کہتے ہیں ایک لکھاری اور قلمکار لکھنو سے لاہور تک سیکڑوں میل سفر کر کے اس غرض سے ہیرا منڈی پہنچا کہ وہ کسی طوائف کا انٹرویو کر کے ان کے طوائف بننے یا بنانے کی وجوہات معلوم کر سکے ۔ جب اس کی ملاقات ہیرا منڈی کی ایک حسین و جمیل طوائف سے ہوئی تو طوائف نے مجھ جیسے برائے نام لکھاری سے سوال کیا کہ صاحب آپ کہاں سے اور کیونکر مجھ سے انٹرویو کرنے آئے ہیں؟ قلمکار نے جواب دیا کہ میں آپ سے یہ معلوم کرنے آیا ہوں کہ آپ عزت کی زندگی گزارنے کی بجائے اس معیوب دھندے سے کیوں وابستہ ہو گئی ہیں ؟۔ طوائف نے لکھاری سے کہا کہ مجھے یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ آپ ایک لنڈے کے لکھاری ہیں ۔ کیا لکھنو میں طوائفیں نہیں تھیں کہ آپ اتنے سیکڑوں اور ہزاروں کلو میٹر کی مسافت کر کے لاہور پہنچے ہیں ۔
طوائف نے لکھاری سے مخاطب کر کے بولنا شروع کر دیا کہ جس قلمکار کو اپنے ارد گرد کے حالات کا علم نہ ہو یا وہ ان سے جان بوجھ کر چشم پوشی کرے یا اس میں یہ جرئت ہی نہ ہو کہ اپنے ارد گرد کی معاشرتی برائیاں اجاگر نہ کر سکے یا اس کو وہ آنکھیں ہی نہ ہوں جن سے دیکھا جا سکتا ہے ایسے لکھاری کو لنڈے بازار کا لکھاری یا جگاڑی قلمکار یا بزدل اور ڈرپوک یا قلم فروش ہی کہا جا سکتا ہے ۔ طوائف نے اپنا دانشورانہ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جس معاشرے میں سیاستدان ضمیر فروش بن جائیں ہر موقع پر حیوانوں کی طرح بکتے رہیں جس معاشرے میں افسران بددیانت، کرپٹ اور مطلب پرست واقع ہوں جس معاشرے میں جج غریب اور کمزور کو انصاف نہ دے سکیں جہاں پولیس سمیت سرکاری محکموں کے اہلکار اوپر سے لے کر چپراسی تک رشوت لینا اپنا حق سمجھیں ایسا معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے ۔
طوائف نے لکھاری سے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ جس معاشرے میں وکیل قاتل،دہشت گرد، بدمعاش اور غنڈے کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگا دے جس معاشرے میں ڈاکٹر مریض کی بجائے اس کی جیب پر نظر رکھ کر اپنی دولت میں اضافہ کرتا رہے اور پھر بھی مقدس پیشہ ور کہلاتا ہو جہاں کے عوام ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر منتخب کریں اور ان کو اپنا لیڈر کہیں جو دن کو تو خود کو معزز ثابت کرنے میں لگے رہیں لیکن رات کو مجھ جیسی کسی طوائف کا مہمان بنے یا میزبان بنے جس معاشرے میں استاد اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرے لیکن پھر بھی فخریہ کہے کہ ہم پیغمبری کے پیشے وابستہ ہیں جس معاشرے کے علماء ، پیر اور گدی نشین اپنے اصل مقاصد سے ہٹ جائیں پھر بھی خود کو انبیاء کے وارث اور مصلح کہلائیں اور جس معاشرے میں آپ جیسے لکھاری آنکھیں بند کر کے بلکہ خوشامدی اور چاپلوسی میں لگے رہیں اور خود کو معزز قلمکار کہلائیں ایسے لوگوں سے ہم طوائف اس لیئے بہتر ہیں کہ ہم فقط اپنا جسم فروخت کرتی ہیں لیکن آپ لوگ پورے معاشرے کو فروخت کرتے ہیں ۔