثابت نہیں ہوپاتی۔ میڈیکل سائنس میں ایسے چند کیسز موجود ہیں۔ ان میں سے ایک کیس میں ماں پہ کئی عرصہ اپنے ہی بچوں کو حبس بے جا میں رکھنے کا مقدمہ چلا۔ اور مسئلہ حل تب ہوا جب اگلے حمل سے پیدا ہونے والے بچے کا فوراً ڈی این ای ٹیسٹ کیا گیا اور نتیجہ وہی نکلا اس کے بعد اس خاتون کے خون سے سیمپل لینے کی بجائے دوسرے اعضاء سے ڈی این اے سیمپل لیا گیا۔ جو میچ ہوگیا۔
اس میں ایک اور عجیب صورت حال تب پیدا ہوتی ہے جب وہ فرد اپنے ایسے جڑواں بہن یا بھائی کا ڈی این اے رکھتا ہو جو کہ مخالف جنس سے تعلق رکھتا ہو۔ ایسے میں یہ افراد نہ صرف جنسی شناخت کے مسائل سے گزرتے ہیں بلکہ بیک وقت دونوں قسم کے تولیدی اعضاء کے حامل بھی ہوسکتے ہیں۔ اور ان کے تولیدی اعضاء مکمل طور پہ ورکنگ بھی کرتے ہیں۔
یہ واضح رہے کہ یہ بیماری یا ذہنی مسئلہ نہیں صرف ایک صورت حال ہے جو عام اکثریت سے مختلف ہے۔
بیک وقت دو الگ قسم کے ڈی این اے رکھنے کی وجہ سے ان افراد کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کا پیٹرن سنگل ڈی این اے رکھنے والے افراد سے مختلف ہوتا ہے اسی طرح یہ افراد اگر دو الگ جنس کے ڈی این اے رکھتے ہیں تو بیک وقت دونوں جنسوں کی طرف کشش محسوس کر سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرانس میلز یا ٹرانس فیمیلز میں سے کچھ افراد کائمرہ بھی ہوسکتے ہیں۔ جس کے باعث وہ اپنی ظاہری جنس سے ذہنی تعلق نہیں رکھتے۔
حمل کے دوران ماں کچھ عرصے اس کنڈیشن سے گزرتی ہے جب اس کے جسم میں اس کے بچے کا ڈی این اے بھی ہوتا ہے لیکن زچگی کے کچھ عرصے بعد یہ کنڈیشن ختم ہو جاتی ہے۔
کائمرہ افراد کے متعلق ابھی تحقیق پروگریس میں ہے چوں کہ ان کے رپورٹڈ کیسز کم ہیں جن کی بنیاد پہ تحقیق ہوسکے۔ لیکن اس کا امکان موجود ہے کہ یہ افراد انسانی جسم کے بہت سے رازوں کو سمجھنے میں مدد کر سکیں گے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...