تکیہ تارڑ ماڈل ٹاون پارک میں جناب مستنصرحسین تارڑ کی زیرصدارت نامور انڈین ادیب مشرف عالم ذوقی مرحوم اور ان کی اہلیہ تبسم فاطمہ مرحومہ کی یاد میں ایک تعزیتی نشست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرونا کی وبا نے دُنیا بھر کو اپنے شکنجے میں لے کر ہزاروں کی تعداد میں انسانوں کو موت کے گھات اتار دیا ہے۔۔ دنیا کا کوئی بھی ملک اس کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں رہ سکا۔۔ کرونا کی تیسری لہر نے پوری دنیا میں شدت کے ساتھ موت کا اک بازار گرم کررکھا ہے۔۔۔ جہاں پاکستان میں اس کے مہلک اثرات سے کئی ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں وہیں اس حالیہ خوفناک لہر سے پڑوسی ملک انڈیا میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔۔۔ ان میں بہت سے ادیب اور شاعر بھی اس کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔۔ موت کے جاری اس دہشت ناک کھیل میں اردو ادب کا بہت بڑا اثاثہ ضائع ہوگیا ہے۔۔۔
انہی افراد میں انڈیا سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب مشرف عالم ذوقی اور ان کی اہلیہ بھی شامل ہیں جو آگے پیچھے ہی دو دنوں میں اس فانی دنیا کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملے۔ ان دونوں ادیبوں کی اس ناگہانی موت سے انڈیا پاکستان کے ادبی حلقوں میں خاصے دکھ اور افسوس کاظہار کیا گیا۔۔۔
ماڈل ٹاون پارک لاہور میں مشرف عالم ذوقی اور ان کی اہلیہ محترمہ تبسم فاطمہ کی وفات کے سلسلے میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔۔۔
اس کی صدارت پاکستان کے معروف ادیب جناب مستنصر حسین تارڑ نے کی۔۔۔ اس نشست میں جناب مستنصر حسین تارڑ کے علاوہ عالمی اخبار کویت کی پاکستان میں نمائندہ ایڈیٹر محترمہ شاہین رضوی ، اشرف رضوی، طارق عزیز، رانا عثمان، ملک سرفراز، ڈاکٹر نسیم چوہدری، محسن، مس عائشہ، ذوالقرنین، یوسف خان، فہد ایوب ، پی ٹی وی کے پروڈیوسر طاہر حفیظ شامل تھے۔۔۔
نشست کے شرکاء نے مرحوم مشرف عالم ذوقی کے ناولز پوکے مان کی دنیا، بیان، نالہ شب گیر، مرگ انبوہ،مردہ خانے میں عورت،ادبی سکرپٹ، پروفیسر ایس کی عجب داستان، ایک سراغ رسان کی ڈائری اور دیگر کتب بارے اپنی رائے کا اظہار کیا۔۔۔
صریر پبلیکیشنز کے آرٹ ڈائریکٹر اور پبلیکیشنز مینجر طارق عزیز نے بتایا کہ پاکستان میں ان کے ادارے نے ان کے تین ناول شائع کیے جن میں پوکے مان کی دنیا، نالہ شب گیر اور بیان شامل ہے۔۔۔ مشرف عالم ذوقی نے پاکستان میں اپنے ان ناولز کی اشاعت پر مسرت کا اظہار کیا تھا۔۔۔ مزید ان کے دو ناول پروفیسر ایس کی عجب داستان، اور ایک سراغ رسان کی ڈائری ابھی اشاعت کے مراحل میں ہیں لیکن قدرت نے انھیں مہلت نہ دی اور ذوقی صاحب اس سے قبل ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔۔۔
شاہین اشرف رضوی نے کہا کہ 24 نومبر 1963میں بہار کے ضلع آرہ میں جنم لینے والے مشرف عالم ذوقی نے اپنی ذہانت ذکاوت اپنے منفرد اسلوب فکر اور متنوع مؤضوعات سے ھندی، اردو اور دیگر زبانوں میں متعدد تخلیقات کا تحفہ اپنے قارئین کو دیا۔۔ مشرف عالم ذوقی کو عالمی ادب پر گہری دسترس حاصل تھی۔۔ وہ بہت اعلی معیاری گفتگو کرتے انکی قادر الکلامی قاری کو حیران کر دیتی۔۔ یہ خوبی ان کو فکشن نگاروں میں بھی نمایاں رکھتی انکی پچاس سے زیادہ تخلیقات پاک و ھند اور دنیائے ادب میں بہت پسند کئ جاتی۔۔۔ انکے چونکا دینے والے عنوانات اور موضوعات پر مشتمل متعدد ناول، افسانوں کے مجموعے، علامتی کہانیاں، تنقیدی مضامین، تاریخ و سیاست تحقیق ریاضی مزاحمتی افسانے انکی بھر پور قلمی تخلیقی صلاحیتیں کی عکاسی کرتے ہیں مشرف عالم ذوقی کی قادرالکلامی ان کا گہرا مشاہدہ غیر ملکی ادب پر قابل رشک مہارت کی بدولت وہ ادبی دنیا میں اپنی علیحدہ پہچان اور شناخت رکھتے تھے۔۔۔
آخر میں جناب مستنصر حسین تارڑ صاحب نے شرکاء سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرف عالم ذوقی اور اس کی اہلیہ کی اس المناک موت نے مجھے بہت گہرے صدمے سے دوچار کیا ہے میں اپنے غم کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔۔ مشرف عالم ذوقی سے میری جان پہچان تو نجانے کب سے میری کتب کے ذریعے ہوچکی تھی لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے ہم دونوں میں تقریبا آٹھ سال سے بات چیت کا تعلق استوار تھا۔۔ ہم اکثر مختلف موضوعات پر ٹیلی فون پر بات کیا کرتے تھے۔۔۔ مرحوم بہت نفیس اور شستہ اردو بولا کرتے تھے۔۔ اس طرح کا لب لہجہ بہت کم ادیبوں میں پایا جاتا ہے۔۔۔ میں نے جب مشرف عالم ذوقی کا ناول پوکے مان کی دنیا پڑھا تو حیران رہ گیا کہ اس طرح کے موضوع کو بھی کوئی اس شاندار انداز میں لکھ سکتا ہے۔۔۔ یہ صرف ذوقی کے قلم کا ہی کمال تھا۔۔۔ میں مشرف عالم ذوقی سے کبھی نہیں ملا لیکن ادب و احترام کے اس سلسلے کی نسبت سے میرا اس سے اک دلی لگاو پیدا ہوچکا تھا۔۔۔ مشرف عالم ذوقی انڈیا میں میری تحاریر کا علمبردار اس نے میری کتب پر کئی جاندار مضامین لکھے۔۔۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے کہ جب مجھ سے کوئی مغربی ادیبوں کی کتب بارے بات کرتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ کیا تم نے مستنصر حسین تارڑ کا ناول خس و خاشاک زمانے پڑھا ہے؟۔۔ آہ میرا وہ بے لوث نمائندہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔۔ اس کی وفات سے چند روز قبل میں اسے دہلی فون کرنے کی کوشش کررہا تھا جو کسی وجہ سے نہیں مل رہا تھا تب ایک شاعر دوست کو لکھنوء فون ملایا وہاں کا نیٹ ورک شاید کلئیر تھا کہ فورا کال مل گئی۔۔۔ میں نے ان سےمشرف عالم ذوقی بارے اسفتسار کیا تو معلوم ہوا کہ موصوف ذوقی اور تبسم فاطمہ دونوں ہی کرونا وائرس کا شکار ہوکر شدید بیمار ہیں۔۔
دو روز بعد ہی ان کی وفات کی افسوس ناک خبر سننے کو ملی۔۔۔ ابھی اس صدمہ سے سنبھل نہیں پایا تو ایک روز کے وقفے کے بعد پتہ چلا کہ تبسم فاطمہ بھی انکی جدائی زیادہ برداشت نہ کرسکی اور مشرف عالم ذوقی کے پاس چلی گئیں۔۔۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔۔۔ اللہ کریم انکے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے آمین۔۔۔
مستنصر حسین تارڑ صاحب نے تبسم فاطمہ کے بارے لکھی اپنی ایک تحریر پڑھ کر سنائی۔۔۔ جس کا متن کچھ یوں تھا:
" کیا آج تک کسی بھی تخلیق کار نے اس سوال کے جواب میں کہ آپ کو بچپن میں کہانیاں کون سنایا کرتا تھا، یہ کہا ہے کہ قبلہ نانا جان حقہ گڑگڑاتے ہوئے ، یا دادا حضور پان چباتے ہوئے مجھے کہانیاں سناتے تھے؟۔ ایسا کہیں نہیں ہوا، ہمیشہ نانی جان یا دادی جان کی کہی ہوئی داستانیں ماضی کی دھند میں سے ظاہر ہوتی ہیں، اس لیے کہ کہانی صرف عورت کہنا جانتی ہے۔۔۔ میرے حصے میں میری بڑی خالہ جان اور امی جان کی داستان گوئی آئی۔۔۔مثلاََ، ’’خالہ جان آج دوپہر کھانے کے لیے کیا پکا رہی ہیں؟‘‘
تو وہ کہتی تھیں، ماں تمہیں دیکھ کر سیر ہوگئی پُتر۔دراصل گلی میں شیداں کمہارن مل گئی تھی، اس کا بیٹا دوبئی میں ہوتا ہے تو اس نے مجھے وہ سوٹ دکھائے جو اس کے بیٹے نے بھیجے تھے۔۔۔ ایک جامنی رنگ کا لیکن گہرا جامنی نہیں، جیسا جامن کھانے کے بعدہاتھ دھولو تو انگلیوں پر دھبے سے رہ جاتے ہیںنا، ہلکا جیسے پانی کی آمیزش ہو جامنی۔۔۔دوسرا جوڑا گلابی پھولوں والا، لیکن پھول پنکھڑیوں والا، اور ان پر تتلیاں بیٹھی ہوئی ۔۔۔تقریباََ آدھ گھنٹے کی اس داستان کے بعد انہیں آشاں تنور والی مل جاتی ہے، جس کا خاوند کسی جوان لڑکی کے ساتھ بھاگ گیا ہے۔۔۔ وہ لڑکی کیسی تھی ، اس کی نہایت تفصیل بیان کرتیں یہاں تک کہ جو جھمکے کانوں میں پہنتی تھی اُن میں سے بائیں کان والے جھمکے کا توازن درست نہ تھا۔۔ بے وجہ جو جھولتا رہتاتھا۔۔۔ اور بالآخر جب میرے پیمانے لبریز ہوجاتے تو میں کہتا ، خالہ میں نے آپ سے صرف یہ پوچھا تھا کہ آج دوپہر کھانے کے لیے کیا پکایا ہے؟
تو وہ جھلا کر کہتیں، ایک تو تم لوگ صبر کے ساتھ پوری بات ہی نہیں سنتے، بھنڈیاں پکائی ہیں اور کیا پکانا تھا اور ہی خفا ہو کر واک آؤٹ کرجایا کرتیں۔۔۔
میں اقرار کرتا ہوں کہ میرے ناولوں ، سفرناموں ، افسانوں وغیرہ میں بڑی خالہ جان کی روح ہے جو حلول کرگئی ہے۔۔
ہاں۔۔۔۔کہانی قدرتی طور پر ایک صرف ایک عورت کہہ سکتی ہے اس لیے تبسم فاطمہ کہانی کہنے اور اس میں تخلیقی قوت کے طلسم کی آمیزش کرنا جانتی ہیں۔۔۔تفصیل بیانیے کی اور کردار سازی اُن کے وصف ہیں۔۔۔اُمید ہے ذوقی نے بھی یہ خطرے کی گھنٹی سن لی ہےکہ اُن کے گھر میں جو رہی ہے۔۔۔ میں یہ ہرگز نہیں کہوں گا کہ ایں خانہ آفتاب است وغیرہ کہ آفتاب دو نہیں ہوتے، آفتاب تو ایک ہی ہوتا ہے اور اس خانہ میں تبسم فاطمہ ہی وہ آفتاب ہیں،
ذوقی صاحب بھلے ہی اب اُن کی سنہری دھوپ میں اونگھتے رہیں گے، ہم انہیں کچھ نہیں کہیں گے۔"
(یہ تحریر21مارچ 2021 ء کو لکھی گئی)
آخر میں اس تعزیتی نشست کے شرکاء نے مرحوم مشرف عالم ذوقی اور ان کی مرحومہ اہلیہ محترمہ تبسم فاطمہ کی ارواح کے ایصال ثواب کے لیےفاتحہ خوانی کی۔۔
••••
بشکریہ : متاثرین تارڑ ( ایف بی گروپ )