ہندوستان کا شمار دنیا کے قدیم اور عظیم ممالک میں ہوتا ہے اور یہ وہ ملک ہے جس میں زندگی کے تمام شعبوں میں کثیر تعداد میں باصلاحیت اور باکمال لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ عطاء عابدی صاحب بھی ایسے ہی باکمال افراد میں سے ایک ہیں ۔ عابدی صاحب بہ یک وقت ادیب و شاعر، محقق ،نقاد اور صحافی ہیں ۔ قدرتی صلاحیتوں کے لحاظ سے تو وہ بہت خوش نصیب اور خوش قسمت واقع ہوئے ہیں مگر قدرتی آفات اور صدمات کے لحاظ سے وہ رنج و غم، دکھ اور عظیم صدمات کے حامل افراد کی فہرست میں شامل ہیں ۔ عطا عابدی صاحب یکم نومبر 1962 کو برہولیہ( دربھنگہ) ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد صاحب کا نام عابد حسین انصاری اور والدہ محترمہ کا نام سائرہ خاتون ہے ۔ عطا عابدی کا اصل نام محمد عطا حسین انصاری ہے جبکہ عطا عابدی ان کا قلمی نام ہے۔ عطا عابدی صاحب نے ایم اے اردو تک تعلیم حاصل کی ہے اور پی ایچ ڈی بھی کر چکے ہیں ۔ حصول تعلیم کے بعد انہوں نے سرکاری ملازمت حاصل کی، وہ اردو بہار قانون ساز کونسل میں انتظامی افسر کے عہدے پر فائز ہو گئے ۔
عطا عابدی صاحب کو شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا اس لیئے انہوں نے نوجوانی سے شاعری شروع کر دی ۔ انہوں نے شاعری کی مختلف اصناف، غزل، نظم، قطعہ، رباعی، حمد و نعت اور جاپانی صنف ہائیکو میں بھی خوب طبع آزمائی کی ہے جبکہ تحقیق و تنقید اور صحافت کے شعبے میں بھی انہوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے ۔ شاعری میں انہوں نے اویس احمد دوراں، نامی ناروی اور ناوک حمزہ پوری سے اصلاح اور رہنمائی حاصل کی ۔
عطا عابدی صاحب کو پے در پے سانحات اور صدمات نے ہلا کر رکھ دیا 5 دسمبر 1983 کو ان کے والد صاحب کا انتقال ہوا 3 دسمبر 1986 کو ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا 1987 میں تباہ کن سیلاب کے باعث ان کے گھر کا سارا سامان وغیرہ سیلاب کی نذر ہو گیا 6 نومبر 1994 کو ان کے بڑے بھائی محمد الطاف حسین انتقال کر گئے 12 جولائی 1999 کو ان کے 7 سالہ معصوم اور اکلوتے بیٹے عطاء اللہ مظفر کو شہید کیا گیا اور 18 ستمبر 2003 کو ان کے گھر میں امید کی کرن بن کر بیٹا پیدا ہوا لیکن وائے افسوس کہ وہ بچہ ایک دن کے بعد فوت ہو گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری پر رنج و الم کا اثر زیادہ اور نمایاں رہتا ہے ۔اسی تناظر میں ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو
میں اشکوں سے ہی لیکن زندگی کے شعر لکھتا ہوں
جو کوئی دوسرا ہوتا تو اپنا مرثیہ لکھتا
اتنے سارے عظیم صدمات کے باوجود انہوں نے علمی و ادبی، تحقیقی، تنقیدی اور صحافتی خدمات کو کسی نہ کسی طرح جاری رکھا ۔ عابدی صاحب کی علمی و ادبی اور تحقیقی خدمات تاریخی اہمیت کی حامل ہیں ۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک تاریخ رقم کر دی ہے ۔ انہوں نے 20 سے زائد کتابیں لکھی ہیں جن میں سے ایک درجن کے لگ بھگ کتابیں شائع ہو چکی ہیں ان کتابوں میں حمد و نعت اور دیگر اصلاحی نظموں پر مشتمل 3 کتب آئینہ عقیدت ، بے عکس عقیدت اور افکار عقیدت باالترتیب 1987، 2002 اور 2007 میں شائع ہوئی ہیں ۔ غزلیات، قطعات، رباعیات اور ہائیکو پر مشتمل ان کی کتابیں، بیاض، نوشت نوا، زندگی، زندگی اور زندگی اور دریچے شامل ہیں ۔ تنقید و تحقیق پر مشتمل 2 کتب، مطالعے سے سے آگے اور شعر اساس تنقید شایع ہوئی ہیں ۔ اس کے علاوہ دیگر کتب ادب اطفال، مناظرے مذکر و مونث کے، اور خوشبو خوشبو نظمیں شایع ہوئی ہیں جبکہ مکالمے اور ترتیب کے حوالے سے ،سقوط ماسکو اور ترقی پسند ادب 2018 میں شائع ہوئی ۔ ترتیب کے حوالے سے محسن رضا رضوی کی " عکس اشک " سلیم انصاری کی " فصل آگہی " تشکیل و تعبیر اور حمزہ پوری کے مضامین کا مجموعہ بھی شایع کیا ہے ۔
عطا عابدی صاحب عظیم صدمات اور سانحات کے باوجود چٹان جیسا حوصلہ مند انسان ثابت ہوا ۔ انہوں نے اپنا ادبی و شعری، تحقیقی و تنقیدی اور صحافتی سفر جاری رکھا ۔ ان کی غیر مطبوعہ کتب کی تعداد بھی 12 کے لگ بھگ ہے جن میں تجدید، شخصیات، ملاقات و مکالمات، افکار و جہات، اپنے پائوں چلنے والا پتھک، عکس ہائے دور دراز، فن اور فنکار، افکار مجاہد، اور جنگ جاری ہے، و دیگر تصانیف شامل ہیں ۔ وہ مختلف اخبارات اور رسائل اور جرائد کے ایڈیٹر، سب ایڈیٹر، رکن مجلس مشاورت اور رکن مجلس ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں ۔ بہترین ادبی، و تحقیقی اور صحافتی خدمات کے اعتراف میں ان کو درجنوں ایوارڈز اور اعزازت سے نوازا گیا ہے جن میں ایوارڈ ادارہ راوی لندن، بہار اردو اکادمی اور الطاف حسین حالی ایوارڈ و دیگر شامل ہیں ۔
عطا عابدی صاحب کی خوب صورت، دلگداز اور فکری شاعری سے چند منتخب اشعار معزز قارئین کے ذوق کی نذر ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ منتخب اشعار ۔۔۔۔۔۔۔
جب قلم ہاتھ آیا تو عطا ایسا لگا
اک ملاقات زمانے کی زمانے سے ہوئی
تو جو آتی ہے بے چین سا ہو جاتا ہوں
اے مرے گائوں کی خوشبو تو ادھر مت آنا
طلوع ہوتے ہی سورج کو جیب میں رکھ کر
مجھی سے پوچھتے ہیں لوگ صبح کیسی ہے
روایت کا ہے اب بھی سحر قائم
ہر اک جدت پرانی ہو گئی ہے
اسی غم نے تو زندہ رکھا مجھ کو
کہاں سے لائوں گا مر کر کفن میں
سوا نیزے پہ سورج آن پہنچا
اور اس عالم میں ہوں ننگے بدن میں
سبھی افراد گھر کے سو گئے ہیں
بہت لمبی کہانی ہو گئی ہے
پس چہرہ ملا اک اور چہرہ
عقیدت پانی پانی ہو گئی ہے
عطا عابدی