مجھے ملک کے دیگر علاقوں کے سیاستدانوں کے بارےمیں میں زیادہ معلومات نہیں البتہ بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کے سیاستدانوں کے بارےمیں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہاں کے اکثر معزز سیاستدان الیکشن کے دوران اپنے حلقہ کے عوام کیلئے نہ صرف مہمان خانہ کا دروازہ کھول دیتے ہیں بلکہ ان کیلئے اپنے دل کا دروازہ اور تجوریوں کے منہ بھی کھول دیتے ہیں ۔ الیکشن کیمپ میں لنگر کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے ۔ جب تک الیکشن مہم چلتی ہے تو امیدوار صاحبان کی جانب سے اسپیشل کھانے اور نہاری کا خصوصی اہتمام بھی جاری رہتا ہے ۔ اس دوران وہ ووٹرز لسٹ اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس لسٹ کے مطابق ووٹرز کے پاس کئی بار ووٹ مانگنے کیلیے جاتے ہیں ۔
کچھ ایسے امیدوار بھی ہوتے ہیں جو ووٹرز کو ان کی تعداد کے مطابق خرچہ وغیرہ بھی دیتے ہیں بلکہ اس دوران بہت سے اہم اور بااثر ووٹرز کو لاکھوں روپے نقدی اور زیرو میٹر گاڑیاں بھی تحفے میں دیتے ہیں ۔ الیکشن کے اختتام کے بعد ہارنے والے امیدوار صاحبان اپنی تھکن اتارنے کی غرض سے کچھ عرصہ کیلئے گوشہ نشین ہو جاتے ہیں جس طرح آجکل لوگ قرنطینہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ جیتنے و الے امیدوار صاحبان قانون سازی کے لیئے کوئٹہ اور اسلام آباد چلے جاتے ہیں ۔ پھر عوام اور سیاستدانوں کے درمیان رابطہ بہت کم ہو جاتا ہے ۔ سیاستدانوں کے اپنے مسائل ہوتے ہیں اور ووٹرز کے اپنے مسائل ۔ الیکشن کے دوران بڑے اور اہم امیدوار کروڑوں روپے دل کھول کر خرچ کرتے ہیں اس دوران بہت سے امیدوار اپنی زمینیں تک فروخت کر دیتے ہیں اور بہت سے مقروض ہو جاتے ہیں ۔ جیتنے والے بعد میں کوشش کر کے اپنی فروخت شدہ زمینیں واپس کرا لیتے ہیں تاہم الیکشن کے بعد امیدوار اور ووٹرز کے درمیان رشتہ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جاتاہے البتہ جیتنے والے امیدوار صاحبان اس رشتے کو برقرار رکھنے کے جتن کرتے رہتے ہیں ۔ تمام سیاستدانوں کے پاس اپنے حلقہ کے ووٹرز کی فہرست موجود ہوتی ہے ۔
حال ہی میں کورونا وائرس کا جو بحران پیدا ہوا ہے اس سے سیاستدانوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ان کی پریشانی یہ ہے کہ وہ غریبوں کو تلاش کر رہے ہیں تاکہ وہ لاک ڈاون کے دوران متاثر اور بے روزگار ہونے والے افراد اور خاندانوں کی مدد کر سکیں ۔ لیکن اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی ہے ۔ الیکشن کے دوران کروڑوں روپے خوشی خوشی سے خرچ کرتے ہیں ان کو ووٹ سے مطلب ہوتا ہے لیکن اب یہ حضرات نیکی اور ثواب کمانے کی غرض سے غریبوں کو تلاش کر رہے ہیں مگر وہ ان کو نہیں مل رہے ہیں اگر کچھ مستحق افراد ان کو مل گئے تو وہ ان کےساتھ سیلفیاں ضرور بنوائیں گے تاکہ وہ پکچرز اخبارات اور سوشل میڈیا میں شیئر کئے جا سکیں جبکہ اس کے برعکس الیکشن کے دوران جن لوگوں کو لاکھوں روپے نقدی اور زیرو میٹر گاڑیاں بھی تحفے میں دیتے ہیں ان کو ظاہر نہیں کیا جاتا ۔
اس کے برعکس ابھی جن غریب عوام کو جو کچھ فراہم کریں گے ان کی سیلفی ضرور مشتہر کریں گے تاکہ ان کی فیاضی اور سخاوت کا خوب چرچا ہو اور ان کو حاتم طائی کی فہرست میں شامل کیا جائے اس کے لئے ان کے کچھ مخصوص کارندے مقرر ہوتےہیں جو اپنا فرض نبھا رہے ہیں ۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ان حاتم طائی صاحبان کو مستحق افراد کی تلاش میں ناکامی ہوگی ہاں مگر ہم یہ ضرور دیکھ رہے ہیں کہ غریب اور نادار لوگ ان حاتم طائی صاحبان کو خود ہی تلاش کر رہے ہیں لیکن ان سے ان کی ملاقات نہیں ہو پا رہی ہے ان کو سمجھ جانا چاہیے کہ یہ کورونا وائرس کے دن ہیں کوئی الیکشن نہیں ہے کہ وہ صاحب دن تو دن ہے آدھی رات کو بھی اپنے پیارے ووٹرز کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ میں اپنے کچھ احباب کی معلومات کے تحت یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ بلوچستان میں میر عاصم کرد گیلو میر اسد بلوچ اور سید احسان شاہ کے نام کی شخصیات ہیں جو الیکشن ہو یا نہ ہو یہ مستحقین کی ہر ممکن مدد کرتے نظر آتے ہیں ۔ مزید اللہ تبارک و تعالی بہتر جانتا ہے ۔