نوجوان 20-22 سال کا ہی ہوگا …گورا چٹّا …خوبرو
وہ ایک بہترین پینٹر تھا … لیکن اُس کی حرکتیں ننھے بچوّں جیسی تھیں … ایک ٹاکنگ ڈول کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیرسے اُس کے پیٹ پرموجود بٹن دباکر اُس کا ریکارڈیڈ میسیج سُنتا اور خوشی سے تالیاں بجاتا۔
وہ خوبصورت ڈول !! ہر وقت اُس کے ساتھ رہتی ، کھاتے پیتے ، سوتے ہوئے ،حتیٰ کہ واش روم میں بھی …
وہ ڈول کو ٹیبل پر سامنے بٹھا کر کئی پینٹنگز بناتا … کبھی کویتائیں بھی لکھتا …
اُس کی پینٹنگز ایسی ہوتی تھیں جیسے ابھی بول پڑیں گی …بے حد خوبصورت اور پُر کشِش !
ہر پینٹنگ کے بعد وہ ڈول کا ریکارڈ یڈمیسیج ضرور بجاتا اور تالیوں کی آواز بھی گونجتی…
گھر میں کوئی اُس کی ڈول کو چھُونے کی ذرا سی بھی کوشش کرتاتو وہ غراّتا…
’’ ہاتھ کاٹ ڈالوں گا…‘‘
وہ چھُری بتا کر دھمکاتا…اور سب سہم جاتے۔
گھر والے بہت پریشان تھے … ماں ، باپ ، بھائی بہن ، بھابھی…یہ کیا ہو گیا ہے؟؟
ہرکوئی اپنےڈھنگ سے علاج تجویز کرتا… سارے علاج کرائے گئے مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔
سب کو حیرت اِس بات پر تھی کہ گڑیا سے تو لڑکیاں کھیلتی ہیں اور وہ بھی ایک خاص عمر تک… یہ 22 سال کا نوجوان لڑکا …ایک ڈول کا اتنادیوانہ کیسا؟
سائیکیاٹرسٹ نے مشورہ دیا …اِس کی شادی کردو ، ٹھیک ہو جائے گا…
اور اِس بات پر وہ زور زور سے اپنی ڈول کولپٹا کر رونے لگا اور چیخ چیخ کر بولا’’میری شادی ہوگئی ہے…میری اِس ڈول سے…یہ ہے میری بیوی…‘‘
یہ ڈول اُسے کِس نے دی؟ کب دی تھی؟ اور کہاں سے ملی ؟یہ سوالات بہت اہم نہیں ہیں ، شاید یہ ڈول اُس کے اندر بچپن سےپل رہی تھی…جوان ہو گیا اور ڈول سے باتیں کرتے کرتے، اُسے سامنے رکھ کر پینٹنگز بناتے ہوئے بڑا ہوگیا… ڈول سے اُس کا پیارشدید ہوتا گیا ۔دیوانگی کی حد تک۔ اور ڈول کے پیار نے ہی اُسے ایک اچھاآرٹسٹ بھی بنا دیا تھا اورشاعر بھی ۔
ایک دن پریشان ہوکر گھر کے لوگوںنے ایک ترکیب نکالی۔
ماں نے رات میں اُس کی ڈول کو اٹھا کر کپ بورڈ میں اندر لاکر میں رکھ دیا اور چابیاں چھپا دیں …
صبح جب اُس کو ڈول نہیں ملی تو کہرام مچ گیا۔ اُس نے سارا گھر سر پراٹھالیا …کھانا پینا چھوڑ دیا۔
پاگلوں کی سی حرکت میں اضافہ ہوگیا …
دِن بھر اپنے ٹیبل پر بیٹھ کر ڈول کے اسکیچیز بناتا رہتا… ڈول کے کھونے سے جیسے اُس کے سارے رنگ ،بے رنگ ہوگئے تھے … برش ہاتھ میں لیتا اور ڈول کے اسکیچ پربِنا رنگ کے پھراتا رہتا… ڈول کے اسکیچ سے دِن بھرباتیں کرتا …
’’میری ڈول! کہاں ہوتم؟لوٹ آؤ … کہاں ہو؟لوٹ آؤ …‘‘ اور پھر سِسکنے لگتا۔ گھر والے اُس کی حالت سے پریشان تو تھے مگر خوش بھی تھے کہ اُس منحوس ڈول سے پیچھا چھوٹا …
اُنہیں نوجوان کی بےچینی،اضطرابی کیفیت سے کوئی غرض نہیں تھی بلکہ وہ اُس کو زیادہ اہمیت ہی نہیں دے رہے تھے … سب ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھتے۔ جیسے کہہ رہے ہوں۔’’چلو پیچھا چھوٹا اُس ڈول کی بیماری کا …‘‘
انہوں نے نوجوان کے سکون کے لئے نہیں بلکہ اپنے اطمینان کے لئے ڈول کو اُس سے دُور کر دیا تھا …اور سب پُر سکون تھے۔ لیکن …
نوجوان دھیرے دھیرے گھلنے لگا … اُسے اپنی زندگی بے رنگ ہوتی نظر آئی …سفید کینوس پر ڈول ابھرتی اور غائب ہو جاتی … اُس کی سانسوں کے تار ٹوٹنے کو ہی تھے کہ ایک دِن سب نے دیکھا …نوجوان زورزور سےتالیاں بجا رہا ہے … بہت خوش ہے۔ اُس کی ڈول اُس کے ہاتھوں میں تھی جسے وہ اپنے سینے سے بھینچا ہوا تھا اور بار بار اُس کا پیٹ دباکر ریکارڈیڈ میسیج سن رہا تھا …
’’سُو نو! تم کہاں چلے گئے تھے؟ میں کب سے ڈھونڈ رہی تھی؟ …. سُونو! تم کہاں چلے گئےتھے…‘‘
نوجوان ڈول کو اپنے سینے سے لگائے کبھی زور زور سے ہنستا ہے اور کبھی دھائیں دھائیں روتا۔
گھر کے سب لوگ دوڑتے ہوئےماں کے کمرے میں گئے ….کپ بورڈ کھولا گیا … لاکر کھولا گیا…اندر ڈول بے جان مُردہ پڑی تھی … اُس کا پیٹ دبانے پر بھی ریکارڈیڈمیسیج نہیں بج رہا تھا …
سب نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا …
اِشاروں میں سب نے لا علمی کا اظہار کیا۔
ماں نےنوجوان سے پوچھا …’’کہاں مِلی یہ ڈول ؟‘‘
’’اِدھر …اِدھر …میرے ٹیبل پر …اِدھر …‘‘
اُس نے اپنے ٹیبل پر رکھی پینٹنگ کی طرف اِشارہ کیا … اورخوشی سے تالی بجانے لگا ۔
سب نے ایک بارپھر ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا ، اِس باراُن کی آنکھوںمیں حیرت کےساتھ ساتھ خوف بھی تھا۔
ڈول کا ریکارڈیڈ میسیج نوجوان پینٹر کے ٹیبل پر بج رہا تھا … مسلسل …
اور اُس کی انگلیوں میں دبا برش تیزی سے اسکیچ میں رنگ بھر رہا تھا …!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...