“ادھر تم ادھر ہم ”
یہ بھٹو کے نہیں، میرے الفاظ تھے: عباس اطہر
1970 کا روزنامہ” آزاد” حمید اختر صاحب، عبداللہ ملک صاحب، آئی اے رحمنٰ صاحب اور میں نے مل کر نکالا تھا۔ وہ حالات کا رخ دیکھتے ہوئے بھی پرامید تھے کہ ملک دو ٹکڑے نہیں ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں ان کی خواہش تھی کہ ایسا نہ ہو۔ لیکن میرا خیال بلکہ اصرار تھا کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا۔”اُدھر تم، اِدھر ہم” والی سرخی پر مرحوم(عبداللہ ملک) مجھ سے بہت ناراض ہوئے اور میں معروضی حقائق اور واقعات کو گواہ بناکر انہیں اپنے دلائل سے قائل نہیں کرسکا۔
میری یہ سرخی نہ صرف ملک کی صحافتی تاریخ کا حصہ بنی بلکہ بھٹو صاحب کیلئے اس طعنے کی بنیاد بن گئی کہ انہوں نے”اُدھر تم، اِدھر ہم” کہہ کر ملک کو دو ٹکڑے کروادیا۔
یہ سرخی میں نے نشتر پارک کراچی کے جلسہ میں بھٹو صاحب کی تقریر کے چند جملوں کی تشریح اور تاثر میں سے اخذ کی تھی۔ اس میں میرا اپنا یہ تجزیہ بھی شامل تھا کہ پاکستان دو حصوں میں بٹ جائے گا۔
ملک ٹوٹنے کے بعد میری یہ سرخی بھٹو صاحب پر ملک توڑنے کی فرد جرم بن گئی۔ الشمس اور البدر جیسی تنظیموں کی سرپرستی کرنے والی جماعت اسلامی کے لیڈروں سمیت پیپلز پارٹی کی مخالف تمام جماعتوں نے ایوب خاں کی ناانصافیوں سے پیدا ہونے والی محرومیوں اور آخر میں نہتے مشرقی پاکستانی شہریوں پر ٹینکوں اور توپوں سے فوج کشی، قتل عام اور نسلیں بدلنے جیسے جرائم سمیت اس سانحہ کے اصل محرکات ایک محرکات ایک طرف رکھ دئیے اور میرے وضع کئے ہوئے چار الفاظ کو ملک ٹوٹنے کا سبب بنادیا۔
یہ لفظ بھٹو صاحب نے کہے ہی نہیں تھے۔
اس سرخی کا پس منظر یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن سرحد اور بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں کے ساتھ مل کر اپنے 6 نکات پر مبنی آئین بنانا چاہتے تھے، جس کا مطلب پاکستان کو 5 ٹکڑوں میں تقسیم کرنا تھا۔
میں اس قصے کو آئندہ کبھی پوری تفصیل سے لکھوں گا لیکن فی الحال میں پیپلز پارٹی میں بھٹو صاحب کے سیاسی وارثوں کو جو میری سرخی کا طعنہ سن کر چپ ہوجاتے ہیں، یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ مجیب الرحمٰن کے 6 نکات اور 70 ء کے عام انتخابات سے لے کر شکست مشرقی پاکستان تک کے اخبار پڑھ لیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ بھٹو صاحب نےملک کے دو ٹکڑے نہیں کروائے، اسے 5 ٹکڑوں میں بٹنے سے بچایا تھا۔
مشرقی پاکستان میں فوجی شکست کے بعد اندرا گاندھی مغربی حصہ کو بھی ٹکڑوں میں بانٹنے پر تلی ہوئی تھیں لیکن پاکستان روانگی سے پہلے بھٹو صاحب نے صدر نکسن کو اس باقی ماندہ پاکستان کے وجود کی اہمیت کا قائل کیا اور امریکہ نے سخت ترین کارروائی کی دھمکی دے کر بھارتی فوج کو جنگ بندی پر مجبور کرایا۔ بھٹو صاحب ہماری تاریخ کےمقبول ترین اور مظلوم ترین لیڈر تھے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...