نگری نگری گھومنے والے گدی نشینی کی بجائے علم و ادب کی طرف مائل اور راغب ہونے والے شاعر توقیر سید صاحب کا اصل نام سید اسرار احمد شاہ ہے جنہوں نے اپنا قلمی نام توقیر سید اختیار کر لیا ۔ وہ 1958 کو اٹک شہر میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد صاحب کا نام سید سردار شاہ ہے ۔ توقیر سید صاحب کی اسلامی علوم سے قابل تحسین حد تک دلچسپی ہے اس کا اظہار مختلف مواقع پر ان کی گفتگو سے ہوتا رہتا ہے ۔
شاہ صاحب کی تعلیم۔۔ایم اے اردو۔۔فارسی ہے ۔ابتدائی تعلیم بھی اٹک سے ہی حاصل کی۔والد صاحب آرمی میں تھے اس لیے ان کے تبادلوں کے ساتھ وہ بھی تبادلے میں رہے اس لیے کسی خاص مقام پر مستقل قیام نہیں کرسکے۔ان کا آبائی گاوں چکریاں ضلع گجرات ہے ۔سید فیملی سے تعلق ہے ان کے دادا اپنے وقت کے مشہور پیر تھے اور چن شاہ پیر کے نام سے مشہور تھے لیکن والد صاحب آرمی میں ہونے کی وجہ سے گدی سے دور رہے اور اس طرح یہ بھی اپنی گدی سے دور ہوتے گئے بعد میں چچاوں نے گدیاں سنبھال لیں اور اب بھی وہی سنبھالے ہوئے ہیں ۔
تعلیم کی تکمیل کے ساتھ ہی توقیر سید نے ایک پرائیویٹ کالج میں بطور معلم تدریس کے فرائض ادا کرنے شروع کیے ابتدا میں میٹرک اور بعد ازاں انٹرمیڈیٹ اور ڈگری کلاسز کی تدریس میں مشغول رہے اور تا حال اسی پیشے سے منسلک ہیں
شاعری کا شوق انہیں کالج میں پہنچ کر پیدا ہوا اور انٹر کالجیٹ طرحی مشاعروں میں حصہ لیتا رہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب میں نے پہلی غزل طرح مصرع پف لکھی جو فیض احمد فیض کی غزل کا مصرع تھا۔
": سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے'"
جب یہ غزل لکھ کر اپنے استاد کو دکھانے کے لیے گیا تو انہوں نے فرمایا۔۔
"میں نہئں سمجھتا کی تمھیں اصلاح کی ضرورت ہے''
اس سے ان کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے ابتداء میں غزلیں اور بعد ازاں نظمیں بھی لکھنی شروع کر دیں۔۔اور انعامات بھی حاصل کرتے رہے ۔
جہاں تک توقیر سید صاحب کی کتابوں کا تعلق ہے تو اس وقت تک چار کتابیں مرتب ہو چکی ہیں لیکن ابھی با قاعدہ شایع نہیں کروا سکے اس کے پیچھے ان کی یہ سوچ ہے کہ شاید اب لوگ اس شوق سے کتابیں نہیں پڑھتے۔۔۔
ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ۔۔آنکھ کا دیپک۔۔دوسرا ۔۔گلہائے نو دمیدہ۔۔تیسرا ۔۔اسے کہہ دو۔۔۔ہیں چوتھی کتاب ابھی مکمل نہیں اس لیے اس کا نام ابھی زیر غور ہے۔۔
ان کی غزلیں مختلف رسائل اور اجبارات میں گاہے گاہے شایع ہو تی رہتی ہیں۔
اور نثری مضامین بھی شایع ہوتے رہتے ہیں
سید صاحب کا ایک مضمون یو کے سے شایع ہوا جس کا عنوان تھا۔۔۔disposable اس کے بعد ایک اور مضمون۔۔i m sorry بھی یو کے سے ہی شایع ہوا ۔
شاہ صاحب کی شاعری کے کچھ نمونے یہاں پیش خدمت ہیں
۔تو بھی غرور حسن کے زنداں میں قید ہے
پابند میں بھی اپنی انا کے حصار میں۔
۔پہلی غزل کی تضمین تھی۔
حسیں لوگ حسیں وقت میں ہی ملتے ہیں
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے۔
۔اس نے بھی ترک تعلق پر لکھی تھی اک کتاب
میں نے بھی توثیق کر دی دستخط کرنے کے بعد
جو فکر کرتے ہیں لیکن مدد نہیں کرتے
تو کیا خیال یے وہ لوگ حد نہیں کرتے۔
موسم غم جو گزرنا ہے گزر جائے گا
درد سینے میں جو اٹھا ہے وہ مر جائے گا۔
شاہ صاحب کو نعت لکھنے کی بھی سعادت حاصل ہے ان کا
سلام بحضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم
کافی عرصہ پہلے مشرق اخبار کے میگزیں اخبار خواتین میں فل صفحہ پر دو اقساط میں شایع ہوا۔
سلام اس پر کہ جس کا نام نامی اسم اعظم ہے
سلام اس ہر جو احمد یے محمد ہے معظم ہے
میں نعت کہتا اگر مجھ کو بالیقیں ملتے
بحسب شان نبی۔لفظ ہی نہیں ملتے۔
توقیر سید