ایرک ایرکسن (Eric Erickson) ایک ماہر نفسیات گذرے ہیں۔ انہوں نے انسان ذات کی نشو نما(Human Development) کے حوالے سے ایک بہترین نظریہ پیش کیا ہے۔ اس نظریے میں انہوں نے انسان کی نشونما کو جس انداز میں سمجھا اور پیش کیا ہے ، وہ قابل تعریف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کے پہلے دن سے آخری دن تک آٹھ مرحلوں میں سے گذرتا ہے۔ یہ آٹھ مرحلے اپنے اندر مختلف قسم کی خصوصیات رکھتے ہیں۔ ان میں سے پہلا مرحلہ وہ بھروسہ بمقابلہ شک(Trust Vs. Mistrust) کے طور پر پیش کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بچے کی معصومیت کا دور ہوتا ہے۔ اس میں بچہ زیادہ طور اپنا وقت نیند کرنے، دودھ پینے اور ماں کی نگرانی میں رہنے میں صرف کرتا ہے۔ ماں کا یہ پیار اور محبت بچے کے اندر بھروسے کا جذبے پیدا کرتا ہے۔ لیکن اگر ماں کا خیال کرنے کی عمل کہیں پھیکی پڑ جائے، یا اس میں وہ پیار و محبت نہ رہے تو یہ بچے کے اندر عدم اطمینان پید اکرتا ہے اور بچے کے اندر شک اور تذبذب پیدا ہوتا ہے۔
اس نظریے میں پیش کیے گئے پہلے مرحلے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ہم جموں و کشمیر کی موجودہ انتظامیہ کی طرف نظر دوڑائیں گے تو یہ بات سمجھنے میں کوئی پیچیدگی نہیں رہتی کہ یہاں کی انتظامیہ ارکسن کے پیش کردہ نظریے کے مطابق ابھی پہلے ہی مرحلے میں اَٹکی ہوئی ہے۔ یہ آگے نہیں بڑھی ہے۔ ایک دوسرے کے تئیں شک اور عدم اطمینان کی بیماری نہایت ہی پیوستہ ہوچکی ہے۔ یہی بات کشمیر کے اندر بسے انسانوں کے اوپر بھی صادق آجاتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ کشمیر میں کبھی حالات ٹھیک تھے ہی نہیں۔ کشمیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے ۔ دَرد و کر ہ کے ایک چنگل سے نکل کر دوسرے میں جا گرے۔ شاید کشمیریوں کی تقدیر میں یہی کچھ لکھا ہوا ہے۔ ان حالات میں کہاں امن ہوتا ہے، کہاں چین اور کہاں سازگاری۔ نہ آپ معاشی ترقی کی بات کر سکتے ہیں، نہ سماجی اور نہ ہی تعلیمی برتری کا کوئی ورد کیا جا سکتا ہے ۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ؛
موت ہے ایک سخت تر غلامی ہے جس کا نام
مکرو و فن خواشگی کاش سمجھتا غلام
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ کشمیر صدیوں سے ایک شورش زدہ خطہ رہا ہے ۔ اس کے بعد اِس شورش کے ضمن میں کئی ساری پیچیدگیاں جو آرہی ہیں، اُن میں لوگوں کا ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنا کوئی معیوب سی بات نہیں ہے۔ شک کے مقابلے میں بھروسہ ایک بہت بڑی چیز ہے۔ بھروسے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنا اعتماد کسی دوسرے انسان کے ہاتھ میں تھما دے۔ ایک انسان چنانچہ دوسرے انسانوں پر منحصر رہتا ہے۔ تعلقات کے جال میں ہر کوئی پھنسا ہوا ہے۔ یہاںکوئی الگ سے تنِ تنہا جی نہیں سکتا۔ انسان اپنی جنسی خواہشات سے لے کر روحانی سکون تک، معاشی ترقی سے لے کر ثقافتی برتری تک دوسرے انسانوں پر منحصر کرتا ہے۔ اس ضمن میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہے۔ بھرسے کی وساطت سے ہی انسان دوسروں کے ساتھ خوش دلی کے ساتھ جی سکتا ہے۔ یہ انسان کو کئی ساری بیماروں سے دور رہنے میں مدد بھی کرتا ہے۔
اگر آپ کا بھروسہ کسی انسان پر ہے، توسمجھ لیجیے یہ آپ کے لیے اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس میں مشکلات کا مداوا ہے۔ اسے آپ کی پریشانیاں اگر ختم نہیں تو کم ضرور ہو تی ہیں۔ اگر انسان کا انسان پر بھروسہ ہی نہ رہے تو یہ انسان کو کئی ساری ذہنی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس بیماری سے انسان کا ذہن کئی ساری غیر ضروری باتوں میں محض پریشانیوں کا انبار لیے مصروف رہتا ہے۔ انسان اپنی باقی ضروریات کا خیال نہیں رکھ پاتا۔
سماج میں ایسی صورتحال جب بحیثیت مجموئی انسانوں کی کثیر آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو اسے ترقیوں کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ انسانوں کے مابین جو رشتے مختلف سطحوں پر ہوتے ہیں ، ان میں حقوق کے ساتھ ساتھ ذمہ واریوں کا بھی عنصر موجود ہوتا ہے۔ اگر ہر کوئی اپنے حقوق کو منوانے کی بات کر رہا ہے، تو اسے پہلے اپنی ذمہ واریاں بھی انجام دینی ہوتی ہیں۔ذمہ واریوں کو جب اچھے سے مخلصی کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے تو اِسے سماج میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے۔ یوں ترقیوں کی نئی نئی راہیں کھل جاتی ہیں۔
اس بات کا مشاہدہ کئی بار کیا گیا ہے کہ انتظامی معاملات کی بجا آوری کو لے کر ایک سرکاری اہلکار کے نام کوئی آرڈر اجرا کیا گیا۔ لیکن آرڈر میں جہاں سرکاری اہلکار کو کوئی خاص کام انجام دینے کا حکم دیا جاتا ہے وہیں یہ بات بھی نمایاں طور پر لکھی جاتی ہے کہ اگر سرکاری ملازم وہ کام اپنے مقررہ وقت پر نہیں کرے تو اسے بر طرف سمجھا جائے گا(Deemed to be suspended)۔ اب اس میں جو سب سے بڑی قباحت اور تشویش ناک بات ہے، وہ یہ ہے کہ سرکار کو کام نپٹانے سے پہلے ہی کیوں اپنے اہلکار کو یہ دھمکی دینی پڑی۔ سرکاری محکمہ جات میں اسی طرح سے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ایک آفسر دوسرے آفسر کے نام آرڈر اجرا کرتے ہوئے اُسے یہ بات پہلے ہی بتا دیتا ہے کہ اگر کام میں کوئی دقعت رہ گئی تو اس آفسیر کو خود ہی ذمہ وار ٹھہرایا جائے گا۔ اس میں یہ بات ایک انسان کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ اگر ایک سرکاری ملازم خود سے ہی ذمہ دار ہے اپنے کام کے تئیں تو اعلیٰ اہلکار اُسے شک کی نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں، و ہ بھی کام کرنے سے پہلے۔ جب ایک سرکاری اہلکار کسی منصب پر براجمان ہوتا ہے، تو وہ اپنی ذات کو گم کر کے اُس وقت اسی منصب کے مطابق کام کرتا ہے۔ ملازم کا اُس منصب پر کام کرنا ہی یہ مطلب رکھتا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار شخص ہے اور اُسے اُس منصب کے دائرے میں رہ کر ہی کام کرنا ہوگا۔
یہ ساری صورتحال اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ انتظامی محکموں میں کس قدر شک اور تذبذب کی بیماری سرایت کر چکی ہے۔ دفاتر ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ کہنے کو تو اس میں شفافیت لانے کا مسلک پیش کیا جارہا ہے، لیکن اس سے سرکاری کام کاج پر کتنا اثر پڑتا ہے، اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ یہاں مرنے کے بعد مستحقین کا نام عدالت کے ایوانوں میں لیا جاتا ہے۔ مستحقین کو یکے بعد دیگرے مختلف قسم کے بے جا دستاویزات لانے کو کہا جاتا ہے۔ دنیا آن لائن ہو چکی ہے، لیکن ہمارے دفاتر ابھی بھی ہری سنگھی پالیسی پر گامزن دکھاتے ہیں۔
سرکار کو چاہیے کہ اپنے ملازمین کے اندر احساس ِذمہ داری کا مادہ پیدا کریں۔دنیا میں ایسا کوئی قانون ہی نہیں ہے نہ کوئی ایسی مشینری ایجاد کی جاسکتی ہے جس سے کہ رعایا کے خیالات کی پرکھ اور نیت کی چھان بین کی جاسکے۔ لوگ ایک دوسرے کو تکالیف پہنچا سکتے ہیں، غبن کر سکتے ہیں، لوٹ کھسوٹ کر سکتے ہیں، رشوت کھا سکتے ہیں، غیر قانونی طریقہ کار کو عملا سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ بچ نکل سکتے ہیں۔ آئے روز جو گھپلے سرکاری خزانوں میںکئے جاتے ہیں اور جن کی خبریں اخبارات وغیرہ میں آجاتی ہیں ،یہ و ہ معاملے ہوتے ہیں جو سامنے آتے ہیں۔ ایسے کتنے معاملے ہوں گے جو کہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوتے ہوں گے یا جہاں قانون کی نظر نہیں پہنچ پاتی ہوگی ۔ اس ضمن میں جو بات سمجھنے کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ ملازمین کے ساتھ ساتھ رعایا کی بھی اتنی تربیت کی جائے کہ وہ خود کے لیے خود ہی پولیس اہلکار ثابت ہو جائیں۔ ایسی تربیت صرف تعلیم سے ہی کی جا سکتی ہے، لوگوں کو سہولیات پہنچانے سے ہو سکتی ہے، دفاتر میں کام کاج کے طرز عمل میں سدھار لانے سے ہو سکتی ہے، ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے سے ہو سکتی ہے، نہ کہ شک اور تذبذب کی نگاہ سے دیکھنے سے، عامرانہ احکامات نکالنے سے، ڈنڈے برسانے سے یا مچلکہ نامہ لکھوانے سے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...