شاکر شجاع آبادی صاحب کے تعارف سے پہلے لفظ عہد ساز کی کچھ تشریح اور تعریف ضروری ہے میرے خیال کے مطابق عہد ساز اس شخصیت کو کہا اور مانا یا تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس شخصیت سے ان کے اردگرد کا ماحول اور معاشرہ پوری طرح متاثر ہوتا ہے یعنی وہ ایک متاثر کن خوبیوں کا مالک ہوتا ہے کہ اس کی ہر بات اور ہر عمل سے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور ان کا اثر قبول کرتے ہیں ۔ ماشاءاللہ شاکر شجاع آبادی صاحب کی ذات اور شخصیت میں یہ خوبیاں موجود ہیں ۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں اور جہاں موجود ہوتے ہیں ان کی موجودگی کا سن کر ان کو دیکھنے اور سننے کیلئے لوگ دیوانہ وار کھینچتے چلے آتے ہیں ۔ شاکر صاحب کی شاعری اور الفاظ میں اتنا اثر اور اتنی تاثیر ہے کہ ان کی آواز اور الفاظ سن کر نہ صرف لوگوں پر وجد طاری ہو جاتا ہے بلکہ سامعین کی اکثریت بے ساختہ رونے لگ جاتی ہے جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں ۔
شاکر شجاع آبادی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سرائیکی زبان کے مشہور اور ہر دل عزیز شاعر ہیں۔ جسے سرائیکی زبان کا شیکسپیئر اور انقلابی شاعر کہا جاتا ہے۔ان کا اصل نام محمد شفیع ہے اور تخلص شاکرؔ ہے، شجاع آباد کی نسبت سے شاکر شجاع آبادی مشہور ہے۔
شاکر شجاع آبادی کی پیدائش 25 فروری 1968ء کوشجاع آباد کے ایک چھوٹے سے گاوٗں راجہ رام میں ہوئی جو ملتان سے ستر 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ 2004ء تک بول سکتے تھے، اس کے بعد فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث درست طور پر بولنے سے قاصر ہیں اور ان کا بیٹا نوید شاکر اور ولید شاکر ان کی ترجمانی کرتے ہیں۔۔
حکومت پاکستان کی طرف سے اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے 14 اگست 2006ء میں انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی ملا۔
شاکر شجاع آبادی، جنہیں نظرانداز کردیا گیا۔ان کی شاعری روح کو بے قرار کردیتی ہے اور ان کا نام ایک بڑے ہجوم کو مشاعروں میں کھینچ لاتا ہے۔ اگرچہ وہ بولنے اور چلنے پھر نے میں معذوری کا شکار ہیں، ان کی ہر ایک لائن پر حاضرین جوش میں آجاتے ہیں اور تالیاں بجا کر ان کی تعریف کرتے ہیں۔
سرائیکی زبان کے سب سے زیادہ مقبول شاعر شاکر شجاع آبادی جن کی وجہ سے مشاعروں میں لوگوں کی بڑی تعداد کھنچی چلی آتی ہے، اس ہسپتال کے ایک گندے سے کمرے میں اپنے بیٹے نوید شاکر کے ہمراہ پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے کچھ دوست ان کے علاج کے اخراجات برداشت کررہے ہیں۔اگر شاکر کچھ بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو نوید فوری طور پر ان کے سامنے بیٹھے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ان کے والد کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اگر نوید جو کہتے ہیں وہ درست ہوتا ہے تو شاکر اپنا سر ہلا کر اس کی تائید کردیتے ہیں۔ دوسری صورت میں وہ ایک کاغذ اور قلم اُٹھا کر اپنا مدعا اپنے الفاظ میں تحریر کرکے پیش کردیتے ہیں۔
شاکر شجاع آبادی نے چھٹی جماعت سے پڑھائی چھوڑدی تھی، اور گائیگی شروع کردی، اس لیے کہ وہ اپنی صلاحتیوں کو منوانا چاہتے تھے۔ تاہم وہ گائیکی کے شعبے میں جگہ نہیں بناسکے اور جلد ہی اس کو چھوڑ دیا۔ انہیں احساس ہوا کہ وہ ردیف اور قافیہ بندی کی خوبصورت روانی کے ساتھ شاعری کرسکتے ہیں، تب انہوں نے اپنے اندر کا شاعر دریافت کیا۔
انہیں بہت مبہم سا یاد ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ 1986ء میں ریڈیو پاکستان ملتان کے مشاعرے میں اپنے اشعار پڑھے تھے، لیکن وہ 1989ء کے دوران بہالپور میں جھوک سرائیکی کی جانب سے منعقدہ مشاعرے میں اپنی ناقابلِ فراموش کارکردگی کو نہیں بھلاسکے، جو ان کے ذہن میں اب بھی روشن ہے۔
شاکر شجاع آبادی کے مطابق ’’میں اس وقت پچیس یا چھبیس برس کا نوجوان تھا۔ جس طرح ایک نوجوان کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے، اسی طرح مجھے ڈائس پر پہلے بلایا گیا، جبکہ جانباز جتوئی، پُرفیض، پُرسوز جیسے بڑے ناموں اور دیگر کو مشاعرے کے آخر میں وقت دیا جاتا تھا تاکہ ہجوم برقرار رہے۔‘‘
’’جب میں نے لحن کے ساتھ اپنے اشعار پڑھنا شروع کیے تو مشاعرے کے حاضرین جوش کے ساتھ میرا خیرمقدم کیا۔ جب میں نے اپنے اشعار ختم کیے تو جانباز جتوئی اسٹیج پر آئے اور اعلان کیا کہ مشاعرہ ختم ہوگیا ہے۔ (اس کا مطلب تھا کہ شاکر کے بعد پڑھنے کے لیے کچھ نہیں باقی بچا ہے۔)‘‘
ان کے اشعار میں سے یہ اشعار تو بعد میں کلاسک کا درجہ حاصل کرگئے:
کہیں کو ناز اداواں دا
کہیں کو ناز وفاواں دا
اساں پیلے پتر درختاں دے
ساکو رہیندے خوف ہواواں دا
(یعنی کہ کچھ اپنے انداز کا لطف لیتے ہیں، کچھ کو اپنی وفاداری پر فخر ہوتا ہے، ہم درختوں کے زرد پتے ہیں، ہم ہمیشہ ہواؤں سے خوفزدہ رہتے ہیں۔)
اس مشاعرے کے بعد شاکر نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے اپنی زندگی سرائیکی شاعری کے لیے وقف کردی، جس میں انہوں نے معاشرے کے مظلوم طبقات اور محبت کرنے والوں کی تنہائی پر بات کی۔
1991ء میں بہاولپور میں منعقدہ عالمی اردو مشاعرہ اور ادبی کانفرنس میں ایک ناظر کے طور پر شرکت کے لیے گئے۔جب حاضرین کی نظر ان پر پڑی تو انہوں نے ان کے نام کا نعرہ لگانا شروع کردیا۔ اسٹیج سیکریٹری نے انہیں چند منٹ کے لیے ڈائس پر مدعو کیا۔ ان کے اشعار دوبارہ اس دن زبان زدِعام ہوگئے۔ ہندوستان، کینیڈا اور امریکا سے آئے ہوئے شاعروں نے شاکر کو سرائیکی زبان کا ایک عظیم شاعر قرار دیا۔
ان کی مقبولیت کے بڑھتے ہوئے گراف کے ساتھ ہی ان کی کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ پبلشروں نے ان کی ایک درجن سے زیادہ کتابیں شایع کیں، لیکن شاذونادر ہی انہیں رائیلٹی کی ادائیگی کی گئی۔ان کی مقبول کتابوں میں لہو دا عرق، پیلے پتر، بلدین ہنجو، منافقاں تو خدا بچاوے، روسیں تو ڈھاڑیں مار مار کے اور گلاب سارے تمہیں مبارک شامل ہیں۔
2004ء میں وہ اسٹروک کا شکار ہوگئے، جس نے ان کی بات چیت اور جسمانی نقل و حرکت کو شدید متاثر کیا۔شعرو شاعری کے چوبیس برسوں کے دوران شاکر نے ہزاروں دوہرے، قطعے، گیت اور غزلیں لکھیں۔ کافی اور نظم کی کلاسیکی قسم نے انہیں زیادہ متاثر نہیں کیا۔وہ کہتے ہیں ’’کافی بات چیت کا ایک سادہ انداز ہے، جبکہ نظم ایک بات چیت بھی نہیں ہے۔ میرے نکتہ نظر کے مطابق ایک غزل کے ایک مصرعے میں آپ پوری کائنات کا احاطہ کرسکتے ہیں۔‘‘
یہ عوامی شاعر 15 برسوں سے چلنے پھرنے سے قاصر ہے تاہم یہ نڈھال نہیں ہوا۔ ڈاکٹروں کے مطابق وہ اپنی پیدائش سے ہی چلنے پھرنے میں خرابی کا شکار تھے۔انہیں سر اور گردن کی حرکت میں دشواری کا سامنا ہے۔ میڈیکل بورڈ کی ایک رپورٹ کا انتظار ہے۔ ان کے بیٹے نوید کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کے والد کے بیرون ملک علاج کا انتظام کرے۔
نوید کہتے ہیں کہ ان کے والد نے اپنی زندگی شاعری کے لیے وقف کردی۔ ان کے دوہرے سرائیکی خطے میں گھرگھر عام ہیں۔ لیکن بڑے پیمانے پر انہیں تسلیم کیے جانے کا یہ رویہ کبھی مالی راحت کا سبب نہیں بنا۔
فروری 2014ء میں وزیراعظم نواز شریف نے شاکر کے لیے ایک ملازمت، ماہانہ وظیفے اور ایک گھر کا اعلان کیا تھا۔
اس وعدے پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ بعد میں جنوری 2016 میں وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ان کے لیے پچیس ہزار روپے کے ماہوار وظیفے کا اعلان کیا، لیکن اس کی ادائیگی صرف ایک مرتبہ اس جنوری 2016 میں کی گئی۔
ایک بار ہائی کورٹ نے ان کی بیماری اور غربت زدہ زندگی کا نوٹس لیتے ہوئے شجاع آباد کے حکام سے ایک رپورٹ طلب کی تھی۔ عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے انہیں ایک مرتبہ نشتر میڈیکل ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا ’’میرے والد بیمار ہیں۔ انہیں احترام اور مناسب علاج کی ضرورت ہے، نہ کہ جھوٹے وعدوں کی جن کے خلاف وہ ساری زندگی لکھتے رہے۔‘‘
شاکر شجاع آبادی کی تعلیم پرائمری ہے لیکن ان کا کلام اس وقت پانچ یونیورسٹیوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہالورپور۔۔
بہاءالدین یونیورسٹی ملتان ۔۔
ایگری کلچرل یونیورسٹی فیصل آباد ۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد۔
شاکر شجاع آبادی صاحب کہتے ہیں کہ میں سائنسدان بننا چااھتا تھا مگر آڑے آ گئ مگر اب کچھ نہ کچھ خواب پورا ہوا کیوں کہ لوگ میرے کلام کے اوپر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
سرائکی کلام تو آپ نے بہت سنا پڑھا ہو گا ان کا ان کا تھوڑا سا اردو کلام ملاحظہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستم کو اپنے قدرت سا کبھی انداز مت دینا
وہ بے آواز لاٹھی ہے اسے آواز مت دینا
ستم جب لوٹتے ہیں تو ستم گر پر جھپٹتے ہیں
ستم جیسے عقابوں کو کھلی پرواز مت دینا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھونکا ہوا کا تھا آیا گزر گیا
کشتی میری ڈبو کےدریا اتر گیا
میرے پیار پہ جو صدقہ میرے یار نے دیا
دیکھا جو غور سے تو میرا ہی سر گیا
بٹتی ہیں اب نیازیں اس کے مزار پر
کچھ روز پہلے جو شخص فاقوں سے مر گیا
مجھے قتل کر کے شاکر وہ رویا بے پناہ
کتنی ہی سادگی سے قاتل مکر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ان کا ایک سرائیکی قطع
ساری زندگی نفرت کیتی ہم ہنڑ الفت نال نبھا ڈیکھاں
میں ہر ھک سجنڑ کُوں ڈیکھ گِدا اے ہنڑ دشمنڑ کُوں بنڑا ڈیکھاں
جے کُو یار بنڑایا او چھوڑ گیا اے نسخہ ول آزما ڈیکھاں
متاں دکھ وی شاکر چھوڑ ونجے دکھ نال ہنڑ یاری لا ڈیکھاں
۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈا حال ثبوت هے اجڑن دا،
آغاز وی میں انجام وی میں.
بندے جانڑدے هن پہچانڑدے نئیں،
مشہور وی میں گمنام وی میں.
اوہ نئیں ملیا، مت مل گئ ہے،
کامیاب وی میں ناکام وی میں.
میڈے "شاکر" گناہ هن گردن تائیں،
معصوم وی میں بدنام وی میں.
۔۔۔۔۔۔۔۔
اج موسم ھے تیڈی یادیں دا
میکوں بھاندا پئے اج ھوویں ہا
ھے یار ہوا اج جھمریں وچ
جھڑ گاندا پئے اج ھوویں ہا
ترِم چھت پووے متاں پلکیں دی
ڈر کھاندا پئے اج ھوویں ہا
میڈے شہر اچ شاکر مونجھیں دا
مینہہ آندا پئے اج هوویں ہا