پاکستان پیپلزپارٹی کو اعلی عدلیہ نے پچھلے پچاس برسوں میں کون کون سے فیصلوں سے نوازا وہ سب تاریح کا حصہ ہے جس کا احاطہ کرنا اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں۔ اس تحریر کا مقصد چار اپریل کی مناسبت سے چند کیسز اور ان پر دئیے جانے والے فیصلوں کو ریکارڈ پر لانا مقصود ہے تاکہ بہت سارے لوگ جن کی یاد سے یہ سب کچھ محو ہو چکا ہے یا جن کو ان کیسز یا فیصلوں کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ان کی معلومات میں اضافہ کیا جاسکے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیرمین بھٹو صاحب کی پھانسی کا فیصلہ ایک ایسا فیصلہ ہے جِس کی عدالتی تاریح میں نظیر نہیں مِلتی۔ سب سے پہلے تو اِس کیس کو ڈائریکٹ لاہور ہائیکورٹ میں چلایا گیا یعنی بھٹو صاحب کو کیس کے آغاز میں ہی لوئر کورٹس میں سماعت اور یائیکورٹ میں فیصلے پر پہلی اپیل کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ اِس کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں کیس چلایا گیا تو بھٹو صاحب سے ذاتی بغض رکھنے والے جسٹس مولوی مشتاق کو سماعت کرنے والے بنچ کا سربراہ بنایا گیا جِس نے پوری سماعت کے دوران بھٹو صاحب سے اپنے عناد کا بھرپور مِظاہرہ کیا۔ مارشل لا کا دور تھا اِس لئے مولوی مشتاق کو کُھل کھیلنے کا موقع مِلا اور باالاآخر لاہور ہائیکورٹ سے بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا سُنا دی گئی۔ لاہور ہائیکورٹ والا تمام سین سپریم کورٹ میں جسٹس انوارالحق کی سربراھی میں دہرایا گیا اور تین کے مقابلے میں چار ججوں کی رائے سے سپریم کورٹ نے پھانسی کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اِس فیصلے کی حقیقت اِس بنچ کے ایک رکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے کافی عرصہ بعد اپنے ایک انٹرویو میں اِس طرح بیان کی کہ ہمارے اُوپر اتنا دباؤ تھا کہ ہمارے پاس پھانسی کا فیصلہ برقرار رکھنے کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کا فیصلہ اب تاریح کا حِصہ ہے لیکن یہ فیصلہ کبھی کِسی بھی کیس میں بطور حوالہ پیش نہیں کیا گیا۔
اصغر خان کیس 1990 کے انتخابات میں دھاندلی اور ایجنسیوں کی جانب سے پیپلزپارٹی کے مخالف سیاستدانوں کو پیسے دینے سے متعلق ہے جو ریٹائرڈ ائرمارشل اصغر خان نے دائر کیا تھا۔ اِس کیس کو بیس سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد افتحار چودھری نے ایک ڈھیلا ڈھالا سا فیصلہ دیا اور ایف آئی اے کو انکوائری کا حُکم دیا۔ نہ تو آج تک انکوائری ہو سکی اور نہ ہی کیس کا حتمی فیصلہ ہو سکا۔ اصغر خان اِس کیس کے فیصلے کا انتظار کرتے کرتے اگلے جہان چلے گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو بھی 1990 کا الیکشن چرائے جانے کا کہتے کہتے دُنیا سے چلی گئیں لیکن اُن کو اِنصاف نہ مل سکا۔
آئین کے آرٹیکل 58-2b کے تحت 1990 کی دہائی میں اُس وقت کے صدران کی جانب سے تین اسمبلیاں ایک ہی جیسے الزامات کے تحت برطرف کی گئیں جن کے نتیجے میں دو مرتبہ محترمہ بینظیر بھٹو اور ایک دفعہ میاں نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ تینوں دفعہ اسمبلیوں کی برخواستگی کا معاملہ اعلی عدلیہ کے سامنے پیش ہوا۰ محترمہ بینظیر بھٹو کی برخواستگی کو دونوں مرتبہ جاٰئز قرار دے کر اسمبلی کو بحال نہیں کیا گیا جبکہ ایسے ہی الزامات پر برطرف نواز شریف کو بطور وزیراعظم بحال کر دیا گیا۔ یہ علیحدہ بات ھے کہ بحال شدہ اسمبلی زیادہ دیر نہ چل سکی۔ ایک ہی جیسے کیسوں میں دو مختلف فیصلے اب تاریح کا حصہ ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو لاہور ہائیکورٹ نے کوٹیکنا ایس جی ایس کیس میں پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ یاد رہے کہ بے شمار مقدمات میں سے یہ ایک واحد مقدمہ تھا جس میں سزا سنائی گئی اور اِس کیس کا ڈراپ سین جِس انداز میں ہوا وہ اپنی جگہ عبرت کا باعث ہے۔ سزا سنائے جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک آڈیو ٹیپ منظرِعام پر آئی جِس میں نواز شریف دور کا۔چیرمین احتساب کمیشن سیف الرحمن جسٹس ملک قیوم کو ٹیلی فون پر سزا کے بارے میں ہداہات دے رہا ہے کہ کتنی سزا سنائی جائے۔ اِس ٹیپ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد جسٹس ملک قیوم اور جسٹس راشد عزیز کو استعفے دینے پڑے تھے۔ اِس واقعہ نے احتساب اور انصاف کی قلعی مکمل طور پر کھول کر رکھ دِی لیکن پیپلزپارٹی کے لیڈروں کی آزمائش کا دور ختم نہ ہو سکا۔ زرداری صاحب کو کِسی بھی مقدمے میں سزا سنائے بغیر گیارہ سال سے زائد عرصہ جیل میں رکھا گیا۔ ضمانت کی درخواستیں پے در پے مُسترد کی گئیں۔ افتحار چوھری کی جانب سے زرداری صاحب کی فائلیں اٹھا کر پھینکی گئیں کہ جاو چلے جاو کوئی ضمانت نہیں مِلے گی۔ یہ سب تاریخ کا حِصہ ہے۔ اِس سب ہونے کے باوجود نہ تو کبھی پیپلزپارٹی نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا اور نہ ہی اعلی عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے بلکہ یور آنر کے سامنے ہمیشہ خود کو سرنڈر کیا۔
مجھے جو بھی دشمن جاں ملا وہی پختہ کار جفا ملا
نہ توکسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا وار خطا ہوا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...