اردو زبان و ادب کا اگر رومانوی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو اس میں ادباء و شعراء اور شاعرات کے معاشقوں کی کئی دلفریب اور دل گداز داستانیں، قصے اور کہانیاں ملیں گے ۔ عشق، پیار اور محبت و مروت کی اس راہ میں کئی حسرتیں بکھری ہوئی ملیں گی ۔ کف افسوس ملتے ہوئے کئی عشاق،دیوانے، دیوانیاں، لیلائیں اور مجنوں ملیں گے ۔ بہت سے ادیب، شاعر اور شاعرات اپنے من کی مرادیں پا گئے لیکن اس راہ میں جو رل گئے، محبوب اور محبوبہ کو پانے یا حاصل کرنے میں ناکام رہے ان میں ساحر لدھیانوی، امرتا پریتم، جون ایلیا اور مینا کماری کے نام سر فہرست ہیں ۔ ساحر کو چھوڑ کر باقی تینوں یعنی امرتا پریتم، جون ایلیا اور مینا کماری ناکام محبت میں عبرت کا نشاں بن کر رہ گئے ۔
برصغیر کے اردو ادب میں جس قدر بے باک اور آزاد خیال حسین و جمیل عورت امرتا پریتم منظر عام پر آئیں اس طرح کی آزاد خیالی اور بے باکی فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، مینا کماری ،زاہدہ حنا ، عصمت چغتائی اور سلمی آغا میں بھی دیکھنے میں نہیں آئی لیکن وائے قسمت کہ اتنی خوب صورتی، آزاد خیالی اور بہت بڑی بلکہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیبہ اور شاعرہ ہونے کے باوجود امرتا پریتم اپنے من کی مراد نہیں پا سکیں ۔ ان کی منزل ان کا پیار، عشق اور محبت سمیت سب کچھ مشہور عالم شاعر ساحر لدھیانوی تھے جن کے ساتھ زندگی کا زیادہ تر حصہ ایک ساتھ گزارنے کے باوجود وہ انہیں حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہیں ۔ یہ امرتا پریتم اور ساحر لدھیانوی دونوں کی زندگی کا بہت بڑا المیہ تھا ۔ دونوں کو ایک دوسرے سے بے پناہ محبت تھی بظاہر ان کے درمیان کوئی رکاوٹ بھی باقی نہیں رہی ھی لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے قریب رہ کر بھی ایک دوسرے سے نہیں مل سکے اور زندگی بھر کا یہ معمولی سا فاصلہ بھی طئے یا عبور نہ کر سکے ۔
امرتا پریتم اور ساحر لدھیانوی کے درمیان جو اخلاقی، مذہبی اور قانونی جس طرح کی بھی رکاوٹیں تھیں وہ امرتا پریتم نے سب دور بھی کر دیئے مگر اس کے باوجود وہ ناکام رہیں ۔ امرتا پریتم کا تعلق سکھ خاندان سے تھا اور وہ شادی شدہ بھی تھیں لیکن جب ان کی اور ساحر کے درمیان لاہور کے ایک مشاعرے میں پہلی ملاقات ہوئی تو دونوں ایک دوسرے سے اپنا دل ہار بیٹھے ۔ اس وقت دونوں کی عمر 20 یا 22سال کے لگ بھگ تھی ۔ امرتا پریتم نے اپنے ہم مذہب امروز نامی سکھ نوجوان سے نئی نئی نئی شادی کی تھی ۔ لیکن امرتا پریتم اتنی آزاد خیال اور نڈر تھیں کہ انہوں نے اپنے والدین، شوہر اور معاشرے کے رسم و رواج کو نظر انداز کر کے ساحر کو لاہور کے انار کلی بازار میں واقع اپنے گھر آنے کی دعوت دے ڈالی ۔ ساحر کو اکیلے ان کے گھر جانے میں خوف سا محسوس ہوا اس لیئے وہ اپنے قریبی دوست حمید اختر کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ امرتا نے اپنے شوہر اور سسر کے گھر میں موجودگی کے دوران ملاقات کی ۔ ان کو اپنے نازک ہاتھوں سے چائے بنا کر پیش کی اور ان کے سامنے بیٹھ گئیں ۔ یہ ملاقات بہت عجیب قسم کی تھی کہ دو چاہنے والوں کے درمیان دوسرے لوگ بھی موجود تھے اس لیے کھل کر بات نہیں ہو سکتی تھی ۔ امرتا کو اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی مگر ساحر کیلئے بہت بڑا مسئلہ تھا ۔ امرتا باتیں کرتی رہی اور ساحر خاموشی کے ساتھ سنتا اور سگریٹ پیتا رہا اور اس طرح پہلی ملاقات ختم ہو گئی ۔
امرتا پریتم اور ساحر لدھیانوی کے درمیان ملاقاتوں کا یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہا ۔ اس دوران امرتا کو 3 بچے بھی پیدا ہوئے ۔ جب وہ پہلی مرتبہ حاملہ ہوئی تو اس نے سائنس کے اس فارمولے پر عمل کیا کہ اگر حاملہ عورت حمل کے دوران کسی کا بھی ذہن میں تصور کرے تو اس کے بچے کی شکل اسی کے مشابہ ہوگی ۔ امرتا نے اس پر عمل کیا اور اس کا پہلا بیٹا نوراج ہوبہ ہو ساحر کے ہم شکل پیدا ہوا ۔ بعد میں جب نوراج کی عمر 13سال کو پہنچی تو اس نے اپنی ماں سے سوال کیا کہ مما سچ بتائیں کیا میں انکل ساحر لدھیانوی کا بیٹا ہوں ،لوگ مجھے ایسا کہتے ہیں امرتا نے بڑی حسرت سے کہا بیٹا تم اس کے بیٹے نہیں ہو۔
امرتا پریتم نے یہ سمجھا کہ شاید میرے اور ساحر کے درمیان شادی اور مذہب رکاوٹ ہے تو اس نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی اور مذہب سے اس کا ویسے بھی کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود ساحر نہ صرف شادی پر آمادہ نہ ہوا بلکہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ساحر لدھیانوی نے اتنی قربتوں کے باوجود کبھی بھی بلکہ زندگی بھر اپنی زبان سے امرتا پریتم سے پیار کا اظہار نہیں کیا جبکہ امرتا کی حالت یہ تھی کہ وہ ساحر ساحر کا ورد کرتی رہتی تھی حد تو یہ ہے کہ ایک بار میڈیا کے نمائندے امرتا پریتم سے انٹرویو کرنے آئے تو وہ جب تک اس کے ساتھ بیٹھے رہے وہ خالی کاغذ پر بے ساختہ ساحر ساحر لکھتی رہی اور میڈیا والے یونہی واپس چلے گئے ۔ کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ امرتا پریتم بہت بہادر عورت تھی اور اس کے مد مقابل ساحر لدھیانوی بہت ڈرپوک اور بزدل مرد تھا جو کہ لفظ پیار کو بھی ادا کرنے سے ڈرتا تھا ۔ وہ جو ایک شعر ہے نا کہ
رانجھا رانجھا کر کے میں آپے رانجھا ہوگئی
امرتا پریتم کےساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ جب بھی تنہائی میں ان دونوں کی ملاقات ہوتی تھی تو امرتا پیار اور محبت کی باتیں کرتی تھی اور ساحر لدھیانوی سگریٹ پھونکتا رہتا تھا ۔ امرتا اس کی سگریٹوں کے ٹوٹے اٹھا کر چومتی رہتی اور پھر خود بھی سگریٹ پینے لگی ۔ ایک بار راجیندر سنگھ بیدی نے امرتا پریتم سے سوال کیا کہ کیا واقعی آپ کے بیٹے نوراج کا باپ ساحر لدھیانوی ہے تو امرتا پریتم نے ایک لمبی اور سرد آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ساحر میرے بیٹے کا تخیلاتی باپ ہے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ساحر لدھیانوی تجرد کی زندگی گزار کر یعنی شادی کیئے بغیر انتقال کر گئے اور امرتا پریتم یاس و حسرت کی تصویر بن کر رہ گئی تھی ۔ اپنی شاعری میں دنیا کے شہنشاہوں اور سامراجیت کو للکارنے والا شاعر اپنی محبوبہ کو نہ جانے کس انجانے خوف کے باعث " مجھے تم سے محبت ہے " یا موجودہ دور کے مطابق " آئی لو یو " بھی نہ کہہ سکا ۔ نہ جانے ایسا کیا راز تھا جو ساحر لدھیانوی اپنے سینے میں لے کر زمین کے سپرد ہو گئے ۔