بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے جناب نسیم احمد صاحب کے گھر میں جنم لینے والی غزالہ تبسم صاحبہ بیک وقت ادیبہ، شاعرہ، افسانہ نگار، تبصرہ نگار اور انشائیہ نگار بھی ہیں ۔ انہوں نے ایم اے انٹرنیشنل ریلیشنز کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے ۔ شاعری کا شوق ان کو پچپن سے تھا ۔ وہ نظم اور نثر دونوں میں لکھتی ہیں اور خوب لکھتی ہیں ۔ ہائیکو اور قطعات بھی لکھتی ہیں ۔ کتابوں پر تبصرے بھی کرتی ہیں طنز و مزاح بھی رقم کرتی ہیں ۔ مخلتف شعبوں اور اصناف میں لکھنا اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری ادا کرنا بڑا مشکل کام ہے لیکن غزالہ صاحبہ سب کے ساتھ انصاف کرتی نظر آتی ہیں ۔
انہوں نے 2005 سے شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ نظم اور نثر کی دونوں اصناف میں خوب طبع آزمائی کی ہے اور ان کا یہ ادبی سفر جاری و ساری ہے ۔ وہ نثر میں تو اپنا اصل نام غزالہ تبسم ہی استعمال کرتی ہیں مگر شاعری میں غزال تخلص استعمال کرتی ہیں ۔
غزالہ صاحبہ کی شاعری میں ہجر و فراق اور وصال کا عمل دخل زیادہ دکھائی دیتا ہے ۔ تبسم صاحبہ گزشتہ 3سال سے یوم خواتین پر ادبی ایوارڈ حاصل کرتی آ رہی ہیں ۔ 2019 میں میڈیا ویمن پرسن بلوچستان کا ایوارڈ بھی حاصل کیا ہے ۔ انہوں نے 2002 میں بطور پروڈیوسر پاکستان ٹیلی وژن کوئٹہ سینٹر جوائننگ کی ۔ انہوں نے بطور انائونسر اور نیوز ریڈر بھی ذمہ داریاں ادا کی ہیں اور بطور پی ٹی وی اینکر بھی فرائض انجام دے رہی ہیں ۔ وہ اس وقت پی ٹی وی اسلام آباد سینٹر میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں ۔ بہت سے اعزازات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے پی ٹی وی بولان سے بطور پینل پروڈیوسر لائیو ٹرانسمیشن کرانے کا بھی اعزاز حاصل کیا ہے ۔
غزالہ تبسم صاحبہ کی شاعری سے ایک غزل اور چند منتخب اشعار قارئین کی نذر کئے جا رہے ہیں۔
غزل
میں ہی سکون ہے نہ قرار پایا وصال میں
یہ بڑی عجیب ہے کیفیت ہے کمی ہی کوئی غزال میں
وہ جو دور ہو تو رفیق ہے وہ قریب ہو تو دقیق ہے
میں کروں تو ایسے میں کیا کروں یہی کشمکش ہے خیال میں
وہ حسیں، جمیل ہے خوبرو میں ہوں عام سی لیئے رنگ و لو
وہ ہے آسماں تو زمیں ہے وہ عروج ہے تو زوال میں
تیری جستجو میں نہ کچھ ملا مجھے شرق و غرب پھرا دیا
مجھے تو کہیں بھی نہ مل سکا نہ جنوب میں نہ شمال میں
تیری چاہ نے مجھے کیا دیا مجھے منقسم ہے سلا دیا
میرے پائوں سوئے جنوب ہیں سراسر پڑا ہے شمال میں
وہ جواز تیری نماز کا وہ خراج راز و نیاز کا
وہ جو کل ہے حسن مجاز کا اسے ڈھونڈ حسن خیال میں
نہ قریب ہے نہ وہ دور ہے نہ وہ برق ہے نہ وہ طور ہے
وہ اگرچہ نور ہی نور ہے وہ ملے گا قلب غزال میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شب لیئے بیٹھی ہے بانہوں میں ہمیں
اٹھ رہے ہیں پردے مابین سے
روز ہی وہ پیچھا کرتا ہے میرا
بیٹھتا وہ بھی نہیں ہے چین سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اجنبی نہ کبھی تم نے سمجھا
نہ اپنا کبھی مجھ کو کہہ پائے ہو تم
یہ کس کی نظر چاند کو کھا گئی
مجھے لگ رہا ہے کہ گہنائے ہو تم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلب کو نام نہ دینا لگن دم ساز رکھ لینا
یہ سیکھا آپ سے ہم نے غموں کو راز رکھ لینا
انہیں تم بھول نہ جائو حوادث میں زمانے کے
ذرا محفوظ ان کی ذہن میں آواز رکھ لینا
غزالہ تبسم