نیپالی ادب میں ترقی پسند رجحان ساز شاعر ،ڈرامہ نویس ناول نگار ،اور مضمون نگار جن کو نیپالی ادب کا گوہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ انعام یافتہ شاعر لکشمی پرساد ڈیوکوٹا ہیں۔ انھوں نے چھوٹی عمر میں شاعری شروع کردی تھی۔ ،ان کی شاعری میں رومانیت کا عنصر قدرے زیادہ ہے۔ مگر اس کی چمک نیپالی ادب میں تھوڈی دیر سے پہنچی۔ . ان کے ادبی چمک کے ساتھ، وہ دنیا کی نظروں میں نیپال کے ادبی بلند قد شاعر اور شاید وہ نیپالی شاعری میں ان کا نام اور کام دیگر شعرا سے منفرد اور فکری منظر نامہ جمالیاتی سطح پر ایک معروضی اور موضوعی آفاق کو خلق کرتا ہے۔ .
ڈیوکوٹا 12 نومبر 1909 میں " تننتی" { اب اس شہر کا نام تنطوطی ہے} میں لکشمی پوجا کی رات کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام تل مادھو ڈیوکوٹا اور والدہ کا نام امر راجیہ لکشمی تھا۔ انہوں نے کھٹمنڈو میں سنسکرت گرائمر اور انگریزی دونوں مضامین کی تعلیم حاصل کی ڈیوکوٹا نے کھٹمنڈو، میں دربار ہائی سکول میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا. 17 سال کی عمر میں پٹنہ سے ان کے میٹرک کا امتحانات پاس کرکے ڈیوکوٹا ٹری چندر کالج میں قانوں کی سند لینے کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ انڈرگریجویٹ کی سطح پر تعلیم بھی حاصل کی۔ اور پٹنہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ ایک دہائی تک انھوں نے وکالت بھی کی۔ بھر وکالت کو خیر باد کہ کر حکومت کے اشاعتی اور سسنر بورڈ میں ملازمت اختیار کی۔ اسی دوران ان ک ملاقات مشہور ڈرامہ نگار بشون ان وڈ سے ہوئی۔ اور ڈیو کوٹا نے ان کے ساتھ کام شروع کیا، ساتھ ہی وہ تین چندر کالج اور پدم کنیا کالج میں لیکچرر کے طور پر کام کرتے رہے۔ ۱۹۳۰ کے اواخر میں ان کو نروس بریک ڈاون ہوا۔ اس کے وجہ ان کی والدہ کی موت کا صدمہ تھا۔ ۱۹۳۹ ڈیوکوٹا نے پانچ/۵ ماہ رانچی میں زہنی جلاوطنی اختیار کی۔ ان کی نظموں سے چند اقتباسات ملاخطہ کریں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے باطل ثابت کرنے کے لیے " بابا" کی طرح جست نہیں لگایا کرتے
یا ایک مصنوعی تخیّل کے ساتھ
مجھے تخلیق کی رنگ برنگی سچائی کے رنگوں کو تباہ کرنے دو
رنگوں کے مسخ شدہ جادو کچھ تخلیق نہیں کرتے
مجھے برہمن نہ بنے دو، ۔۔۔ مجھے گندے پانی مین اپنے گناھوں کو دھونے دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے دینا کو بے نقاب کرنے کے لیے " اصلاح" کی ضرورت نہیں
مجھے پرانی اور پھٹی ہوئی چیزوں کو رفو کرنے سے نہ روکو
مجھے زندگی کی بتی روشن کرنے دو
فطرت کا سادہ، خوب صورت ۔۔۔ اور بد صورت روشنی کی طرح
میرے وقت
مجھے " بابا" کے مقابلے میں بلند درجے تک پنچنے دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سیاہ بادلوں سے گر چکا ہے
وہ سائے میں رہا
کیا ہم ان میں خدا کو دیکھ رہے ہیں
یا ہم ایک گداگر کو دیکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی شاعری کی روح کو عصری نیپالی ادب میں سچی شاعری کہا گیا ان کے شاعرانہ مزاج ان کی شاعری کو نیا رنگ و بو عطا کیا۔ . اور یہی چمک ان کی شاعری کو فصیلت بھی دیتی ہے۔ جس میں ان کے منفرد شعری لہجے کو برا عمل دخل حاصل ہے۔ جو قاری کے کے دماغ کو نہ صرف چونکا دیتی ہے بلکہ آس پاس کی دینا کی المناکیوں سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں معاشرتی ، معاشی، سیاسی، ثقافتی اور مذھبی استعارے ، پیکریت اور رموز ایک مخصوص لسان کی لفظیات اور معنیات کو خلق کرتے ہیں۔ ڈیوکوٹا کی شاعری میں ان کا ذاتی جوہر قابل اور کمال پذیر زندگی کے تصورات بھی رومانیت کے خواص میں شمار کئے جاتے ہیں۔ یہ دونون باطنی تجربے سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے معروضی تجربے کے ساتھ ایک توازن کے انسلاک کے ساتھ باھم ہو جاتے ہیں۔ یہی ان کا رومانی خلیقہ بھی ہے۔ انھوں نے اپنے وجود کے موضوعی راز کو دریافت کرتے ہیں۔ یہ ان کی شاعرانہ قوت کی آزمائش بھی تھی۔ ڈیوکوٹا کی حسی اور خارجی آفاق اور روح کا سچا اظہار ہے جو ان کی شاعری کو وسیلہ اظہار بناتی ہیں جو کبھی کبھار اپنے اظہار سے ماورا بھی ہوتے ہیں۔
کثرت تمباکو نوشی کے سبب ڈیو کوٹا کو پھپڑوں کا سرطان ہوگیا تھا۔ ان کا نتقال ۱۴ ستمبر ۱۹۵۹ میں کھٹمنڈو { نیپال} کے مقام بھاگ متی ندی، پشوپنت میں ہوا۔
ان کی تصانیف یہ ہیں:
Like Strength (बल जस्तो)
Poetry
Beggar – Poetry Collection (भिखारी – कवितासंग्रह)
Poetry
Gaine's Song (गाइने गीत)
Poetry
Butterfly – Children's Poetry Collection (पुतली – बालकवितासंग्रह )
Poetry
Golden Morning – Children's Poem (सुनको बिहान – बालकविता)
Poetry
Farmer – Musical Play (कृषिवाला – गीतिनाटक)
Verse Drama
Meeting of Dushyant and Shakantula (दुष्यन्त-शकुन्तला भेट)
Short Epic
Muna Madan (मुनामदन)
Short Epic
Duel between Raavan and Jatayu (रावण-जटायु युद्ध)
Short Epic
Kunjini (कुञ्जिनी)
Short Epic
Luni (लुनी)
Short Epic
Prince Prabhakar (राजकुमार प्रभाकर)
Short Epic
Kidnapping of Sita (सीताहरण)
Short Epic
Mahendu (म्हेन्दु)
Short Epic
Dhumraketu
Short Epic
Laxmi Nibandaha Sangraha – Laxmi Essay Collection (लक्ष्मी निबन्धसङ्ग्रह)
Essay
Champa (चम्पा)