ایک بڑے شہر میں ایک بہت اونچی عمارت تھی۔ اس عمارت کے سامنے ایک بڑا باغ تھا جس میں ہر جگہ ہری گھاس اور اونچے اونچے درخت تھے۔ باغ کے بیچ میں ایک گول فوارا تھا۔ پیاری پیاری چڑیاں دن میں فوارے کے پانی سے اپنی پیاس بجھاتی ہوئی دکھائی دیتیں۔ دن میں لوگ اس باغ میں پکنک منانے آتے۔ اسکول سے لوٹتے وقت طلبہ و طالبات باغ میں یہاں وہاں دوڑتے۔ شام کو پورا خاندان کے افراد چہل قدمی کے لئے باغ کی طرف رخ کرتے۔
یہ جگہ صرف اس باغ کی وجہ سے پسند نہیں کی جاتی تھی بلکہ بہت سارے لوگ عمارت کے اندر آتے جاتے ہوئے بھی نظر آتے۔ وہ عمارت ایک مشہورعجائب خانہ تھا۔ اس میں مختلف قسم کی فنکارانہ تخلیقات تھیں؛ جیسے کہ مصوری، تصویریں اور مجسمے۔ عمارت میں سنگ مرمر کا فرش تھا۔ اس عجائب خانہ کی سب سے پرکشش فن ایک مجسمہ تھا۔ مجسمہ کی خوبصورتی کا ذکر پوری دنیا میں ہوتا تھا۔ حقیقت میں لوگ مجسمہ کو دیکھنے کے لئے ہی دور دراز کا سفر طے کرتے تھے۔ مجسمہ کو عمارت کے بیچوں بیچ رکھا گیا تھا۔ اس طرح عمارت میں داخل ہوتے ہی سب کی نظر سنگِ مرمر سے تراشے گئے مجسمے پر جاتی۔ یہ ایک خاتون کا مجسمہ تھا جس کے ہاتھ میں ایک صراحی تھی۔ سیاح اس مجسمہ میں تراشی گئی تفصیلات پر غور کرتے اور داد دیتے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ وقت مجسمہ کے پاس ہی رہتے اور خوشی خوشی واپس لوٹ جاتے۔
ایک رات زمین پر بچھا ہوا سنگ مرمر کا ایک پتھر مجسمہ سے بات کرنے لگا۔
’’اے مجسمہ ! ہم دونوں ایک ہی شہر سے ہیں۔ ہم دونوں کو ایک ہی پہاڑ کی کان سے نکالا گیا تھا۔ ہم دونوں کو ایک ہی لاری میں یہاں لایا گیا تھا۔ ہم دونوں ایک ہی سنگ تراش کے پاس پہنچے۔ پھردنیا بھر کے لوگ مجھے اپنے پائوں تلے روندنے کیوں آتے ہیں؟ وہی لوگ تمہاری تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں۔ یہ بہت ناانصافی ہے۔‘‘
’’اے میرے پیارے دوست، ہم دونوں ساتھ میں مجسمہ ساز کی ورکشاپ میں رکھے گئے تھے۔ ہم دونوں پتھر تھے۔ ہم ایک طرح دکھتے تھے۔ لیکن کیا تمہیں یاد ہے کہ مجسمہ ساز نے پہلے تم پر کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا؟ اس نے تم پر اپنا اوزار چلانا شروع کیا۔ وہ تم کو اپنا فنی شاہکاربنانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ تمہیں منظور نہیں تھا۔ جیسے ہی وہ تم پر اوزار چلاتا تم ٹوٹ کے بکھرنے لگتے۔‘‘
’’مجھے بالکل یاد ہے۔‘‘ زمین پر بچھے سنگ مرمر نے جواب دیا۔ ’’مجھے اس آدمی سے نفرت تھی۔ وہ مجھ پر ایسے تیز اوزار کیسے چلاسکتا تھا۔ مجھے کتنی تکلیف ہورہی تھی۔‘‘
مجسمہ نے پھر کہا: ’’جب تم اس کے اوزار کا درد برداشت نہیں کرپائے تو مجسمہ ساز تم سے مایوس ہوگیا۔ اس کے بعد وہ مجھ پر کام کرنے لگا۔ مجھے احساس تھا کہ اگر مجھے کچھ بننا ہے تو مجھے تکلیف برداشت کرنی پڑے گی۔ یہ سوچتے ہوئے میں نے احتجاج نہیں کیا اورسنگ تراش مجھ پر اوزار استعمال کرتا گیا۔ میں تمام نوکیلے اوزار کا درد برداشت کرتا گیا۔ میرے دوست، زندگی میں ہر چیز کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ تم آدھے راستہ میں ہمت ہارگئے۔ اس لئے اب تم شکایت نہیں کرسکتے کہ لوگ تمہیں اپنے پائوں سے روندتے ہیں۔‘‘
زندگی آپ کو اپناشاہکار بنانا چاہتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا آپ امتحان میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں؟ زندگی میں ملی ہر تکلیف، ہر پریشانی اور ہر ناکامی سنگ تراش کے نوکیلے اوزار کی طرح ہوتے ہیں۔ کیا آپ شکایت کرکے ٹوٹ جائیں گے اور صرف ایک معمولی چیزبن کر رہنا پسند کریںگے؟ آپ کی ہمت طے کرتی ہے کہ لوگ آپ پر اپنا پائوں رکھیں گے یا آپ کی تعریف کریں گے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...