میرے ملک میں حب الوطنی سے مراد سیاہ کو سفید کہنا، ظلم پہ آنکھیں بند کر لینا، ظالم کی صف میں کھڑے ہو جانا یا چپ چاپ تماشہ دیکھنا ہے۔ اگر آپ کو حب الوطنی کی سند چاہیے تو ظلم پر خاموش رہیں اور مظلوم کے خلاف پروپیگنڈا کریں۔ کچھ روز قبل اسد علی طور کو اسکے گھر میں گھس کر نامعلوم افراد کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کا پیشہ صحافت اور جرم بولنا اور لکھنا ہے۔اسے بتایا گیا کہ تم غدار ہو اور اس سے زبردستی نعرے بھی لگواۓ گئے۔ جب اپنی عزت کروانے کیلئے عام شہریوں سے زبردستی نعرے لگوانے اور اسمبلیوں سے قوانین بنوانے پڑ جائیں تو بہتری اسی میں ہے کہ اپنا محاسبہ کر لیا جاۓ۔ لیکن یہاں تو الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے۔ آج تک اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی اخلاقی جرآت کی گئ اور نہ ہی روش بدلی۔ عجیب بے حس ریاست اور معاشرہ ہے کہ کسی کو گولی لگے، تشدد ہو یا وہ اٹھا لیا جاۓ تو اسکی داد رسی کی بجاۓ اس سے ثبوت مانگے جائیں اور اسے بدلے میں زخم دکھانے پڑ جائیں ۔اسد نے تو زخم دکھا دیے کیا اب کوئی نا معلوم کو معلوم کرنے کا مطالبہ بھی کرے گا۔حامد میر،عمر چیمہ احمد نورانی، ابصار عالم، مطیع اللہ جان، مدثر نارو سے لے کر بات اسد علی طور تک جا پہنچی مگر کوئی نامعلوم تک نہ پہنچ سکا۔ معصوم سچل کی آنکھوں سے بہتے آنسو بھی آپ کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ سکے جس کے باپ کی کوئی خبر نہیں اور جس کی ماں کبھی واپس نہیں لوٹ سکے گی۔ کئ حیات بلوچ روز مارے جاتے ہیں کیا ماں جیسی ریاست کو ان پہ ترس نہیں آتا۔ جس کے گھر سے اٹھارہ لاشیں اٹھیں اس سے توقع کی جاۓ کہ اسکے منہ سے پھول برسیں، جس پر آزادی اظہار راۓ کے جرم میں زندگی تنگ کر دی جاۓ اس سے توقع کی جاۓ کہ وہ ظالم کی شان
میں قصیدے لکھے۔
آپ کہتے ہیں کہ بلوچی دہشتگرد ہیں. آپ کہتے ہیں پشتون بیرونی فنڈنگ کے زریعے ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ آپ کہتے ہیں صحافی دشمن کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔ آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ان سب ملک دشمنوں کو بے نقاب کر دیں۔ آپ ان ملک دشمنوں کے خلاف ثبوت قوم کے سامنے رکھیں اور بات ہی ختم کریں۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ اسائلم کیلئے خود پر حملے کرواتے ہیں لیکن یہ تو حملوں کے بعد بھی اسی ملک میں کھڑے ہو کر ملک سے بھاگنے والے محب وطن سے سوال کر رہے ہیں۔
آخر کب تک اور کس کس کو غدار کہا جاۓ گا. شیخ مجیب الرحمٰن، میر غوث بخش بزنجو،نواب خیر بخش مری، خان عبدالولی خان، جی ایم سید، نواب اکبر بگٹی, محسن داوڑ، علی وزیر، منظور پشتین سمیت سب غدار ہیں تو پھر محب وطن کون ہے.ریاست نے جب سے غداری کی اسناد جاری کرنا شروع کی ہیں تب سے غداری کی اصطلاح بھی مقدس ہو گئ ہے. جہاں عاصمہ جہانگیر کو بھی غدار کہا جاۓ وہاں غداری ہمارے لیے اعزاز ہے اور ہر غدار ہمارا فخر ہے.اپنا قبلہ درست کر لینے میں ہی بہتری ہے ورنہ وہ وقت نہ دیکھنا پڑ جاۓ کہ ہر پاکستانی ببانگ دہل خود کو غدار کہے اور ریاست کو حب الوطنی کی تعریف بدلنی پڑ جاۓ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...